[ad_1]
“عصمت دری کے بڑھتے واقعات اور ہماری ذمہ داری “
ہندوستان میں خواتین کے خلاف ریپ چوتھا عام جرم ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈس بیورو (این سی آر بی) کی سالانہ رپورٹ (2021) کے مطابق ملک بھر میں عصمت دری کے 31,677 کیس درج کئے گئے ہیں ، جن میں تقریباً 86 کیس روزانہ درج ہوئے ہیں۔
یہ اعدادوشمار درج کئے گئے معاملات کے ہیں ۔ لیکن حقیقت میں عصمت دری کے واقعات کی تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہوسکتی ہے ۔ بہت سے معاملات کی شکایات خود متاثرہ کے گھر والے سماج اور بدنامی کے خوف سے درج ہی نہیں کراتے ہیں کہ آگے چل کر ان کے لئے پریشانی کا سبب بن سکتے ہیں۔ کتنی ہی لڑکیاں اپنے ساتھ ہونے والی چھیڑخوانی کی خبر گھر والوں کو اس خوف کی وجہ سے لگنے ہی نہیں دیتیں کہ کہیں ان پر ہی باہر نکلنے، اسکول ، کالج یا ٹیوشن جانے پر پابندی عائد نا کردی جائے۔ ان کا سوچنا بھی کچھ غلط نہیں ہے۔ اکثر والدین اس طرح کی شکایت ملنے پر لڑکی پر ہی پابندی لگانے کو آسان حل سمجھتے ہیں کہ کہیں یہی چھیڑخوانی آگے چل کر کسی بڑے حادثہ کا سبب نا بن جائے۔
شائد ہی کوئی دن گزرا ہو جب ریپ یا چھیڑخوانی کی خبریں پڑھنے کو نا ملی ہوں۔ ایسے کئی واقعات محض چند دنوں کے اندر ہی رونما ہوئے ہیں۔ خواتین اور بچیوں کے خلاف ہراسانی اور عصمت دری کی کئی ہولناک خبریں ایک کے بعد ایک سامنے آئیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے بلقیس بانو کے ساتھ درندگی کی حدیں پار کرنے والے مجرموں کی رہائی نے سماج کے حیوانوں کو آبرو ریزی کرنے کا پروانہ دے دیا ہو اور رہائی کا یہ فیصلہ ان کے لئے حوصلہ افزائی کا ایک سبب بن گیا ہو ۔کہیں کسی بچی کے ساتھ ریپ کرنے کے بعد اسے پیڑ سے لٹکایا گیا تو کہیں خاتون کی طرف سے چھیڑخوانی کی مخالفت کرنے پر انہیں چلتی ٹرین سے دھکا دیا گیا جس کی وجہ سے ان کی موت واقع ہوگئی۔ کہیں ایک طرفہ جنونی عاشق نے ایک لڑکی کی بے رحمی سے جان لے لی تو کہیں دو نابالغ لڑکیوں کے ذریعے جنسی استحصال کی شکایت کسی سوامی کے خلاف درج کی گئی۔ وہیں لکھیم پور سے ایک دفعہ پھر ایسی ہی خبر آئی کہ دو نابالغ لڑکیوں کو بہلا کر کھیت میں لے جایا گیا ،ان کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کی گئی اور ان کا گلا دباکر انہیں قتل کردیا گیا۔ ایسے کتنے ہی اندوہناک واقعات ہوتے ہیں جنہیں ہم دیکھ کر افسوس کرتے ہیں اور بھول جاتے ہیں۔ ریپ اپنے آپ میں ہی ایک ناقابل معافی جرم ہے۔ جن کے ساتھ ایسے دردناک حادثے ہوتے ہیں وہ کس جسمانی اذیت اور ذہنی کرب سے گزرتے ہیں اس کا اندازہ بھی ہم نہیں کرسکتے ۔ ان درندوں کو یہ حق کس نے دے دیا ہے کہ ایک اچھے خاصے خوش باش انسان کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا کر اسے عرصے تک ذہنی اور جسمانی اذیت میں مبتلا کردیں۔
اس طرح کی کتنی ہی دل دہلا دینے والی خبریں آتی رہتی ہیں۔لیکن حقیقت میں اس جرم کی روک تھام اور خواتین کے تحفظات کو یقینی بنائے جانے کے لئے کبھی پوری سنجیدگی سے غور وفکر ہی نہیں کیا گیا۔ اگر ریپ کی کوئی خبر اخبارات اور نیوز چینلز کی ہیڈ لائن بن جائے یا عوام کی طرف سے شدید رد عمل آنے لگے تو وقتی طور پر کچھ ایکشن ضرور لئے جاتے ہیں۔ پارلیمنٹ میں “واویلا” بھی خوب مچایا جاتا ہے۔ ریپ کے مجرموں کے خلاف سخت قانون لانے کی بات ہوتی ہے۔ لیکن ہر بار کی طرح اس سنجیدہ مسئلے پر بھی ہونے والی بحث ایک دوسرے کی کوتاہیوں اور الزام تراشیوں پر ختم ہوجاتی ہے۔ کچھ ہی دنوں میں نئی خبریں سرخیوں کی جگہ لے لیتی ہیں اور عوام کو بھی دوسرے مسائل میں الجھا دیا جاتا ہے۔ عرصے سے یہی ہوتا آرہا ہے۔کہیں نا کہیں بلقیس کے مجرموں کی رہائی نے ان وحشیوں کے دماغ پر ایک منفی اثر ضرور ڈال دیا ہے کہ اس طرح کے جرم کرنے اور پکڑے جانے کے بعد انہیں بھی بہرحال رہائی مل ہی جائے گی۔ قانون کا خوف ان کے دلوں سے نکلتا جا رہا ہے۔ خواتین کے تحفظات کو یقینی بنائے جانے کے لئے حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کو پوری سنجیدگی کے ساتھ اس مسلئے پر غور و فکر کرکے متفقہ طور پر لڑکیوں کی عزت پامال کرنے والوں کے خلاف ایک سخت قانون پاس کرنا چاہئے۔ اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ عصمت دری کے کیس کی تفتیش اور عدالتی کارروائی سست روی کے بغیر ہو اور مجرم کو جلد از جلد سخت سزا دی جائے تاکہ سماج میں گھوم رہے درندوں کے دلوں میں کچھ خوف پیدا ہو۔
ریپ کے مجرموں کو سزا دلانا قانون کی ذمہ داری ہے لیکن کچھ ذمہ داریاں ہماری بھی ہیں۔ والدین کو چاہئے کہ بلا تفریق نوجوان لڑکیوں اور لڑکوں کی ابتداء سے ہی تربیت کریں ۔ خاص طور پر نوجوان لڑکوں کو بتائیں کہ راہ چلتی خواتین پر آوازیں کسنا ، انہیں تنگ کرنا یا ان سے کسی طرح کی بدسلوکی کرنا کوئی “مردانہ” کام نہیں ہے۔ اس سے ان کی کوئی عزت نہیں بنے گی ۔ ان کے جینے کا مقصد یہ نہیں ہونا چاہئے کہ وہ خواتین کو ہراساں کریں۔ کسی راہ چلتی لڑکی کو فالو کرتے ہوئے اسے گھر پہنچا کر ہی دم لینا ان کی ذمہ داریوں میں شامل نہیں ہے۔ ان فضولیات سے ہٹ کر وہ اپنا وقت تعلیم اور تعمیری کاموں میں لگائیں۔ نوجوان لڑکیوں پر پابندی اور سختی کرنے کے بجائے انہیں پیار سے سمجھائیں کہ کسی دوست پر بھروسہ کرکے اس کے ساتھ کہیں بھی چلے جانا بالکل درست نہیں ہے۔ کسی پر آنکھیں بند کرکے اعتماد کرنا بے وقوفی ہے۔ انہیں حالاتِ حاضرہ سے ضرور واقف کرائیں۔والدین کو چاہئے کہ اولاد کو اپنے اعتماد میں لیں۔ ان کو صحیح اور غلط کا فرق بتائیں۔
آئے دن نابالغ بچوں کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی اور چھیڑخوانی حد درجہ تشویشناک ہے۔ ایک تو انہیں لوگوں کو سمجھنے کا شعور نہیں دوسرے یہ معصوم آسانی سے کسی کے بھی بہکاوے میں آجاتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ معصوم لمس کے فرق کو نہیں سمجھتے ہیں ۔ ان کے ساتھ ہورہی ایسی کسی بھی نازیبا حرکت پر وہ ذہنی طور پر پریشان ہوجاتے ہیں۔والدین بچوں کو پیار سے سمجھائیں کہ اگر کوئی انہیں ایسے انداز میں چھوتا ہے جس سے انہیں اچھا محسوس نہیں ہوتا یا ان کے ساتھ کسی بھی طرح کی زبردستی کرتا ہے تو ان کے قریب نہیں جاتے ہیں، ایسے لوگ برے ہوتے ہیں۔ان کے معصوم ذہن میں اس بات کی سمجھ ڈال دیں کہ گھر میں ، باہر یا ہمارے پڑوس میں کچھ ایسے گندے اور برے لوگ بھی ہوتے ہیں جو آپ سے غلط سلوک کرتے ہیں یا کچھ مخصوص جگہوں پر ہاتھ لگاتے ہیں تو اس بات کو چھپاتے نہیں ہیں بلکہ والدین سے بتایا جاتا ہے۔ اسکول اور ٹیوشن جانے والی نوعمر لڑکیوں کو خبردار کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر ان کے ساتھ کوئی چھیڑخوانی کرتا ہے یا کسی طرح کی بدسلوکی کرتا ہے تو اس بات سے والدین کو واقف کرائیں۔ احتیاط اور سمجھداری کا مظاہرہ کرنے سے چھیڑخوانی اور عصمت دری کے واقعات ختم ہو جائیں گے ،اس بات کا یقین تو نہیں لیکن احتیاط اور سمجھ بوجھ سے اپنی ہوس مٹانے کے لئے درندوں کو آسانی سے فراہم ہو جانے والے مواقع میں کچھ حد تک کمی تو ضرور آہی جائے گی۔
_حمنہ کبیر (وارانسی)
[ad_2]
Source link