[ad_1]
مسلمانوں کی نسل کشی اور اربابِ حکومت کی خاموشی
تقریبا تین چار مہینوں سے اخباروں کی سرخیوں میں مسلمان یا دیگر اقلیتی قوم ہی نظر آرہی ہے۔ آج علی الصباح “سالار” کی یہ سرخی پڑھ کر میرا کلیجہ پاش پاش ہوگیا ۔ سرخی کچھ یوں تھی “مسلمان ہو ، یہاں نہیں رہ سکتے”۔ یہ ایک مسلم پریوار پر حملے کی رپورٹ تھی ۔ اس واردات کی تفصیل کچھ یوں ہے کی مدھیہ پردیش کے کھنڈا کے کوڑیا ہنومان مندر کے قریب رہنے والے ایک مسلم پریوار پر یہ کہتے ہوئے حملہ کیا گیا کہ “تم مسلمان ہو اس لیے تمہیں یہاں رہنے کی قطعی اجازت نہیں”۔ معاملہ ڈرانے اور دھمکانے تک منحصر نہیں بلکہ گھر گھس کر پریوار والوں پر خونچکاں حملے کیے گئے ، بوڑھے مرد و عورت پر جان لیوا حملہ ہوا اور معاش کا جو ذریعہ تھا یعنی آٹو رکشہ نذر آتش کر دیا گیا۔ واہ رے جمہوری ہندوستان! ۔۔ اس مضمون سے پہلے بھی میں نے اقلیت کے خلاف کیے جانے والے ظلم و ستم سے بھری داستان کو قلم بند کرکے آپ کے مطالعہ کی میز پر سجائی تھی، جس کا عنوان تھا ” اقلیت کی مآب لنچنگ اور حکومت کی مجرمانہ خاموشی” اس مضمون میں، میں نے کئی ایسے واقعات کی نشان دہی کی تھی جس میں ہندوتوادی دہشت گردوں نے اقلیتوں کو نشانہ بنایا تھا اور کچھ مظلوموں کو تو موت کے گھاٹ تک پہنچانے میں کوئی کسر باقی نہ رکھا۔
پتا نہیں ہندوستان کے نوٹنکی بابا وزیر اعظم مودی جی کہاں غائب ہوگئے۔ 2014ء میں جب انہوں نے کرسی سنبھالی تب مودی جی “سب کا ساتھ سب کا وکاس” کا ڈھکوسلہ آمیز نعرہ لگاتے رہے۔ یہی وکاس ہے جس کو ہم مسلم نسل کشی کا نام دیتے ہیں۔ کھنڈوا کا یہ سوہان روح واقعہ مسلمانوں کے اندر خوف ہراس کا بیج بو رہا ہے۔ اس واردات کے پیچھے جس درندے کا ہاتھ ہے اس کا نام دیپک عرف بنٹی اپادھیائے ہنومان مندر کا رہنے والا ہے جو ایک بد نام زمانہ ملزم و مجرم ہے۔ اس ملزم کے خلاف کھنڈوا کے مختلف تھانوں میں 25 سے زیادہ کیسز درج ہیں۔ اس کے باوجود وہ ملزم کھلے عام گھوم رہا ہے اور آئے دن جرم پر جرم کرتا جا رہا ہے اور ارباب حکومت کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ مسلم مخالف دنگوں کی جھڑی لگ گئی اور مرکزی حکومت کو کیوں چپی لگی ہوئی ہے؟ ایسا لگتا ہے کہ بھاجپا مسلم اقلیت کی ساری لٹیا ڈبو دے گی ۔ آئین ہند کے صفحات پر جو دفعات تعزیرات کے ہیں وہ صرف اور صرف اوراق کی زیب و زینت بنے ہوئے ہیں۔
ایک طرف دھرم سنسد کے نام پر خون خرابے اور مار دھاڑ کی باتیں ہوتی ہیں اور 20 کروڑ ہندوستانی مسلمانوں کے قتل عام کی بات کی جاتی ہے۔ اور اسٹیجوں پر وہ بات کرتے ہیں جو مذہبی لحاظ سے انتہائی محترم وپرامن سمجھے جانے والے مہا منڈلیشوروں نے دھرم سنسد رچا کر ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف نسل کشی پر ابھارنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف مسلسل اشتعال انگیز تقریر کرتے ہیں اور ہندو بھائیوں کے مابین زہر کا بیج بوتے ہیں اور مسلم نسل کشی کی مہم بھی چلاتے ہیں۔ یہ تمام واقعات رونما ہو کر بھی حکومت اور سیاسی قائدین جو جمہوریت کے امن و امان کا دم بھرتے ہیں، تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ مجھے کھل کر کہنے دیجئے درحقیقت آج کی مرکزی بھاجپائی حکومت آر ایس ایس کے اشارۂ چشم و ابرو کی منتظر رہتی ہے، اس کے ایماء پر کام بھی کرتی ہے۔
اس کے علاوہ گجرات کے سورت کے ہجرا گاؤں میں ہندوتوادی دہشت گردوں کی جانب سے ایک مسجد کی توہین کی گئی۔ چپل پہن کر ان دہشت گردوں نے مسجد میں گھس کر نمازیوں پر دھاوا بولا اور مسجد جو اس دھرتی پر ایک مقدس و پوتر جگہ ہے اس کی توہین کی۔ ہندوستان کے آئین کے مطابق کسی بھی دھرم کے ماننے والوں کو اس بات کی قطعی اجازت نہیں کہ وہ کسی دوسرے دھرم کے ارادھنالے و عبادت گاہوں کی توہین و تذلیل کریں۔ اس سنگین جرم کو دہشت گردی نہ کہیے تو کیا کہیے؟ ہم حکومت و ارباب حکومت سے مانگ کرتے ہیں وہ ان دونوں جگہوں کے مجرموں اور ملزموں کو تعزیرات ہند کے دفعات کے مطابق سزا دیں اور ان پر سخت سے سخت ایف آئی آر درج کرکے عدالت کے سامنے کھڑا کریں ؛ ورنہ یہ اتنی جری ہو جائیں گے کہ کل دوسرے اقلیتوں کو نشانہ بنا کر ہندوستان کے امن و امان کو سبوتاژ کر دیں گے۔
[ad_2]
Source link