[ad_1]
ٹرمپ کی امیگریشن پالیسی بھی بہت سخت ہے۔ انھوں نے اپنے پہلے دور میں اعلان کیا تھا کہ وہ امریکہ میں غیر قانونی طور پر رہ رہے ڈیڑھ سے دو کروڑ تارکین وطن کو ان کے ملک واپس بھیجیں گے۔ اس سلسلے میں انھوں نے کئی اقدامات بھی کیے تھے۔ امریکہ میں بڑی تعداد میں ہندوستانی شہری غیر قانونی طور پر رہ رہے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو ان کے لیے مسائل پیدا ہوں گے۔ اس کے علاوہ ایچ ون بی ویزا کے بارے میں ان کی سخت پالیسی وہاں کام کر رہے ہندوستانی آئی ٹی ورکرز کے لیے مسئلہ کھڑا کر سکتی ہے۔ ان کے ویزے کی تجدید مشکل ہو جائے گی۔ ان کے پہلے دور میں ایچ ون بی ویزا پروگرام پر پابندیوں میں اضافہ ہوا تھا جس کی وجہ سے ہندوستان کے اسکلڈ ورکرز پر اثر پڑا تھا۔ اگر وہ پالیسی پھر جاری رہتی ہے تو آئی ٹی سیکٹر پر اثر پڑنے کا اندیشہ ہے۔
ہندوستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور پریس کی آزادی کا معاملہ بھی وقتاً فوقتاً اٹھتا رہا ہے۔ مذہبی آزادی سے متعلق امریکی کمیشن اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت دیگر اداروں کی جانب سے اس بارے میں تشویش ظاہر کی جاتی رہی ہے۔ ہندوستان انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور پریس کی آزادی پر پابندی کے الزامات کی تردید کرتا رہا ہے۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ اس کا اندرونی معاملہ ہے اس میں کسی دوسرے ملک کو مداخلت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ خالصتان نواز امریکی شہری گورپتونت سنگھ پنوں کے قتل کی مبینہ سازش کے سلسلے میں ہندوستان کے خلاف امریکی عدالت میں چلنے والا مقدمہ بھی مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔
بہرحال یہ ایسے کچھ چنیدہ ایشوز ہیں جو مودی اور ٹرمپ کی دوستی کے باوجود ہند امریکہ تعلقات پر اثرانداز ہو سکتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ ٹرمپ کی جیت کے لیے ہون کرنے اور ان کی جیت پر خوشیاں منانے والے عناصر آگے کیا موقف اختیار کرتے ہیں۔
[ad_2]
Source link