قصہ خوانی پشاورکا مشہوربازار ہے اکثر اسے تاریخی بازار بھی کہا جاتا ہے، ایک زمانے میں اس پر ایک ہندکو فلم بھی بن رہی تھی جو بن نہیں پائی لیکن اس کاایک گانا کافی مشہور ہوا تھا
قصہ خوانی دے وچکار عجب لہرہوندی اے
ہدایت اللہ کی آواز میں یہ گانا کافی عرصے تک ریڈیو پر بجتا رہاتھا ،اکثر حکومتیں قصہ خوانی بازار کی تزئین و آرائش کے اعلانات بھی کرتی رہتی ہیں ، تاریخی بازار تو یہ یقیناً ہے کہ یہاں بہت سارے تاریخی واقعات ہوتے رہے ہیں خاص طورپر انیس سو تیس میں یہاں عوام اورانگریزی حکومت کا ایک بڑا خون ریز ٹکراؤ ہوا تھا پھر اس واقعے کی یاد میں دو یادگاریں بھی بنائی گئی تھیں جن کے بارے میں ایک لطیفہ بھی کافی مشہور رہا، ان یادگاروں میں جو یادگار خدائی خدمت گاروں نے بنائی تھی اس کا رنگ سرخ تھا اورجو مسلم لیگ نے بنائی تھی وہ شوخ سبز رنگ کا تھا اورلطیفہ یہ ہوا تھا کہ کوئی کسی دیہاتی کو ان یادگاروں کے بارے میں بتا رہاتھا کہ یہاں ایک خونیں واقعہ ہواتھا جس میں انگریزوں نے بہت سارے لوگ مارے تھے۔ اس سادہ لوح دیہاتی نے یادگاروں کو دیکھتے ہوئے کہا یہ جو سرخ رنگ کا ہے، اس کو تو گولی ماری گئی ہوگی لیکن پھر کہا اس سبزرنگ والے کو زہر سے مارا گیا تھا ؟
خیر لطیفے، کثیفے اورحقیقے تو چلتے رہتے ہیں ہم اس بازار کے نام قصہ خوانی پر کچھ کہنا چاہتے ہیں جو ایک بہت بڑا غلط العوام اتنا ہی بڑا غلط العام ہے جتنا ہندوستان میں آنے والے خانہ بدوشوں کو ’’آریا‘‘ بنانے کا غلط العام یا پشاورکو پیشہ وروں کا شہرمشہور کرنے کاغلط العام … لیکن ہم صرف قصہ خوانی کی بات کرنا چاہتے ہیں بلکہ قصہ سنانا چاہتے ہیں، عام طور پر بتایا اورلکھا جاتا ہے کہ یہاں ایران ،افغانستان اور وسطی ایشیاء کے تاجر آکر ٹھہرا کرتے تھے اور مقامی داستان گوؤں سے قصے سنتے تھے۔
اس لیے اس کا نام قصہ خوانی پڑ گیا۔ اس رومانی اورداستانی قسم کی روایت کو اتنا دہرایا گیا ہے کہ ساری دنیا میں اس کی مشہوری ہوگئی ہے ۔جب کہ یہ بات سرے سے غلط ہے ، نہ تو یہاں کبھی تاجروں کے ٹھہرنے کی بات صحیح ہے اورنہ یہاں قصہ خوانی ہوا کرتی تھی اورسارا غلط العام لفظ ’’قصہ ‘‘ سے پیدا ہوا ہے جو لفظ ’’کسی‘‘ کی غلط املا کا نتیجہ ہے۔ ہمارے ہاں پہلے زمانے میں جو ملا اوراخوند ہوتے تھے ان میں (پ) کو (ف) ع کو غ اورک کو ق بنانے کاشوق ہوتا تھا یعنی لفظ کوحلق کی گہرائی سے نکالنا۔
اس پر ہمارا ایک چشم دید حقیقہ بھی ہے، ایک ہومیوپیتھک کالج کی کوئی تقریب تھی جس کے مہمان خصوصی پشاورکے ایک اس وقت کے ’’ڈسٹرکٹ خطیب‘‘ تھے جو کسی کوہستانی علاقے سے آکر اپنی ’’صلاحیتوں‘‘ کی وجہ سے ڈسٹرکٹ خطیب کے عہدے پر فائز ہوگئے تھے جب کہ علمی لحاظ سے ’’چنڑے‘‘تھے یعنی وہی مخصوص چند سورتوں، دعاؤں اور رسمی دین کے علمبردار ۔ وہ جب اپنے خطاب کے لیے کھڑے ہوگئے تو اول سے آخر تک ’’خوہیوفتک‘‘ کی گردان کرتے رہے ۔
ایک لطیفے کے مطابق ایسے ہی ایک صاحب جب بیوی کو گالیاں دیتے تھے اسی مخصوص ’’حلقی‘‘ الفاظ میں دیتے تھے ،ایک دن بیوی نے کہا کہ خدا کو مانو ، اچھے بھلے ک کو قاف ،ھ کو خ اورع کو غ تو مت بناؤ جس پر شوہر نے کہا کہ میں تمہارے جاہلوں جیسی گالیاں نہیں دے سکتا ۔
قصہ خوانی بھی اصل میں کسی خوانی تھی اور یہ ہماری نہیں بلکہ مشہور محقق مورخ اورماہرلسانیات حسین بخش کوثر کی تحقیق ہے جو انھوں نے ایک مرتبہ اباسین آرٹ کونسل کی ایک تقریب میں بیان کی تھی ۔
’’کسی‘‘ پشتو میں بھی اوراردو ہندکو پنجابی میں بھی ’’بارانی ‘‘ سیلابی نالے کو کہتے ہیں جسے پشتو میں ’’خوڑ‘‘ بھی کہا جاتا ہے ، لوندخوڑ ایک مشہورگاؤں ہے جہاں کے مسلم لیگی لیڈر غلام محمد خان لوند خوڑ خاصے مشہور لیڈر ہوا کرتے تھے ۔ لوند کا مطلب گیلا یعنی وہ نالہ جس میں پانی ہو، ایسے نالے اکثر آج کل ’’سیم‘‘ کی وجہ سے گیلے ہوچکے ہیں ، ہری پور اورضلع اٹک کے عین درمیان میں ایسے بھی ایک نالے کو ’’چاری کسی‘‘ کہاجاتا ہے جو لوند خوڑ کا ترجمہ ہے ۔
قصہ خوانی بازار بھی ایک ایسے نالے کے کنارے بنا ہے، خوا کامطلب ہے کنارہ ، اورکسی خوانی کامطلب ہے کسی کے کنارے … اور یہ کسی آج بھی کسی خوانی کے جنوبی کنارے پر موجود ہے لیکن اب یہ شہرکے گندہ پانی کے اخراج کے لیے استعمال ہوتا ہے جو ڈبگری بلکہ صدر کے علاقے سے گندہ پانی بہا کر ، خیبر بازار کسی خوانی ، پھر مڑ کر پرانی سبزی منڈی سے ہوتا ہوا جی ٹی روڈ کو پار کرتا ہے پھر سبزی منڈی غلہ منڈی اورفقیر آباد سے گزر کر شہرسے باہرنکلتا ہے اورشہر کی نواحی زمینوں کو سیراب کرتا ہوا ختم ہوجاتا ہے ۔
یہ نالہ اگلے زمانوں میں کسی ہوا کرتا تھا اور قصہ خوانی یاکسی خوانی اس کے کنارے آباد ہے ۔ جہاں تک قصہ گوئی یاداستان گوئی کاتعلق ہے ، اگر کسی زمانے میں تھی بھی یاہوتی بھی تھی تو اس کاجائے وقوع نمک منڈی ، بجوڑی گیٹ اورڈبگری ہونا چاہیے تھا کیوں کہ جن تاجروں کا ذکر ہوتا ہے وہ ان ہی مقامات پر اترتے تھے رہتے تھے اورلین دین کرتے تھے کیوں کہ بڑے بڑے کاروان سرائے ہمارے زمانے تک ان ہی مقامات پر تھے ، جہاں بزرگوں کے مطابق افغانی ایرانی وسطی ایشیائی تاجرآتے تھے ۔
ہمارے زمانے تک بلکہ کسی حد تک اب بھی ڈرائی فروٹ کے مراکز یہی علاقے ہیں جہاں خاص طور پر نمک منڈی ہے جہاں سے وہ تاجر نمک لے جاتے تھے ، ٹرانسپورٹیشن کاذریعہ اونٹ ہوا کرتے تھے ،ایسے قافلوں کے لیے قصہ خوانی میں گنجائش تھی ہی نہیں، لیکن غلط العام کاکوئی بھی علاج نہیں ہوتا جو بات اڑ جاتی ہے وہ پھر واپس نہیں آتی ۔ ویسے بھی جھوٹ کے پاؤں نہیں لیکن ’’پر‘‘ ہوتے ہیں ۔