[ad_1]
ہمارا ملک ہندوستان ہے یا ریپ ستان؟
بابائے قوم گاندھی جی نے کہا تھا کہ
“India will be free when the women feel safe to walk in the streets of India in the midnight”.
یعنی ہندوستان تب آزاد کہلائے گا جب خواتین آدھی رات کو ہندوستان کی سڑکوں پر چلنے میں اپنے آپ کو محفوظ محسوس کریں گی۔ بابائے قوم گاندھی جی کے نظریہ اور نقطۂ نظر سے ہندوستان اب بھی آزاد نہیں ہے۔ بھلے سے ہم ہر 15 اگست کو یوم آزادی کا جشن ہر گھر ترنگا کے ساتھ منائیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ حکومت کے ایوان میں بیٹھنے والے اراکین میں اکثریت ان درندوں کی ہے جو مہیلا کی عزت کو تار تار کرنے اور اپنی شہوت رانی کے لیے عورت کو کھلونا سمجھتے ہیں۔ ایسے حالات میں ملک میں زنا بالجبر اور ریپ و عصمت دری کے لرزہ خیز معاملات میں کمی کیسے ممکن ہے؟ اس وقت پورا ملک سراپا احتجاج ہے۔ چاروں طرف “ہمیں انصاف چاہیے” کی صدائے دل دوز گونج رہی ہیں۔ وزیراعظم اپنے شعلہ بار تقریروں میں بڑی شان سے کہتے ہیں بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ، کہیں وکاس کے نام پر وزیر اعظم “نمو مہیلا ششکتی کرن ابھیان” کا افتتاح کرتے ہیں ۔ اس ابھیان کا مقصد یہ تھا کہ ریاست مہاراشٹر میں بالخصوص اور پورے ملک میں بالعموم خواتین کو ہنر مندی کی ترقی کی تربیت فراہم کرکے اور انٹرپرینیورشپ ڈیولپمنٹ کی نمائش کے ذریعے خواتین کو بااختیار بنایا جائیں۔ اس وقت آنجناب نے کہا تھا کہ ابھیان، ریاستی اور مرکزی حکومتوں کے خواتین کی ترقی کے پروگراموں کو یکجا کرنے اور ان کی جامع فراہمی کے لیے بھی کوشش کرے گا۔ لیکن ابھیان ہوا یا نہیں وہی جانے اس مہیلا شکتی ابھیان کے بعد پورے ملک میں خواتین اور بیٹیوں کی عزت سے کھلواڑ کیا گیا۔ شہر شہر، گاؤں گاؤں میں اجتماعی عصمت دری اور گینگ ریپ کے گھناؤنے واردات دن بدن بڑھتے گئے۔ سرکاری حساب اور اندازے کے مطابق ایک دن میں سو سے زائد عورتوں کا ریپ ہوتا رہا۔ یہ تو وہ معاملات ہیں جو پولیس اور قانونی پراشاسن کے سامنے درج ہوتے ہیں اب ان معاملات کا کیا جو درج نہیں ہوئے؟ جنہوں نے اپنی عزت بچانے کے لیے معاملات کے چھپائے رہے۔ اس سرکاری تخمینہ سے اندازہ لگائیں کہ ہمارے ملک میں سال میں کتنے گینگ ریپ ہوتے ہوں گے۔ اس کا کوئی انداہ ہے؟ اس بڑھتے ہوئے ریپ کو روکنے کے لیے سرکار کے پاس کوئی یوجنا ہے؟ تو جواب ہوگا کہ ہرگز نہیں۔ ہوگا بھی کیسے کیونکہ مجرم ہی حکمران ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ہمارے ملک میں ریپ کرنے والوں کو عدالت باعزت رہا کرتی ہے۔ عوام انہیں گل پوشی اور قدم بوسی سے سواگت کرتی ہے۔ ان درندوں کی رہائی پر مٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں۔ نہ ارباب حکومت کو ان مظلوم عورتوں کی فکر نہ عدالت عظمیٰ کو ان بے گناہ خواتین کی عزت کی پرواہ۔ اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے مظلوم بلقیس بانو کے مجرم درندوں کو باعزت رہا کیا گیا۔ ملک کی عزت کو اوج ثریا تک پہنچانے والے پہلوان خواتین کے ساتھ بے دردی کے ساتھ جنسی استحصال کرنے والا مردود ہندوستانی کشتی فیڈریشن (ڈبلیو ایف آئی) کا سربراہ برج بھوشن شرن سنگھ کے حق میں رہائی کا پروانہ جاری کیا گیا۔
ایسے بے شمار جنسی ہراسانی کرنے والے ملزموں پر قانونی چارہ جوئی کرنے کے بجائے انہیں قانونی تحفظات دیے جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان درندوں کی جرأت وہمت اور بڑھ گئی۔ کھلے عام کسی بھی خاتون کو اپنی ہوس کے شکار بنادیتے ہیں۔ ملک کے عرض وطول میں کتنے خواتین کی عزت کی دھجیاں اڑائی گئی۔ عصمت دری کے بعد وہ درندوں بے دردی کے ساتھ قتل کرتے ہیں اور اس مردہ بدن کے ساتھ بھی کھلواڑ کرتے ہیں۔ جسے دیکھ کر حیوان بھی شرما جائیں۔ نہ ان کے اندر انسانیت نہ رشتہ کی قدر وقیمت۔ ہندوستان میں جس عورت کو دیوی کہا جاتا ہے اسے دیوی کا دن دیہاڑے سرعام جنسی استحصال کیا جاتا ہے۔ لیکن ان ملزموں کو سزا دینے والا کوئی نہیں ہے۔ جیسے کہ مظفر نگر میں ایک چودہ سالہ دلت بچی کو اس کے والدین کے سامنے سے اغوا کیا جاتا ہے پھر اس کے ساتھ کچھ کتے نما حیوان جنسی ہراسانی کرکے اس نونہال کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ پھر اس مردہ بچی کے نازک بدن کے ساتھ شرارت کی جاتی ہے۔ جسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ان درندوں نے ایسا کیا جس سے پوری انسانیت شرمسار ہے۔
آج اسی ماہ اگست میں ہوئے اس دل خراش واردات کا بھی جائزہ لیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ڈاکٹرز سڑکوں پہ بیٹھے احتجاج کر رہے ہیں۔ اتنا ہی نہیں ہندوستان کے گوناگوں شہروں میں علاج ومعالجہ ہڑتال بھی جاری ہے جس کی وجہ سے مریض پریشان حال ہیں۔ برسرِ مطلب آمدم ریاست مغربی بنگال میں ایک سرکاری ہسپتال کی خاتون ڈاکٹر مومیتا کے ریپ اور قتل کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے بدھ کی رات ہزاروں خواتین سڑکوں پر نکل آئیں ہیں۔ اور ہمیں انصاف چاہیے کا فلک شگاف نعرے لگا رہے ہیں۔ یہ گھناؤنا و انسانیت سوز واقعہ آر جی سرکاری میڈیکل کالج میں رونما ہوا وہ آر جی میڈیکل کالج جو مغربی بنگال کے سب سے بڑے ہسپتالوں میں سے ایک ہے۔ 26 ایکڑ پر پھیلے اس ہسپتال میں مریضوں کو داخل کرنے کے لیے 1200 بستر ہیں جبکہ او پی ڈی میں روزانہ اوسطاً 2500 مریض آتے ہیں۔ اس کے علاوہ روزانہ ایک ہزار سے زائد مریض ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹ میں بھی آتے ہیں۔ اتنے بڑے سرکاری اسپتال میں ڈاکٹر مومیتا جمعے کی شب 36 گھنٹے کی سخت شفٹ کے بعد آرام کرنے کے لیے جارہی تھی اور یہ المیہ ہے کہ جسے عدلیہ کی غفلت سے تعبیر کیا جاسکتا ہے کہ ہسپتال میں خواتین کے لیے آرام کی مخصوص جگہ کا انتظام نہیں ہے اس کے باعث ایک سیمینار ہال میں وہ تھکی ماندہ نڈھال ڈاکٹر موصوفہ سو گئی تھی۔ اسی شب دس درندوں نے ڈاکٹر مومیتا کو اپنے ہوس کا شکار بناکر گینگ ریپ کیا اور عصمت دری کے بعد بری طرح سے قتل کرکے اس کے مردہ جسم کے ساتھ بھی چھیڑ چھاڑ کی گئی۔ بدن کے تمام مفاصل اور ہڈیاں توڑ دی گئیں۔ پتہ نہیں وہ دس افراد انسان تھے یا جنگلی درندے۔ اگلی صبح سیمنار ہال میں پوڈیم کے قریب ان کی نیم برہنہ لاش ملی۔ جس پر بہت زیادہ زخم تھے۔ اس دل خراش واردات کے بعد کلکتہ میں ہزاروں خواتین سڑکوں پر آکر احتجاج کرنے لگیں۔ مجموعی طور پر یہ احتجاجی مظاہرے پُرامن رہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ اس احتجاج ریلی میں کچھ نامعلوم افراد اور غنڈے گھس کر احتجاج کرنے والوں پر حملہ کرنے لگے تب ان نامعلوم افراد اور پولیس اہلکاروں میں جھڑپیں ہوئیں اور شعبہ ایمرجنسی میں توڑ پھوڑ بھی کی گئی۔ پولیس کو ان افراد کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے شیل کا استعمال کرنا پڑا اور اس دوران کچھ گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچا۔کئی مظاہرین زخمی بھی ہوئے۔
یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ خواتین اتنی بڑی تعداد میں سڑکوں پر اتر کر احتجاج کررہی ہیں- اس سے بہت پہلے سن 1978 میں ممبئی میں بھی اسی طرح کے احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے جب ایک خاتون کے ریپ کے خلاف سڑکوں پر لوگ نکل آئے تھے۔ نربھیا، آصفہ، حیدرآباد کی دلت ڈاکٹر وغیرہ کی ایسی کئی مثالیں ہیں. اس کولکتہ میں ہوئے دل سوز واقعہ کی وجہ سے عوام میں غم وغصہ کی لہر جاری ہے۔ یہ غصہ جاری بھی رہنا چاہیے تاکہ حکومت اور ارباب حکومت ان درندوں کے خلاف سخت قانونی قدم اٹھائیں اور ایسی سزا سنائیں کہ دوبارہ کوئی ریپ یا عصمت دری میں ملوث ہونے سے پہلے سزا کے تصور سے اس کا بدن کانپنے لگے۔ حالیہ دنوں میں اس کے علاوہ بھی گینگ ریپ کے واردات رونما ہوئے ہیں۔ جس کی تفصیل اگر بیان کی جائیں تو آپ اشکبار نہیں لہو بار ہوجائیں گے۔ آنسوؤں کے بدلے خون کے قطرے آنکھوں سے جاری ہوں گے۔ اجمالی طور پر سن لیجیے تاکہ ہم سب بھی اپنی بیٹیوں اور خواتین کی حفاظت کرسکیں۔ انہیں دنوں میں ریاست اتراکھنڈ کے علاقے رُدرا پور میں ایک کم عمر نرس 30 جولائی کو اسپتال ملازمت کے لیے گئی تھی لیکن واپس نہیں لوٹی۔ پھر نرس کی بہن نے اگلے ہی دن پولیس میں گمشدگی کی رپورٹ بھی درج کرائی۔ نرس کی تلاش کے دوران اس نرس کی لاش اترپردیش کے ضلع بلاس پور سے ملی۔ پوسٹ مارٹم کے بعد یہ خبر آئی کہ نرس کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی تھی اور گلا گھونٹ کر قتل کرنے کی تصدیق بھی کی گئی۔
اسی طرح اترپردیش کے ضلع چندولی میں نوگڑھ علاقے کے جے موہنی جنگل میں تین نوجوانوں نے ایک لڑکی کے ساتھ اجتماعی جنسی زیادتی کی۔ لڑکی ایک نوجوان کے ساتھ بائیک پر گہیلا بابا مندر کا درشن کرکے واپس آرہی تھی۔ اس دوران ملزمین نے اسے راستے میں روک لیا۔ اس کے بعد نوجوان کو درخت سے باندھ کر اسے درندگی کا نشانہ بنایا جس کی وجہ سے لڑکی بے ہوش ہو گئی۔ ملزمین واردات کے بعد فرار ہو گئے۔ ہوش میں آنے کے بعد لڑکی نے درخت سے بندھے نوجوان کو چھڑایا۔پولیس اور پراشاسن ملزموں کی تفتیش میں لگی ہوئی ہے۔
ایک روح فرسا واردات یہ بھی دیکھیے کہ ممبئی کے شہر ساکی ناکہ کے قریب نویں جماعت میں پڑھنے والے ایک اسٹوڈنٹ نے تین سالہ معصوم بچی کو اپنی ہوس اور شہوت رانی کا نشانہ بنایا۔ اس گھناؤنی حرکت کی وجہ سے بچی زندگی وموت کے کشمکش میں آخری سانسیں گن رہی ہے، یہ صرف چند جھلکیاں تھیں۔ اگر عصمت دری کے تمام واقعات قلم بند کیے جائیں تو انسانیت شرم کے مارے ڈوب مرجائے گی۔ ان گینگ ریپ کرنے والے درندوں کو سخت سے سخت ترین سزا دی جانی چاہیے ل۔ تاکہ دوبارہ ایسے واردات نہ ہوں۔ ہم ان تمام بیٹیوں کے ساتھ کھڑے ہیں جو انصاف کے لڑرہے ہیں۔ ان کی ہمت کو سلام پیش کرتے ہیں اور ریاستی اور مرکزی حکومت سے پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ جلد از جلد ان تمام درندوں پر نوٹس لیں اور ایسی سزا سنائیں کہ کبھی وہ قانون کے شکنجے سے بچ نہ پائیں۔ زندگی جہنم بنا دی جائیں۔ تاکہ ان درندوں کو زندگی بوجھ محسوس ہونے لگے۔ امید کرتے ہیں کہ مغربی بنگال کے وزیراعلیٰ عزت مآب ممتا بنرجی ان ملزموں کے خلاف سخت قانونی کاروائی کریں گی۔ خدا کریں کہ بلقیس بانو سے لے کر ڈاکٹر مومیتا تک جتنی بہنوں کے ساتھ ظلم ہوا ہے انہیں انصاف ملیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اتحاد واتفاق کا مظاہرہ کریں کیونکہ۔
متحد ہو تو بدل ڈالو نظام گلشن
منتشر ہو تو مرو چلاتے کیوں ہو۔
[ad_2]
Source link