[ad_1]
ماں ایک عظیم خاتون
ماں ایک باشعور اور عظیم خاتون ہے جو بچوں کی زندگی میں باد صبا کی مانند اور اولاد کے لئے طرح طرح کی تکلیفیں برداشت کرکے اپنی آرزوؤں کا گلا گھونٹ دیتی ہے۔کبھی اپنی خواہشات کو خاک میں ملاکر اپنی خوشیوں کا جنازہ نکال دیتی ہے۔جو خود نہیں کھاتی اپنے بچوں کو کھلاتی ہے۔آج معاشرے میں ایسے ایسے نوجوان ہیں جو اپنی ماں کو گالیاں دیتے مارتے یہاں تک کہ اس کے خود کے گھر سے نکال دیتے ہیں۔اُنہی لوگوں کے لئے الله رب العزت نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:،،اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو،اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہوں نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا اور ان کے لئے عاجزی کا بازا بچھا،نرم دلی سے اور عرض کیا کہ اے میرے رب تو ان دونوں پر رحم کر جیسا کہ ان دونوں نے مجھے چھٹین( بچپن)میں پالا,۔(اسرا:23)
،،اور ہم نے آدمی کو اس کے ماں باپ کے بارے میں تاکید فرمائی اس کی ماں نے اسے پیٹ میں رکھا کمزوری پر کمزوری جھیلتی ہوئی اور اس کا دودھ چھوٹنا دو برس میں ہے یہ کہ حق مان میرا اور اپنے ماں باپ کا اور آخر مجھی تک آنا ہے،،۔(لقمان:14)
اپنے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا معاملہ کرو، انہیں بھلا برا مت کہو!یہاں تک کہ اف تک نہ کہو۔ انہیں مت جھڑکو بلکہ نرمی کے ساتھ پیش آؤ،ادب واحترام سے کلام کرو(بنی اسرائیل)
قارئین!آپ کے ذہن میں یہ سوال ابھرے گا کہ آخر ایسا کیوں کر ہے؟وہ بھی تو انسان ہے مگر اتنی تاکید کیوں دی جارہی ہے کہ تم اسے اف تک نہ کہو؟ جب یہ سوال آپ کے ذہن میں ابھرے گا تو ماں کا لطف وکرم آپ سے سوال کرے گا کہ بیٹا بھول گئے کیا؟وہ میں ہی ہوں جس نے تمہیں اپنے جگر کے خون کا دودھ بناکر پلایا،وہ میں ہی ہوں جب تو بستر پر پیشاب کردیا کرتا تو میں تمہیں دوسری جانب سلادیا کرتی اور جب تو دوسری جانب بھی پیشاب کردیا کرتا تو میں تمہارے پیشاب کیے جگہ پر سو جایا کرتی اور تجھے اپنے سینے پر سلایا کرتی تھی۔بیٹا!وہ میں ہی ہوں جو تمہیں اپنے شکم میں نو مہینے تک بوجھ اُٹھائے لئے پھرتی رہی اور تمہارے وزن سے ہونے والے درد کو برداشت کرتی رہی۔
مدرس ڈے منا کر اپنی ماں سے جھوٹی محبت کرنے والو!اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھو کہ آج ہمارے سینوں میں اپنی ماں کے لئے کتنی محبت ہے؟اُنہوں نے گلشنِ قلب میں کتنے پھول کھلائے ہیں پھر بھی ہم ان کے احسانات شفقتوں اور محبتوں کے بدلے میں ان کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں؟ہم میں سے اکثر و بیشتر لوگ اپنے والدین کی نافرمانی کرتے اور اُنہیں تکلیف دیتے ہیں۔اپنے والدین کی محبت کے لگائے ہوئے چمن کے پھولوں کو قدموں سے مسل دیتے ہیں پھر بھی ایک ماں اپنے بیٹے کو کبھی بد دعا نہیں دیتی۔اگر کچھ کہتی بھی ہے تو دل سے نہیں کہتی بلکہ خداوند قدوس سے یہی دعا کرتی ہے کہ اے میرے رب!تو ہمارے لعل،لخت جگر،نور نظر کو ہدایت کے ساتھ ہمیشہ سکون و راحت کی زندگی عطا فرما۔
حضرتِ ابوہریرہ رضی الله:عنہ سے روایت ہے:
ایک شخص آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس آیا، عرض کیا یارسول الله!(صلی ﷲ علیہ وسلم)لوگوں میں سب سے زیادہ حسن سلوک کا مستحق کون ہے؟آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:تیری ماں۔پھر کون؟فرمایا تیری ماں۔پھر کون؟اسی طرح تین مرتبہ آپ نے ماں فرمایا۔چوتھی بار فرمایا کہ تیرا باپ(متفق علیہ)
یہاں غور کرنے کا مقام ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ماں کا مرتبہ باپ سے تین گنا زیادہ فرمایا۔کیوں کہ ماں ہی ایک ایسی ہستی ہے جس کے پیروں تلے جنت ہے۔آج ہم اس ماں کو جس کو الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے باپ کے مد مقابل تین گنا زیادہ مرتبہ دیا ہے اس کو گالی دیتے اور مار پیٹ کر گھر سے نکالنے پر تلے ہوئے ہیں۔
دوسری جگہ حضورِ اقدس صلی الله علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:،،اس کی ناپاک مٹی ہو،اس کی ناپاک مٹی ہو،اس کی ناپاک مٹی میں ہو جو اپنی ماں کو بڑھاپے میں پائے اور جنت میں داخل نہ ہو،،۔ (رواہ مسلم)
والدین کے ساتھ بدسلوکی کرنے والو!آگاہ ہو جاؤ کہ کلمہ شہادت پڑھنا نصیب نہ ہوگا۔حضرتِ عبد الله بن سلام رضی الله عنہ بستر مرگ پر تھے،سرکارِ دو عالم صلی الله علیہ وسلم کا آخری دیدار کرنا چاہتے تھے آپ صلی الله علیہ وسلم نے عبد الله کے سرہانے جاکر فرمایا:اے عبد الله پڑھ،،اشهد ان لا اله الا الله،،مگر وہ نہیں پڑھ سکے۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے اسی طرح تین مرتبہ پڑھنے کو فرمایا،مگر وہ نہ پڑھ سکے۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کی بیوی سے پوچھا کہ دنیا میں ان کے اعمال کیسے تھے اور ان کا مشغلہ کیا تھا؟جواب دیا یارسول الله!(صلی ﷲ علیہ وسلم)الله کی قسم!جب سے اُنہوں نے مجھ سے نکاح کیا ہے میں نہیں جانتی کہ سرکار عليك التحية والثناء کے پیچھے ان کی کوئی نماز چھٹی ہو۔ہاں ان کی ماں ان سے ناراض ہے۔آپ نے ان کی والدہ کو طلب فرمایا۔فرمایا:اے ضعیفہ!اگر تم اپنے بیٹے کو معاف کر دو تو تمہارا حق میرے ذمہ ہے۔اس ضعیفہ نے عرض کی یارسول الله!(صلی ﷲ علیہ وسلم)آپ اور آپ کے اصحاب گواہ ہیں کہ میں نے اسے معاف کردیا۔اس کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم حضرت عبد الله سے کلمہ شہادت پڑھواتے ہیں اور پڑھنے کے ساتھ ہی ان کی روح پرواز کر جاتی ہیں۔جب ان کی نمازِ جنازہ اور دفن سے فارغ ہوئے تو رسولِ کریم صلی الله علیہ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ اے لوگو!آگاہ ہو جاؤ کہ جو شخص اپنی والدہ کے ساتھ اچھا سلوک نہ کرے اسے دنیا سے کوچ کرتے وقت کلمہ شہادت پڑھنا نصیب نہ ہوگا۔کیا ہم جنت نہیں چاہتے۔جنت تو ماں کے قدموں تلے ہے۔،،الجنة تحت اقدام امهات،،اگر ہم جنت چاہتے ہیں تو جس طرح ماں نے آپ کو بچپن میں پالا تھا اسی طرح آپ بھی ان کی خدمت کیجئے۔
[ad_2]
Source link