[ad_1]
کرونا نے جو تباہی مچائ ہے وہ آپ سب کے سامنے موجود ہے۔ اس عالمی وبا نے بڑے بڑے ترقی یافتہ ممالک کی معیشت کو تباہ و تاراج کر کے رکھ دیا ہے۔ وہ حکومتیں جو جوہری طاقت سے لیس ہیں۔ ایک خوردبینی جرثومہ یعنی وائرس کے آگے بے بس و لاچار نظر آتی ہیں۔ اس سے پہلے کہ اس وائرس سے ہونے والی بیماری پر مزید روشنی ڈالوں، اس وائرس کا تھوڑا سا تعارف ہوجائے۔ یہ ایک RNA وائرس ہے جو سردی، زکام اور فلُو کے زمرے میں آتا ہے۔ اس کا اصل نام SARS-CoV-2 ہے اور اس سے ہونے والی بیماری کو COVID-19 کہا جاتا ہے۔ یہ جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہُوا ہے۔ اسکے اوپری سطح پر نوکدار کیل یا کانٹے دار اجسام ہوتے ہیں (اسی لئے اس کو کرونا وائرس Coronavirus سے بھی پکارا جاتا ہے) جو پروٹین کے سالمات سے بنتے ہیں اور یہی نوکدار پروٹین کے ذریعہ وائرس ACE2 receptor کے ذریعے شُشی خلیوں یا پھیپھڑوں کے خلیوں میں داخل ہوتا ہے۔ یہ جاننا بہت ہی اہم ہے کہ وائرسس طفیلی (parasitic) جاندار ہوتے ہیں اور ان کی نشونما اور تقسیم انسانی خلیوں کے اندر (Intracellular) ہوتی ہے۔ اگر اِن کو انسانی خلیے نہ ملیں تو یہ زندہ نہیں رہ سکتے۔ بہ الفاظِ دیگر وائرسس کو ختم کرنا ہو تو خلیوں کو مارنا ہوتا ہے۔ اب یہ تو نہیں ہو سکتا کہ وائرسس کو مارنے کیلئے انسانی خلیوں کو جو پھیپھڑوں کے اندر اپنا گھر بنائے ہوئے ہیں مار دیا جائے۔ مطلب یہ کہ کوویڈ ایک سانس کی بیماری ہے، جسمیں وائرسس بیمار شخص سے دورانِ تنفس آبی بخارات کے ذریعے پھیپھڑوں میں داخل ہوتے ہیں۔ جب یہ وائرسس کا اندراج خلیوں کے اندر ہو جاتا ہے، تب چاہے گرم پانی کے غرارے کرلیں، یا گرم پانی پی لیں یا پھربھاپ کا سانس کے ذریعے اندر لینا وغیرہ وغیرہ یہ سب بے فائدہ ہوتا ہے۔ ہاں، اس کے برعکس بھاپ سے چہرہ ضرور جھُلَس سکتا ہے اور ہوا کی نالیوں کو نقصان بھی پہنچا سکتا ہے۔
ابھی کووِڈ کی پہلی لہر سے جان بھی نہ چھوٹی تھی کہ دوسری لہر نے آ دبوچا۔ وائرس کے مختلف نئے اقسام اُبھر کر سامنے آرہے ہیں۔ اِن میں جینیاتی تبدیلیاں مرض کے پھیلاؤ کو روکنے میں ناکام رہی ہیں۔ یہ وائرس کے نئے اقسام جینیاتی تبدیلی سے اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں، جس کے نتیجے میں آئے دن وائرس اپنی ہئیت تبدیل کررہا ہے۔ برطانیہ، برازیل، کیلیفورنیا اور جنوبی افریقہ کے جینیاتی تبدیل شدہ وائرس (genetically mutant)اُن لوگوں کو بھی متاثر کر سکتے ہیں جن کو ٹیکہ لگ چکا ہے۔ مگر اچھی بات یہ ہے کہ مرض میں اتنی شدّت نہیں ہوتی۔ ہندوستان کا تبدیل شدہ وائرس جو B.1.617 کہلایا جاتا ہے، جس کے جینیاتی ترتیب (genetic sequencing) میں E484Q اور L452R میں دو مقام پر تبدیلی دیکھی گئ، اس لئے اسکو دوہرا تبدیل شدہ وائرس (double mutant) کہتے ہیں۔ اب تو بنگال میں triple mutant کا بھی پتہ چلا ہے۔ اس تبدیل شدہ وائرس میں وائرس کا نوکدار پروٹین (spike protein) جو اسکی سطح پر ہوتا ہے، تین طرح سے تبدیل ہوا ہے، جس کا راست تعلق جینیاتی کوڈ کی تبدیلی سے ہے۔ اس میں H146 اور Y145 حذف ہوئے ہیں۔ E484K اور D1614 میں تبدیلی آئ ہے۔ یہ وائرسس نہ صرف تشویشناک حد تک متعدی ہیں بلکہ RT-PCR test جیسے تشخیصی امتحان سے بھی انکی تحقیق ہو نہیں پاتی۔ یہ اتنے طاقتور ہیں کہ کم عمر کے صحت مند افراد بھی اس سے جاں بحق ہورہے ہیں۔ جو دوائیں تھوڑا بہت اثر دکھاتی تھیں وہ بھی ناکام ہوتی نظر آرہی ہیں۔ مشیگن اسٹیٹ یونیورسٹی، امریکہ کے epidemiology and biostatistics کے پروفیسر Brahmar Mukherji کی پیشنگوئی کے مطابق مئ کے مہینے میں ہندوستان میں ہر دن 500,000 افراد اس مرض کا شکار ہونگے اور روزانہ 5000 سے زائداموات ہونگے۔ یہ تو ابھی کو ویڈ کی دوسری لہر ہے۔ خدشہ یہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ تیسری لہر اس سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ اگر خاطرخواہ احتیاطی تدابیر نہ اپنائے جائیں تو۔
فی الحال اس خطرناک وبائ صورتَ حال کا مقابلہ صرف ایک ہی طریقے سے کیا جا سکتا ہے جو سنتِ نبوی بھی ہے اور کافی موثر بھی ہے۔ وہ ہے قرنطینہ Quarantine کا اطلاق. اچھی قسم کا ماسک یا نقاب کا استعمال، سماجی دوری یا فاصلے (6 فیٹ)کو برقرار رکھنا، اورکسی بھی اجتماعات سے اجتناب کرنا، بشمول مذہبی اجلاس کے،اہم ترین پہلو ہیں۔ بہتر ہے کہ گھر پر ہی نمازیں ادا کریں۔ گھر سے نوجوان افراد یا برسرِروزگار طبقہ غیر ضروری طور پر باہر نہ نکلے۔ اسی میں سارے خاندان اور معاشرے کی بہی خواہی مضمر ہے۔ جتنے وائرسس کو زندہ رہنے کیلئے انسانی اجسام ملیں گے اتنی ہی اِن وائرسس میں ضرر رساں جینیاتی تبدیلیاں آ سکتی ہے۔
ان پریشان کن صبر آزما ہنگامی حالات میں ٹیکہ Vaccine لگوانا بے حد ضروری ہے۔ اب تک کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ جن کو بھی ٹیکہ دیا گیا اُن کو کرونا کی وبا کا کوئ اثر نہیں ہوا یا ہوا بھی ہے تو بہت ہی ہلکا اور ایسے افراد بہت جلد چاق و چوبند ہوگئے۔ امریکہ میں دو ویکسین لگائے جارہے ہیں، ایک ہے Pfizer اور دوسرا Moderna۔ اب تک ان دونوں ویکسین کے اچھے نتائج نکلے ہیں۔ ان کو دو حصوں میں 21 اور 28 دن کے وقفے سے دیا جاتا ہے۔ ہندوستان میں دستیاب ویکسین Covaxin اور Covishield ہیں۔ یہ دونوں ٹیکے بھی پُر اثر اور اچھے ہیں۔ یہ جہاں بھی مل رہے ہیں فوراً لے لیں۔ بھارت کے کئ ریاستوں میں یہ ٹیکے مفت دئیے جارہے ہیں تو دیر کس بات کی ہے۔ ٹیکہ لگوانے کے چند اہم فائدے مندرجہ ذیل ہیں:
۱- کوویڈ ٹیکہ لگوانے کے بعد کرونا بیماری ہونے کی شرح کافی درجے تک کم ہو جاتی ہے۔ اگر ہوتی بھی ہے تو ہلکی پھُلکی نوعیت کی ہوتی ہے۔
۲-پھیپھڑوں کو ناقابلِ تلافی نقصان نہیں ہوتا۔ ورنہ اگر بیماری سے بچ گئے تو عمر بھر کیلئے پھیپھڑوں میں داغ لگ جاتے ہیں۔ جس سے دائمی تنفسی مرض (chronic obstructive lung disease) لاحق ہوتا ہے اور ایسے مریضوں کا ہمیشہ کیلئے آکسیجن پر انحصار ہوگا۔
۳- جن کو کرونا مرض ہو چُکا ہے، یہ بات یاد رکھیں کہ ایسی کوئ ضمانت نہیں کہ اُن کو پھر سے کرونا نہ ہو۔ اس لئے میری اُن سے التجا ہے کہ وہ بھی ٹیکہ لگوائیں۔ اسطرح اُن کے جسم میں کرونا بیماری کے خلاف قوتِ مدافعت میں کافی اضافہ ہوجائیگا۔
۴۔ ٹیکہ لگوانے سے آپ کے عزیز واقارب اور پڑوس میں رہنے والے اور ملنے ملانے والے اور خاص طور پر اُن افراد کو جن کو یہ ویکسین نہیں لگ سکتی، اس موذی مرض سے اُن کی حفاظت ہو سکتی ہے۔
۵۔ جو لوگ ویکسین لئے ہیں اُنکو اگر کرونا ہوجائے تو وہ اُتنا متعدی نہیں ہوتا، یعنی اُن سے یہ مرض پھیلنے کا کم اندیشہ ہوتا ہے۔
۶۔ ویکسین سے ملنے والی قوتِ مدافعت قدرتی طور پر پائ جانے والی قوتِ مدافعت سے کافی دیرپا ہوتی ہے۔
ٹیکہ لینے کے تعلق سے غیر ضروری افواہوں پر توجہ نہ دیں، یہ دشمنوں نے بے پر کی اُڑائ ہے تاکہ ہمارا جانی و مالی بہت زیادہ نقصان ہو۔ یہی سب کچھ تو کیا گیا پولیو ویکسین کے وقت بھی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کئ ملت کے بچے پولیو مرض کا شکار ہوکر اپاہج ہوگئے۔ خدارا ایسی غلطی پھر نہ کریں یہ میری آپ سب سے ادباً گذارش ہے۔
یہ بات یاد رکھیں، اگر آپ اور آپ کے خاندان والے با صحت و تندرست رہیں گے تو آئندہ ان شاء اللہ ایسے کئ رمضان اور عیدین آپ کو نصیب ہوں گے۔ آیورویدہ، یونانی، اور ہومیوپیتھی دواؤں پر مطلق اعتبار نہ کریں یہ غیرتحقیق شدہ ہیں۔ صرف زبانی جمع خرچ اور دعوے ہیں۔ کوئ مستند تحقیق اور سائنسی اعداد و شمار scientific data نہیں ہے یا کسی مستند بین الاقوامی سائنسی جریدے میں نہ تو شائع ہوئے ہیں اور نہ شائع ہونے کی توقع ہے۔ جہاں تک Remdesivir نامی دوا پر تحقیق ہوئ ہے یہ بات ثابت ہے کہ جو کوویڈ کے مریض دواخانے میں شریک تھے، جن کو یہ دوا دی گئ اوسطاً 5 دن پہلے ان کے مرض میں افاقہ ہوا ہے بہ نسبت اُنکے جن کو یہ دوا نہیں دی گئ۔ مندرجہ ذیل حوالہ ملاحظہ ہو:
John H. Beigel, M.D., Kay M. Tomashek, M.D., M.P.H., Lori E. Dodd, Ph.D., Aneesh K. Mehta, M.D., et al; Remdesivir for the Treatment of Covid-19 — Final Report; N Engl J Med 2020; 383:1813-1826
موجودہ حالات میں جبکہ وائرس تبدیل ہورہا ہے اس دوا (Remdesivir) کے بیماری پر کیا اثرات ہیں کوئ سائنسی تحقیقی مقالہ ابھی تک نظر سے نہیں گذرا۔ ایک اور دوا Dexamethasone جو سوزش کو کم کرتی ہے۔ اس کے استعمال سے ایسے کوویڈ کے مریض جو برائے انتہائ نگہداشت (ICU)دواخانے میں شدید مرض میں مبتلہ تھے سودمند ثابت ہوئ ہے۔ مندرجہ ذیل تحقیقی مقالہ آپکے مطالعہ کے لیئے پیش کرتا ہوں:
Dexamethasone in Hospitalized Patients with Covid-19; N Engl J Med 2021; 384:693-704
اس مرض سے روبصحت ہونے والوں کے خون سے مدافعتی اجزاء (Convalescent Serum) نکال کر کرونا کے مریضوں کو دیا جا سکتا ہے۔ مگر اس کا اثر اس بات پر منحصر ہے کہ مدافعتی اجزاء (antibodies) کی کتنی مقدار خون میں موجود ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی متغیرات (variables) اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ ویسے حال ہی میں New England Journal of Medicine میں چھپی ایک تحقیق کا ما حاصل کوئ فائدہ مند ثابت نہیں ہوا۔
A Randomized Trial of Convalescent Plasma in Covid-19 Severe Pneumonia; Ventura A. Simonovich, M.D., Leandro D. Burgos Pratx, M.D., Paula Scibona, M.D., María V. Beruto, M.D., et al., N Engl J Med 2021; 384:619-629
اس کے علاوہ monoclonal antibodies کا استعمال بھی کیا جا سکتا ہے جو تجربہ گاہ (laboratory) میں تیار کئے جاتے ہیں۔ فی الحال یہ ابھی زیرِ تحقیق ہیں۔ اِن سے آئندہ اچھی اُمید کی جا سکتی ہے۔
نوٹ: ایک اہم بات antibiotics جو جراثیم کے خلاف استعمال ہوتے ہیں وہ خلیوں کے باہر جراثیم کش ہوتے ہیں۔ وائرسس خلیے کے اندر ہوتے ہیں، اس لئے اُن تک antibiotics کی رسائ نہیں ہوتی۔ اسلئے viral infections میں antibiotics کا کوئ اثر نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے ڈاکٹرس viral infections میں antibiotics کا استعمال مطلق نہیں کرتے۔
یاد رکھئے جب تک آپ کو مستند حوالاجات پیش نہ دیئے جائیں کسی بھی دعوے کو قبول نہ کیا جائے جیسا کہ میں نے اُوپر حوالہ جات دئیے ہیں۔ ہاں آکسیجن اور مصنوعی آلۂ تنفس ventilators or bipap or cpap سے کو ویڈ کے مریضوں کی پیچیدہ صورت حال میں استفادہ ہو سکتا ہے یہ تحقیق شدہ بات ہے۔ جسم میں مدافعتی نظام کو اضافہ دینے والی کوئ دوا کارگر نہیں ہے۔ اگر کوئ اس طرح کا دعوی کرتا ہے تو سوائے ایک خود ساختہ مفروضے کے کچھ نہیں۔ باقی تمام چٹکلے ہیں چاہے بھاپ کا معالجہ ہو، کاڑہ پینا، الیچی، سبز چائے، ہلدی، کئ قسم کے ٹوٹکے، جوشاندے، اور خمیر پتہ نہیں اور کیا کیا نسخے سوشیل میڈیا میں گردش کررہے ہیں اور جن کی اشتہار بازی ہورہی ہے، سب فضول ہیں۔ ہاں سانس لینے کے یوگا کی بھی کافی تشہیر ہورہی ہے۔ جب آپ وائرسس سے آلودہ ہوا میں گہری سانس لیتے ہیں تو آبی بخارات aerosol وائرسس کو پھیپھڑوں کے اندر تک پہنچا دیتے ہیں۔ اور جب سانس کو روک کر ہوا کے اخراج کو روک دیا جاتا ہے تو وائرسس کی کافی مقدار آرام سے شُشی خلیوں میں داخل ہوجاتی ہے اور کوویڈ جیسی خطرناک بیماری لاحق ہو جاتی ہے۔
کوویڈ بیماری میں اصل مسلہ قوتِ مدافعت کا بڑھنا (hyperimmune response) ہے نہ کہ قوت مدافعت کا کم ہونا۔ جسم کی مدافعت سے تقریباً دو ہفتوں میں وائرسس تو ختم ہوجاتے ہیں لیکن جسم کا مدافعتی نظام بدستور پھیپھڑوں میں سوزش و خراش پیدا کرتا رہتا ہے۔ جس کو hypersensitive pneumonitis کہا جاتا ہے۔ جو کوویڈ نمونیا کی شکل اختیار کرلیتا ہے، جس کی وجہ سے پھیپھڑوں کی ہوا دانیوں (alveoli) سے لگی باریک باریک خونی شعریانوں (capillaries)کو نقصان پہنچتا ہے اور اُن سے پانی، خون اور خون کے سفید جسیمے نکل کر ان ہوا دانیوں یعنی alveoli میں جمع ہوتے ہیں، جس کے باعث آکسیجن کا خون میں تبادلہ متاثر ہوتا ہے، نتیجتاً سانس لینے میں دشواری پیدا ہوتی ہے۔ اگر کوویڈ نمونیا طویل میعادی ہو جائے تو پھیپھڑے داغدار اور بے کار ہو جاتے ہیں. جب پھیپھڑے مکمل طور پر بے کار ہوجاتے ہیں تو آکسیجن کی کمی کی وجہ سے ایسے مریضوں کی رحلت واقع ہوتی ہے۔ ایک مشین ECMO (Extracorporeal Membrane Oxygenation) خون میں آکسیجن پہنچا سکتی ہے، مگر کب تک، اس مشین سے لگے رہینگے؟
اس بیماری میں خون کا انجماد (blood clots)بھی بڑا مسلہ پیدا کرسکتا ہے۔ کوئ 20 سے 31 فیصد مریضوں میں خون کی باریک سے لے کر درمیانی جسامت کی نالیوں میں خون جمنا شروع ہو سکتا ہے جس کی وجہ سے دورانِ خون پھیپھڑوں، دماغ اور گردوں جیسے اہم اعضاء میں ممکن نہیں ہوتا اور اس کے نتیجے میں یہ اعضاء بے کار ہو جاتے ہیں۔ خون کا منجمد ہونے کا عمل وائرسس کے راست خون کی نالیوں میں موجود endothelial cells کو ناقابلِ تلافی نقصان پہچانے کے علاوہ خون میں موجود مدافعتی نظام کا خود میزبان خون کی نالیوں کو ضرر پہنچانا ہے۔ حال ہی میں تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ COVID19 مریضوں میں خودکار مدافعتی عنصر (Autoantibodies) بنتے ہیں جو خون کے انجماد کا باعث ہوسکتا ہے۔ اسی لئے اکثر ان مریضوں میں خون کو پتلا کرنے کی دوا heparin کام نہیں کرتی۔ مندرجہ ذیل تحقیقی مقالہ آپ کو مزید معلومات فراہم کرسکتا ہے۔
Prothrombotic autoantibodies in serum from patients hospitalized with COVID-19; Yu Zuo, Shanea K. Estes, Ramadan A. Ali, Alex A. et al; Science Translational Medicine 18 Nov 2020:
Vol. 12, Issue 570 eabd 3876
اکثر اشخاص نفسیاتی دباؤ depression یا ذہنی تناؤ کے تعلق سے پوچھتے رہتے ہیں۔ اس تناظر میں عالمی ادارۂ صحت نے بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اس عالمی وبا کے دوران ذہنی حالت پر نقصان دہ اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اس لئے چند سفارشات بھی پیش کی گئ ہیں جن پر عمل پیرا ہوکرکسی حد تک ذہنی صحت پر پڑنے والے منفی اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ انسان سماجی حیوان ہے وہ تنہائ کو زیادہ سہہ نہیں سکتا خصوصاً بچے اور نوجوان طبقہ ذہنی دباؤ کا شکار رہتے ہیں۔ مَردوں کو مالی خدشات گھیرے ہوئے ہیں اور اُس پر مہنگائ کی مار۔ خواتین کا حال تو اور بُرا ہے وہ وبائ مرض سے زیادہ، ماحول کا تناؤ شدت سے محسوس کررہی ہیں۔ گھر چلانے کی پریشانی، بچوں کے مستقبل کی فکر۔ فکر مند شوہر کو دیکھ کر فکر۔ خواتین کو اس ذہنی اذیت سے نکالنے کی اشد ضرورت ہے۔ آئے دن رشتہ داروں سے بُری خبریں ملتی رہتی ہے۔ ٹی وی اور سوشیل میڈیا بھی اس آگ میں تیل چھڑکتا نظر آتاہے۔ ایسی صورتِ حال میں میرا مشورہ ہے۔
۱- جسمانی اور دماغی صحت ایک دوسرے سے منسلک ہوتی ہے۔ گھر میں ہی ہلکی پھلکی ورزش کریں۔ ہو سکے تو اہلِ خانہ اس میں شامل ہوں۔ کھلی ہوادار فضا جیسے گھر کی چھت پر یا ہوادار کمرے میں ورزش کا احتمام کیا جا سکتا ہے۔
۲- رمضان کا مہینہ ہے۔ کچھ وقت عبادات میں گذاریں۔ میری اپنی رائے ہے آجکل قرآن فہمی کیلئے آن لائن عربی صرف و نہو کے کلاسس عام ہوگئے ہیں یہ وڈیوز نیٹ پر مفت دیکھے جاسکتے ہیں۔ جب آپ عربی سیکھ جائنگے تو قرآن خوانی کا لطف ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ اللہ تعالی سے آپ کا راست تعلق پیدا ہوجاتا ہے، مترجم کی ضرورت نہیں رہتی۔
۳- کچھ وقت بچوں کی تدریس میں بھی صرف کریں۔ اُن کے ساتھ چھوٹی چھوٹی سرگرمیاں یا کرکے سیکھنے والے منصوبوں کا اہتمام کریں۔ بچے بہت ذہین ہوتے ہیں اٗنکو ایسے کام دیجئے جسمیں تحقیقی اور تخلیقی صلاحیتیں استعمال ہوتی ہیں۔
۴۔ ٹی وی، کمپیوٹر، یا سمارٹ فون پر معلوماتی پروگرامس دیکھیں۔ خبر ناموں، ٹاک شوز، سیاسی پروگرام سے پرہیز کریں۔
۵۔ وڈیو کانفرنس، ویبنار، وڈیو فون کالس سے رشتہ داروں اور دوست احباب سے ربط رکھیں۔ جب بات کریں تو ذہنی پریشانی اور نفسیاتی مسائل کا ذکر نہ کریں۔
۶۔ اگر آپ مصنف ہیں تو اپنے تصانیف سے، اگر شاعر ہیں تو اپنے اشعار سے اردو زبان کی خدمت کریں۔ اردو داں افراد خود اپنے خیالات قلم بند کریں۔ ادبی سرقے سے پرہیز کریں۔ دو لفظ ہی کیوں نہ ہوں، خودی میں ڈوب کر لکھیں۔ اپنی خودی کی پرورش کریں۔ اپنے جذبات کی ترجمانی کریں۔ اچھی کتابوں اور کلام کا مطالعہ کریں۔ دورِ حاضر میں بہت کچھ آن لائن موجود ہے اچھے اچھے قلم کاروں کی کتابیں اور استاد شعراء کا کلام وغیرہ۔ اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ ادبی سرقہ نہ ہو نے پائے۔کٹ پیسٹ اور فارورڈ نہ کریں۔ اپنی خود ساختہ تحریریں جیسے بھی ہوں باعثِ فخر ہوتی ہیں۔ وہ شخصیت سازی اور خود اعتمادی کو بحال کرتی ہیں۔
آخر میں ایک اور بات کی وضاحت ضروری سمجھوں گا۔ جس طرح کرونا وائرس کی جینیاتی تبدیلی اسے مزید متعدی اور ہلاکت خیز بنا سکتی ہے، اُسی طرح اس وائرس میں وقت کے ساتھ ساتھ جینیاتی تبدیلی سے اِس کا موذی اثر بھی کم ہو سکتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے یہ وائرس اپنی موت آپ ہی مر جائے۔ اس میں کوئ شک نہیں کہ بیماری کا نزول اللہ کی طرف سے ہے اور شفا بھی اللہ ہی کی دین ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسی بیماری نہیں اتاری جس کی دوا بھی نازل نہ کی ہو۔
مَا أَنْزَلَ اللَّهُ دَاءً إِلاَّ أَنْزَلَ لَهُ شِفَاءً. (روایت البخاری)
یہاں پر لفظ اَنْزَلَ توجہ طلب ہے۔ یہاں مرض اور شفاء دونوں کا انزال مراد ہے۔ اسی طرح ایک اور حدیث میں فرمانِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔
لِكُلِّ دَاءٍ دَوَاءٌ فَإِذَا أُصِيْبَ دَوَاءُ الدَّاءِ بَرَّأَ بِإِذْنِ اللهِ عَزَّوَجَلَّ.
(روایت مسلم)
ہر بیماری کی دوا ہے، جب دوا بیماری کے مُوَافِق (مطابق)ہو جاتی ہے تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ شفاعطافرمادیتا ہے۔
ان دو احادیث سے پتہ چلتا ہے کسی بیماری کا علاج ڈھونڈھنا یا دوا سے علاج کرنا تَوَكَّلْ عَلَى اللَّه کے خلاف ورزی نہیں ہے، بلکہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عین اتباع کے مطابق ہے۔
اللہ تعالی آپ تمام کو صحت و عافیت کے ساتھ رکھے۔ کوویڈ کے اس خطرناک مرض سے نجات پانے کیلئے تمام احتیاطی تدابیر کا خیال رکھئے۔
اللَّهُمَّ رَبَّ النَّاسِ، أذْهِب البَأسَ، اشْفِ أنْتَ الشَّافِي لاَ شِفَاءَ إِلاَّ شِفاؤكَ، شِفَاءً لاَ يُغَادِرُ سَقماً. (متفق علیہ)
اے اللہ انسانوں کے پروردگار! تکلیف کو دور کر دے۔ شفایابی سے نواز کہ تو ہی شفا دینے والا ہے۔ تیری شفاء کے علاوہ کوئی شفا نہیں، ایسی شفا جو کسی قسم کی بیماری نہیں چھوڑتی۔ آمین ثم آمین
[ad_2]
Source link