يه خبر سن كر دل ودماغ خوشی سے جھوم اٹھے کہ عدالت عظمی نے گستاخ رسول ﷺ معطل ترجمان بھاجپا بدنام زمانہ نوپور شرما پر سخت پھٹکار لگائی۔سپریم کورٹ نے حکم جاری کیا کہ نوپور ٹی وی پر آکر پورے ملک سے معافی مانگیں۔مزید کہا کہ آپ کی حرکت نازیبا نے ملک میں آگ بھڑکائی اتناہی نہیں ادے پور کے درزی کہنیا لال کے قتل کیلئے ذمہ دار بھی نوپور شرما ہی ہے۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ نے پھر ایک بار جمہوریت اور سیکولریزم کا سر بلند کیا۔اگر یہی حکم اور فیصلہ کچھ دن قبل آتا تو ملک کی فضا اتنی مکدر نہ ہوتی۔ہندوستان میں جب سے ناموس رسالت مآب ﷺ کے خلاف کستاخی وتوہین آمیزواردات رونما ہوئے تب سے فضا دن بہ دن گرد آلود ہوتی جارہی تھی۔ہر سمت ہاہا کار مچی ہوتھی۔علم احتجاج بلند کئے گئے تھے۔ملک بھر میں ہزاروں کی تعداد میں تھانے میں ایف آئی آر درج کرائے گئے۔ عدلیہ اور انتظامیہ مجرم کو سزا دینے کے بدلے معصوموں کی زندگی سے کھیلنے لگے۔آخر دیر آید درست آید کے تحت سپریم کورٹ نے گستاخ نوپور شرما کو معافی مانگنے کا حکم جاری کرکے عاشقان رسول ﷺ کے کلیجوں کا ٹھنڈا کیا۔ناموس رسالت کا مسئلہ کافی حساس اور بے پناہ جذباتی ہے اور تمام مسائل سے ناموس کا مسئلہ جداگانہ ہے۔اس کا تعلق براہ راست مسلمانوں کے ایمان وعقیدہ سے ہے اس لئے ملک بھر کے مسلمان نوپور شرما کو سلاخوں کے پیچھے دیکھنا چاہتے تھے اور ہنوز چانتے ہیں۔پرامن طریقہ سے احتجاج کئے گئے۔علاوہ ازیں حکومت ہند وارباب حکومت سے کسی چیز کا مطالبہ نہیں تھا۔
ناموس رسالت پر توہین آمیز تبصرے کرکے نوپور نے مسلمانوں کے خفتہ جذبہء عقیدت کو جھنجھوڑا۔جذبات کا خون کیا۔یہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ بعض قتل ایسے بھی ہوتے ہیں کہ خون نہیں ٹپکتا او ر خنجر کی نوک پر سرخی نہیں ہوتی لیکن عقیدت کی خاک پر لاشوں کا انبار لگ جاتا ہے۔ جذبات کے اشتعال کے نتیجے میں خاک وخون میں تڑپانے والے ہزاروں قتل محسوس کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔نوپور کی یہ حرکت بھی انہیں فسادات اور احتجاجات کا پیش خیمہ تھی۔تقریبا ایک دو مہینہ ے ملک بھر میں جو نقصانات اور توڑ پھوڑ ہوئے ان سب کے پیچھے کہیں نہ کہیں اس مجرم کا یہ ناقابل معافی جرم کار فرما ہے۔ یہی بات سمجھاتے سمجھاتے علماء اور مسلم سیاسی قائدین تھک گئے۔پیہم گستاخیوں کا نتیجہ کہئے کہ سینکڑوں آبادیاں صحراؤ ں اور قبرستانوں میں تبدیل ہوگئیں۔ہزاروں مہذب اور تعلیم یافتہ انسان آن کی آن میں درندوں کی سرشت اختیار کرکے قتل وغارتگری کا بازار گرم کیا۔ملک بھر درد انگیز چیخوں, لرزہ خیز فریادوں اور آتش وخون کی طغیانیوں سے ملک کی فضا اس درجہ بوجھل ہوگئی کہ شرافت او ر انسانیت کا دم گھٹنے لگا۔آر یس یس کے غنڈے فرقہ واریت کی آگ میں اقلیت کو جھونکنے کی کوشش وکاوش میں لگی رہتی ہے۔ستم بالائے ستم یہ کہ صرف مسلمان ہونے کا الزام زندگی کے سارے حقوق سے یک لخت محروم کردینے کیلئے کافی ہے۔ان جمہوریت دشمن عناصر کی آنکھوں میں خون کی سرخی او ر ارادوں میں بہیمانہ تشنگی ہنوز باقی ہے۔ناموس رسالت پر جب تبصرے ہوئے تو ہندوستان کا عالمی پیمانے پر بائیکاٹ کیا گیا۔ عرب ممالک نے معاشی ناکہ بندی کا اعلان کردیا بھارت جو ایک گنگا جمنی تہذیب کا گہوارہ ہے اس کی شبیہ کو یہ ہندوتوائی دہشت گرد جماعت بگاڑ نے کی کوشش کررہی ہے۔یہ سب کچھ ان نااندیش عاقبت کے سیاہ کرتوتوں کا نتیجہ وثمرہ ہے۔
عدالت عظمی کا اس حسین تبصرہ کا تمام مسلم قائدین اور ملی, سماجی, سیاسی اور مذہبی تنظیموں نے خیر مقدم کیا۔بعض ملی تنظیموں نے عدالت سے نوپور کو قانونی سزادینے کا بھی مطالبہ کیا تاکہ آئندہ کوئی ایسا گھناؤ نا جرم کرنہ سکیں۔سپریم کورٹ نے دہلی پولیس کے اس رویہ پر بھی سوال اٹھایا کہ نوپور کے خلاف ملک بھر کئی مقدمات درج ہونے کے باوجود بھی اب تک گرفتاری کیوں نہیں ہوئی؟؟؟؟مسلم قائدین نے جہاں یک طرف سپریم کورٹ کے تبصرہ کی تعریف وتوصیف کی وہیں ادے پورکے قتل کی کھل کر مذمت ومخالفت کی مجرموں کو سخت سے سخت سزادینے کا بھی مطالبہ کیا کیوں کہ اس ملک میں قانون ہاتھ میں لانے کا کسی شہری کو حق حاصل نہیں۔کنہیا لال کے قتل کے بعد سے مسلسل شوشیل میڈیا پر ریاض اور غوث کی تصویریں وائرل ہورہی ہیں جس سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ قاتلین دونوں بھاجپا کے کاریاکرتا ہیں۔یہ بھی اندازہ لگایا جارہا ہے کہ ملک کی فضا کو مکدر کرنے کیلئے بی جے پی نے اپنی خفیہ سازش سے کنہیا لال کا قتل کروایا ہے تاکہ ہندو ووٹ بینک کو مضبوط اور استوار کیا جاسکے۔لیکن یہ معاملہ بہت دن تک صیغہء راز میں نہیں رہیگا کیا خوب کہا شاعر نے
نہ تم صدمے ہمیں دیتے نہ ہم فریاد یوں کرتے نہ کھلتے راز سربستہ نہ یوں رسوائیاں ہوتیں
ان صبر آزما حالات کے باوجود مسلمانان ہند کے اندر نہ مایوسی آئی نہ وہ کبھی متزلزل ہوئے۔انہیں ایام میں نوجوانوں کو پس زنداں بھی کیا گیا ان کی ہمت شکنی کا امتحان پر امتحان لیا جاتا رہا لیکن وہ صبر کا دامن تھامے رہے۔ان نازک حالات میں بھی بی جے پی کی دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہورہا ہے۔کولار میں ادے پور کے قتل معاملہ کو لیکر بی جے پی کے کاریاکرتا ؤ ں نے احتجاج کیا۔اس احتجاج کے آڑ میں کولار رکن لوگ سبھا منی سوامی نے اپنی بھڑکاؤ بھاشن میں کہا کہ ہم کولار سے مسلمانوں کو بھگا دیں گے۔اتنا ہی نہیں اس کے بعد ہندوجاگرن ویدیکے کے کنوینر مسٹر شیومورتی نے بھی انتہائی غلیظ اور اشتعال آمیز اور توہین انگیز تقریر کی۔جس میں رسالت مآب ﷺ اور قرآن پاک کو نشانہ بنایا۔تقریر میں ایسے ایسے اناپ شناپ بکے کہ ان کلمات کو نقل کرنے سے نوک قلم قاصر ہے۔قرآن کریم اور رسالت مآب ﷺ کو نشانہ بنانا ان دریدہ ذہنی اور اسلام دشمنی کی کھلی دلیل ہے۔ہماری حکومت کرناٹک اور وزیر اعلی بومئی سے مطالبہ ہے کہ ان دونوں کے خلاف بھی سخت سے سخت قانونی کاروائی جی جائیں۔قابل مبارکباد ہیں انجمن کولار کے ذمہ دار کہ عین وقت ضلع کولار پولیس سپرنٹنڈنٹ آر دیوراج کو ان مجروموں کے خلاف میمورینڈم پیش کرتے ہوئے معاملہ کو حل کرنے کا پرامن طریقہ سے مطالبہ کیا گیا۔بڑا تعجب ہے کہ رکن لوگ سبھا جو عوام کا ترجمان ہے وہی ایک مخصوص قوم کی نمائندگی کرتے ہوئے ایک مذہب کو نشانہ بناکر مذہبی روادار ی کو ختم کرنا چاہتا ہے ووٹ حاصل کرتے وقت یہ عوام کے ترجمان اور نمائندے ہیں تب انہیں جمہوریت اور سیکولریزم کا عفریت سوار رہتا ہے جیسے ہے کرسی حاصل ہوجاتی ہے تو جمہوریت کا نشہ اترجاتا ہے جو پراشاشن کی حفاظت کا ذمہ دار ہے وہی پراشاشن کا کھلی عام قتل بھی کررہا ہے آخر عوام کس پر بھروسہ کریں؟؟؟کدھر جائیں؟؟ کس سے انصاف کا مطالبہ کریں؟؟؟کیا خوف کہا شاعر نے
خداوندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں کہ درویشی بھی عیاری ہے سلطانی بھی عیاری