دشمنانِ اسلام کی سازشوں سے بیدار رہ کر مشرکین کے رسم و رواج سے احتیاط میں عافیت
’’عزیزانِ وطن! پاک مذہب اسلام جس کی ساری تعلیمات کا جوہر توحید و خدا پرستی ہے اُس کا دشمن تم صرف انگریزوں کو کیوں قرار دیتے ہو؛ ہر وہ مذہبِ باطل جو دُنیا میں موجود ہے؛ یا کسی وقت اختراع کیا جا سکتا ہے، وہ اس دین قویم اور صراطِ مستقیم کا دشمن جانی ہے؛ کفر و اسلام میں جب کہ تضاد ذاتی ہے؛ پس یہ محالِ عقلی ہے کہ کوئی مذہبِ کفر ٹھنڈی آنکھوں سے اسلام کو دیکھنا گوارا کرے؛ ہاں! مجبوری معذوری کی اور بات ہے، قرآن کریم نے سیکڑوں جگہ اسی کی خبر دی ہے، پس مسلمانوں کو خود اپنے آپ میں قوت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔نہ کہ غیر قوم میں جذب و مدغم ہونا۔یہی شریعت کا فتویٰ ہے اور یہی عقلِ سلیم کا حکم۔‘‘(النور،ص۲۰۹، مطبوعہ ۱۹۲۱ء)
مذکورہ تمہیدی اقتباس ایک صدی پیش تر مفکر اسلام پروفیسر سید سلیمان اشرف بہاری (خلیفۂ اعلیٰ حضرت و سابق صدر شعبۂ دینیات مسلم یونیورسٹی علی گڑھ)نے ارشاد فرمائے، جنھوں نے اسی زمانے میں ہندوؤں کی اسلام دُشمنی کو بھانپ لیا تھا، اور ہندو مسلم اتحاد کی اس وجہ سے مخالفت کی تھی کہ اس سے اسلامی شعائر رفتہ رفتہ زَد میں لائے جا رہے تھے۔ اسلامی تشخص مٹانے کی کوششیں کی جارہی تھیں۔
اسلام سب سے بڑی سچائی ہے۔ تمام مذاہبِ باطل؛ اسلام کے دُشمن ہیں۔ اسلام کے مقابل انگریز نے سازشوں کے جال بُنے۔ مسلمان! انگریز کے خلاف تھے لیکن ہندوؤں سے اشتراک و اتحاد کر لیا جس کا مقصدِ ظاہری ملک کو انگریزی استبداد سے آزاد کرانا تھا۔ جب کہ انگریز بھی دُشمن تھے اور ہنود بھی۔ پھر ہنود سے اتحاد کی مہم جو ایک صدی قبل چلائی گئی اُس کے منفی اثرات اُسی زمانے میں ظاہر ہونے شروع ہوئے۔
نتائج:
[۱] آزادی کے وقت حکومت بجائے مسلمانوں کو لوٹانے کے مُشرک لیڈران کو دی گئی تا کہ مسلمان دوبارہ اقتدار نہ پا سکیں۔ جب کہ انگریز نے حکومت مسلمانوں سے چھینی تھی۔
[۲] ادغام و اشتراک کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہندوؤں کے کئی مراسم مسلم معاشرے میں اپنے پنجے گاڑنے میں کامیاب ہوئے، مذہبی روح اس سے متاثر ہوئی۔ جن مراسم سے نفرت کرنی تھی؛ ان سے انسیت بڑھی؛ آج جو بعض افراد ہولی، دیوالی، گنپتی جیسے شرکیہ معاملات میں شامل ہو جاتے ہیں یہ اسی ادغام و اشتراک کا نتیجہ ہے۔
[۳] حالات کے زیر اثر جہاں جہاں مسلمانوں نے مشرکین سے مل کر تحریکیں چلائیں وہیں ہماری ترقی کا گراف زوال پذیر ہوا۔ نان کو آپریشن کے نتیجے میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، مدرسہ عالیہ کلکتہ اور اسلامیہ کالج لاہور تعلیمی دھارے میں پیچھے رہ گئے۔ اس خلا کے اثرات آج بھی محسوس کیے جا رہے ہیں۔
[۴] موجودہ حالات میں تحریکیں بے اثر ہو کر رہ گئیں، کہیں کوئی اثر مسلمانوں کے نہیں ظاہر ہو رہے جس کا سبب یہی ہے کہ ادغام و اشتراک نے مسلمانوں کی کمزوری ظاہر کی ہے جس کا فائدہ فرقہ پرست قوتیں پورا اُٹھا رہی ہیں۔ نمازیں انھیں کھٹک رہی ہیں، اذانوں سے وہ جَل رہے ہیں- نمازِ جمعہ کے خلاف وہ کھل کر سامنے آ رہے ہیں- کہیں کہیں قیادت دَر پردہ مشرکین سے متحد ہے یا کم از کم مرعوبیت کا شکار ہے-
[۵] انگریز کو ہم نے دُشمن جانا، مشرکین کو دوست سمجھا، جب کہ دونوں ہی دُشمن ہیں، آج یہی وجہ ہے کہ فرقہ پرست قیادت کہیں اسرائیل سے معاہدے کر رہی، کہیں امریکہ سے دفاعی اشیا کے سودے کر رہی، ان کے اتحاد کا میدان تمام دُشمنانِ اسلام ہیں۔ پھر کیوں یہ ہمارے ہمدرد ہو سکتے ہیں؟
[٦] جب کہ ان مسلم مخالف طاقتوں سے اشتراک کا ہی نتیجہ ہے کہ آج بعض مسلم مراکز کی حکومتیں اسرائیل و امریکہ کے آگے جھکی ہوئی ہیں؛ لیکن اپنوں سے ملنے کا شعور نہیں آ رہا ہے…
ہماری ذمہ داری: ہمیں جو تکالیف پہنچ رہی ہیں وہ ہمارے ہی اعمال کا نتیجہ ہے۔ ہماری ہی غفلت کے سبب وارد ہوئی ہیں، قرآن پاک کا ارشاد ہے:
وَمَآ اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُمْ وَیَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍ ۔ (سورۂ شوریٰ: ۴۲؍۳۰)
‘’اور تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ اس کے سبب سے ہے جو تمہارے ہاتھوں نے کمایااور بہت کچھ تو معاف فرما دیتا ہے۔‘‘ (کنزالایمان)
جو مصائب و آلام ہیں یہ ایک صدی پیش تر غلط قیادت یا قیادت کے غلط فیصلوں کے تسلیم و قبول کے نتائج ہیں۔ مشرکین سے مذہبی بنیادوں پر محبت کی جو کوششیں ہوئیں ان سے مسلمان اپنے اسلامی فیصلوں سے دور جا پڑے، اپنے ہی ہاتھوں مشرکین کو مسلط کرنے میں مدد دی، اپنے ہی ہاتھوں اپنے شعائر سے دوری بنائی، ذبح، معمولات، حرمتِ منبر کو تج دیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کسی دور میں چاہے آزادی سے قبل کا دور ہو یا بعد کا مشرکین نے کوئی رو رعایت نہیں کی۔ مسلمانوں کو نقصان پہنچایا۔ اور مسلمان اس امید پر کہ اتحاد نہ ٹوٹے؛ سب برداشت کیا۔ جس کے خوف ناک اثرات آج جھیل رہے ہیں۔ ہم نے مشرکین کو مسلط کیا اب وہ جو غالب آئے اس پر چیخ رہے ہیں۔ اس کا حل صرف یہ ہے کہ:
[۱]ہم احکامِ الٰہی و قوانین اسلام کے پابند ہو جائیں۔ مشرکین سے اتحاد سے بچیں جس سے مذہبی امور میں مداخلت کا اندیشہ ہو۔
[۲] شرعی فیصلوں کی پابندی کریں تو کسی خلافِ شرع قانون کی حیثیت باقی نہیں رہ سکے گی۔
[۳] غیر شرعی کورٹوں میں اپنے مقدمات نہ لے جائیں بلکہ شرعی اصولوں کی پیروی کریں۔
[۴] طلاق سے گریز کریں، نوبت آجائے تو شریعت کی پاس داری لازم جانیں۔
[۵] اپنے شعائر کی پاسداری کریں۔
[٦] دینی تعلیم سے رغبت پیدا کریں۔ بچوں میں دین داری کو رواج دیں۔ پھر دنیوی تعلیم کے منفی اثرات سے بچ سکیں گے۔
[۷] ملک سے وفاداری کریں لیکن شرکیہ مراسم کو ہرگز قبول نہ کریں بلکہ ان سے نفرت کریں، بچوں کو مراسمِ شرک سے نفرت دلائیں۔
[۸] مشرکین یا مذاہبِ باطل کے تہواروں میں شرکت اور مبارک و تہنیت سے بچیں اور بچائیں۔
[۹] علم دین سیکھنے سکھانے میں مدد دیں۔ مدارسِ اسلامیہ سے رشتے بحال کریں۔ علما کا احترام لازم جانیں-
[۱۰] ایسی قیادت سے گریز کریں جو مشرک قائدین سے اتحاد برتے، اور مشرکین کی تکریم کر کے مسلمانوں کو غلط روی کی دعوت دے۔
[١١] اسلامی احکام کی ساختہ تاویل، معذرت خواہانہ توجیہ سے بچیں-
اسلام پر استقامت اختیار کریں۔ یاد رکھیں! اللہ کی رحمتوں کا نزول اللہ و رسول کی رضا میں ہے۔ جو مشرکین کو خوش کرنے کو کوشاں ہیں ان سے ہمیں کوئی عزت نہیں مل سکتی۔ ہمیں سرخروئی احکام الٰہی و قوانین اسلام کی اطاعت و پیروی میں ملنی ہے۔ اس لیے اپنے مذہبی تشخص کی سلامتی کے لیے بیدار رہ کر جئیں۔
٭٭٭
٤ نومبر ٢٠٢١ء