’’اب میں تم کو کیسے یہ بات سمجھاؤں،فہد مصطفیٰ کو تو جانتے ہی ہو گے،پاکستانی ٹی وی اور فلم انڈسٹری کیلیے وہ شاہ رخ خان سے کم نہیں ہے،حال ہی میں اس کا ایک ڈرامہ بڑا مشہور ہوا،اس میں بھی ایک بات دکھائی گئی تھی کہ والدین بھی اس بیٹے کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں جو زیادہ کماتا ہے، کم کمانے والا بیٹا چاہے جتنا ہونہار ہو اس کو کم ہی لفٹ ملتی ہے۔
آئی سی سی کا بھی یہی معاملہ ہے،چونکہ اس کی بیشتر آمدنی بھارت سے ہوتی ہے لہذا وہ بات بھی اسی کی سنتی ہے‘‘
کرکٹ حلقوں میں خاصی گہری واقفیت رکھنے والے ایک بڑے صاحب سے میری یہ گفتگو ہو رہی تھی تو اپنا پوائنٹ سمجھانے کیلیے انھوں نے یہ مثال دی،اس پر میں نے جواب دیا کہ والدین کا پیار سب کیلیے یکساں ہوتا ہے،آئی سی سی کو کردار تو ایسا ہی نبھانا چاہیے مگر بدقسمتی سے اس کیلیے بھارت ہی سگا دیگر سوتیلے ہیں،اسی لیے ہمیشہ کوئی بھی مسئلہ ہو اور اگر اس میں بھارت شامل ہے تو اسی کو درست سمجھا جاتا ہے۔
مگر اب یہ نہیں چلے گا،اس بار بھارتی ٹیم پاکستان ضرور آئے گی،میری یہ بات سن کر وہ مسکرائے اور کہنے لگے کہ ‘‘پہلے تو یہ بات ذہن نشین کر لو کہ تم ابھی کسی ٹی وی شو میں بات نہیں کر رہے،حقیت کی نگاہ سے دیکھو تو بھارتی ٹیم کے آنے کا ایک فیصد بھی امکان نہیں ہے،اگروہ آئی تو میں اپنی مونچھیں کٹوا دوں گا’’ مگر آپ کی مونچھیں تو ہے ہی نہیں جب میں نے یہ کہا تو وہ غصے سے کہنے لگے ‘‘ مجھے تم سے اسی احمقانہ بات کی توقع تھی سچ میں ایسا کون کرتا ہے،تم نے خود اپنے کسی کالم میں یہ بات لکھی تھی کہ کرکٹ ٹیم کے آنے کا مطلب پاکستان اور بھارت میں عوامی سطح پر روابط کی بحالی ہے۔
ایسا سب سے آخر میں ہی ہوگا،ابھی دونوں ممالک کے تعلقات اس معیار پر نہیں پہنچے،جب تک بی جے پی کی حکومت ہے ایسا ممکن بھی نہیں لگتا،اس مسئلے کے چند ممکنہ حل ہیں یا تو بھارتی ٹیم ایک میچ کھیلنے ہی پاکستان آ جائے اور شام کو واپس چلی جائے، پی سی بی ہائبرڈ ماڈل پر مان جائے اور بھارتی ٹیم اپنے دیگرمیچز یو اے ای میں کھیل لے، بھارت یا پاکستان کو ہی ایونٹ سے باہر کر کے سری لنکا کی شمولیت سے ٹورنامنٹ کرا لیا جائے، پاکستان ہائبرڈ ماڈل مانتے ہوئے بھارت کیخلاف میچ کا بائیکاٹ کر دے یا پھر ٹورنامنٹ ہی ملتوی کر دیا جائے،ان میں سے بیشتر حل کسی نہ کسی فریق کیلیے ناقابل قبول ہیں۔
ہم نے میڈیا پر آ کر اتنی باتیں کر دی ہیں کہ اگر ہائبرڈ ماڈل کو تسلیم کرلیا تو فیس سیونگ نہیں ہو گی،بھارت اپنی ٹیم یہاں نہیں بھیجے گا،انگلش بورڈ چیف پاکستان آ کر یہ کہہ چکے کہ بھارتی ٹیم کے بغیر ٹورنامنٹ نہیں ہو سکتا،دیگر بورڈز بھی ‘‘امیر دوست’’ کی ناراضی برداشت نہیں کر سکتے،پاکستان بھی کرکٹ کی بڑی قوت ہے آپ اسے بھی باہر نہیں کر سکتے،اگر دونوں ٹیموں کا میچ نہ ہوا تو براڈ کاسٹر ہی آئی سی سی کیخلاف کیس کر دے گا’’
یہ تو آپ نے حل بتا کر ساتھ ممکنہ مخالفت کا بھی ذکر کر دیا ،یہ بتائیں کہ تنازع ختم کیسے ہوگا،میری یہ بات سن کر انھوں نے جواب دیا کہ ‘‘آئی سی سی دونوں فریقین کے ساتھ بیٹھ کر بات کرے اور ممکنہ آپشنز دے جس میں بھارتی موقف کو اہمیت نہ دی جائے بلکہ لوجک دیکھیں،بڑے بڑے مسائل حل ہوجاتے ہیں یہ بھی ہو سکتا ہے،پاکستان جو آپشنز دے رہا ہے،انھیں سننا چاہیے،پی سی بی کے نئے سی او او سمیر احمد کی جیف ایلرڈائس سے بات چیت بھی جاری ہے،سنا ہے وہ اچھا آفیسر ہے لیکن یہاں سلمان نصیر کو ہونا چاہیے تھا اس کے تبادلے کی اتنی جلدی کیا تھی،سمیر کو تو کرکٹ کا کچھ بھی علم نہیں ہے۔
چیئرمین محسن نقوی البتہ اب کھیل کے معاملات کافی حد تک سمجھ گئے ہیں لیکن وہ ابھی پی ٹی آئی کے مظاہروں سے نمٹنے میں مصروف ہوں گے،پاکستان نے 13ارب تو اسٹیڈیمز کی اپ گریڈیشن پر لگا دیے ہیں،آئی سی سی آسانی سے بڑی رقم زر تلافی کے طور پر دینے کو تیار ہو جائے گی لیکن اس سے مسئلہ حل نہیں ہونا’’ میں نے جواب میں کہا کہ ‘‘ یہ کیا بات ہوئی ہر بار آئی سی سی ایونٹس میں پاکستانی ٹیم بھارت کھیلنے چلی جاتی ہے وہ نہیں آتے،پیسہ وہ اکیلے توکھیل کر نہیں کماتے دوسری ٹیمیں بھی شریک ہوتی ہیں،صرف ایک پاک بھارت میچ کی آمدنی باقی تمام میچز کے برابر ہوتی ہے اسی لیے آئی سی سی ایونٹس میں بھارت کو ‘‘دشمنی’’ یاد نہیں آتی، جب سب یہاں آ رہے ہیں تو اکیلے بھارت کو کیا مسئلہ ہے‘‘۔
یہ سن کر انھوں نے جواب دیا ایکزیکٹلی یہی بات اب سب پاکستانی کرتے ہیں،پی سی بی کو بھی حکومتی اجازت نہ ملنے کا کہہ کر جب تک بھارتی ٹیم یہاں نہ آئے وہاں نہیں جانا چاہیے، کہیں کہ ہمارے میچز بھی ہائبرڈ ماڈل کے تحت کرائیں، ویسے پاکستان کرکٹ بورڈ کے تین بڑے ذرائع آمدنی کیا ہیں تم بتاؤ’’ میں نے جواب دیا آئی سی سی سے ملنے والی رقم،پی ایس ایل فرنچائز فیس اور میڈیا رائٹس وغیرہ ،اب ان کا کہنا تھا ‘‘بالکل ایسا ہی ہے لیکن اگر آئی سی سی سے لڑائی ہو گئی اور رقم میں کمی آئی پھر کیا ہوگا؟آج کل تو پی سی بی پیسہ خوب خرچ بھی کر رہا ہے،اس کا حل خود انحصاری ہے۔
اپنی لیگ اور کرکٹ کو اتنا بڑا بنائیں کہ آئی سی سی کی رقم پر انحصار ہی نہ ہو جیسا بھارت کے ساتھ ہے،ایسا کرنا ناممکن بھی نہیں اور محسن نقوی جتنے اچھے منتظم ہیں وہ یہ کر بھی سکتے ہیں،پھر کوئی ہمیں ڈکٹیٹ نہیں کرا سکے گا’’ وہ چیمپئنز ٹرافی کے مسئلے کا حل تو رہ ہی گیا میں نے کہا تو جواب ملا ‘‘ میاں اگر یہ ہمارے بس میں ہوتا تو ابھی حل کر لیتے۔
یہ آئی سی سی،پی سی بی اور بی سی سی آئی کو طے کرنا ہے،وہ جانیں ہم تو صرف تجاویز ہی دے سکتے ہیں،ویسے اتنا بتا دوں کہ اسی ہفتے کوئی نہ کوئی حل ضرور سامنے آ جائے گا،اچھا اب واک پر جانے کا وقت ہو رہا ہے پھر بات ہو گی’’ ہماری گفتگو تو ختم ہو گی لیکن میں اب بھی یہی سوچ رہا ہوں کہ اس تنازع کو ختم کیسے کیا جائے گا،آپ کے پاس کوئی حل ہو تو ضرور بتائیے گا۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)