Site icon اردو

ہماری خامہ فرسائی احمد حاطب صدیقی (ابونثر)

کراچی سے برادر عنایت اللہ اسمٰعیل ادیبؔ پوچھتے ہیں:”لفظ’خامہ فرسائی‘ کے لغوی معنی کیا ہیں؟ یہ لفظ منفی ہے یا مثبت؟“
بھائی!’خامہ فرسائی‘ لفظ نہیں، دو الفاظ کا مرکّب ہے۔’لَفَظَ‘ کے لفظی معنی ہیں ’منہ سے پھینکنا،نکالنا یا تھوکنا‘۔کلمات چوں کہ منہ ہی سے پھینکے جاتے ہیں،اس وجہ سے ’لفظ‘کہلاتے ہیں۔ بولنے، بات کہنے یعنی کوئی لفظ منہ سے ادا کرنے کا عمل ’تلفظ‘کہلاتا ہے۔ بہت بک بک کرنے، مبالغہ آمیز باتیں کرنے یا چن چن کرشیریں اور مرصع و مقفیٰ و مسجع الفاظ استعمال کرنے کو ’لفّاظی‘کہتے ہیں۔ ڈینگیں مارنے والا اور طرح طرح کی باتیں بنانے والا ’لفّاظ‘ کا لقب پاتا ہے۔ حروف ملانے سے لفظ بنتا ہے، اس طرح دو حرفی، سہ حرفی، چہار حرفی اورپنج حرفی الفاظ وجود میں آتے ہیں۔مشہور مزاح نگار کرنل شفیق الرحمٰن کے محبوب کو ایک بار چھے حرفی لفظ استعمال کرنا پڑ گیا تو:
پہلے اُس نے ”مُس“ کہا، پھر ”تَق“ کہا، پھر ”بِل“ کہا
اس طرح ظالم نے مستقبل کے ٹکڑے کر دیے
’خامہ فرسائی‘ دو الفاظ پر مشتمل ہے، لہٰذا’خامہ فرسائی‘ کو لفظ نہیں ’ترکیب‘ کہیں گے۔’ترکیب‘ کے لغوی معنی ہیں کئی چیزوں کو ملانا،بناوٹ، ساخت، تناسب،ارکان،مختلف اجزا کی آمیزش۔ اسی وجہ سے دو الفاظ کایہ آمیزہ بھی ’ترکیب‘ کہلائے گا۔’ترکیب‘ کے کئی اوربھی معانی، مفاہیم اور بہت سی اقسام ہیں۔لیکن اگرہم اس وقت آپ کو ترکیبیں بتانے بیٹھ گئے تو اصل موضوع ’غَت ربود‘ ہو جائے گا۔’غَت ربود‘ بھی’ترکیب‘ ہی ہے۔ اِسے بہت سے لوگ ’غَتَر بود‘ پڑھتے اور بولتے ہیں۔جیسے ”غٹرغوں“ کر رہے ہوں۔تلفظ کی یہ غلطی محض اس وجہ سے ہونے لگی ہے کہ ’غت ربود‘ کو ہمیشہ ملا کر ہی لکھنے کا رواج رہا ہے۔اِس غریب ’غت ربود‘ کے پردۂ غیب سے نمودار ہونے کی کہانی بہت دلچسپ ہے۔ شیخ شرف الدین مصلح سعدیؔ شیرازی کی ”بوستان“ میں ایک نظم کا عنوان ہے”ذکرِ محامد اتابک ابوبکر بن سعد زنگی طاب ثراہٗ“۔ اس نظم کا ایک شعر ہے، جس میں شیخ نے اپنا اتا پتا بتاکر محققین کی مشکل آسان کرنے کی کوشش کی ہے:
کہ سعدیؔ کہ گوئے بلاغت ربود
در ایّامِ بوبکر بن سعد بود
”وہ سعدیؔ کہ جو بلاغت کی گیند اُچک لے گیا،سلطان ابوبکر بن سعد زنگی کے زمانے میں ہوا کرتا تھا“۔
’گوئے‘ فارسی میں گیند کو کہتے ہیں۔گیند پر چوکے چھکے لگانے والے جس شخص کو ہمارے ہاں ’بلّے باز‘ کہا جانے لگا ہے، اُسے اہلِ فارس ’گوئے باز‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔’ربودن‘ کا مطلب ہے’اُچک لینا، چھین لینا، خراب کر دینا‘۔ گیند اُچک لینایعنی’سبقت لے جانا‘۔
کسی دن کسی بوجھ بجھکڑشاگردسے کسی استاد نے پوچھا:”میاں!یہ شعر سمجھ میں آیا؟“
فرماں بردار شاگرد نے جواب دیا:”جی اُستاد جی! شعر تو سمجھ میں آگیا، لیکن ’غَت ربود‘ سمجھ میں نہیں آیا“۔
اُس بونگے نے ’بلاغت‘ کے دو ٹکڑے کیے۔ پھر ’بَلا‘ کو ’گوئے‘ سے اور ’غَت‘کو’ربود‘سے جوڑکرشعر ہی ’غت ربود‘ کردیا۔ بس اُسی دن سے گڈ مڈ کر دینے، گڑبڑ کر دینے، ملاجُلا دینے، خلط ملط کردینے، خراب کر دینے یا جدید اصطلاح میں ’وَڑجانے‘ کے معنوں میں ’غت رَبُود ہو جانا یا کر دینا‘ بولا جانے لگا۔فارسی میں بھی ’غت ربود کردن‘ یا ’غت ربود شدن‘ بولا جاتا ہے، مگر لکھتے وہ بھی ’غتربود‘ ہی ہیں۔
’خامہ‘ بھی فارسی لفظ ہے۔ اس کا مطلب ہے قلم۔’فرسائی‘ کا لفظ ’فرسودن‘ سے مشتق ہے اور ’فرسودن‘ کا مطلب ہے گِھسنا، رگڑنایا گھسیٹنا۔ گھسی پٹی، پُرانی چیز کو اُردو میں بھی ’فرسودہ‘ کہا جاتا ہے۔’خامہ فرسائی‘ کا لغوی مطلب ہوا ’قلم گِھسنا‘یا ’قلم گھسیٹنا‘۔نئی نسل کو، جو تختۂ کلید پر اُنگلیاں گِھستی رہتی ہے،معلوم ہو کہ ابھی زیادہ دن نہیں گزرے جب لکھنے والے کاغذ پر قلم گِھستے رہتے تھے۔یعنی بڑی محنت سے لکھتے رہتے تھے۔اس محنت پر انھیں بچپن ہی سے لگا دیا جاتا تھا۔ تختی لکھوائی جاتی تھی، خوش خطی سکھائی جاتی تھی اور تلقین کی جاتی تھی کہ
گر تو می خواہی کہ باشی خوش نویس
می نویس و می نویس و می نویس
اگر تم چاہتے ہو کہ خوش خط اور خوش نویس بن جاؤ تو لکھے جاؤ، لکھے جاؤ، لکھے جاؤ۔اسی کو ’خامہ فرسائی‘ کہتے ہیں۔اصطلاحی معنے ہیں تحریر کرنا، تصنیف کرنا۔کاغذ پر قلم سے خواہ نثرمیں کوئی چیز تحریر کی جائے یااشعار لکھیں، دونوں صورتوں میں قلم گِھسنا پڑتا ہے۔ قلم گِھسنے کی آواز بھی آتی ہے۔ اس آواز کو ’صریرِ خامہ‘ کہتے ہیں۔ غالبؔ بھی اپنے اشعارتحریر کرتے وقت قلم ہی گھسا کرتے تھے۔ مگراُن کا دعویٰ تھا:
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالبؔ صریرِ خامہ نوائے سروش ہے
’سروش کہتے ہیں فرشتے کو۔ غالبؔ کے حیطۂ خیال میں غیب سے جو مضامین نازل ہوتے تھے، انھیں گویا فرشتہ خود لے کر آتا تھا۔ غالبؔ کا ’صریرِ خامہ‘ محض قلم گِھسنے کی آواز نہ تھی۔ اُس فرشتے کی آواز تھی جو غیب سے آنے والے خیالات انھیں املا کروایا کرتا تھا۔
لکھتے وقت اگر ہم کسی حیرت میں مبتلا ہو جائیں یا سوچ میں پڑ جائیں تو اپنے دانتوں تلے اپنا قلم داب لیتے ہیں۔ مگر غالبؔ حیران ہوتے تو اُن کا قلم ہی اپنے دانتوں تلے انگلیاں داب کر بیٹھ جاتا یا لیٹ جاتا تھا:
خامہ انگشت بدنداں ہے اِسے کیا لکھیے
ناطقہ سر بہ گریباں ہے، اسے کیا کہیے
ہمارے زمانے میں تو کوئی بھی اپنے گریبان میں سر نہیں ڈالتا، خواہ ناطقہ ہویا نفسِ ناطقہ۔
رہا یہ سوال کہ ’خامہ فرسائی‘ کی ترکیب مثبت ہے یا منفی؟ تو صاحب یہ تو آپ کے لہجے پر منحصر ہے۔ مولانا ماہرؔ القادری کا فتویٰ ہے:
شکریہ پُرسشِ احوال کا، لیکن اے دوست!
صرف لہجے سے بھی مفہوم بدل جاتا ہے
پُرسشِ حال یا پُرسشِ احوال کے لیے اکثر یہ فقرہ بولا جاتا جاتا ہے:”اب آپ کو آرام ہے؟“
پوچھنے والا اگرہمدردی بھرے لہجے میں دریافت کرئے تویہ ہمدردانہ پُرسشِ حال ہے۔ لیکن اگر طنزیہ لہجے میں پوچھا جائے تو صاحب مفہوم ہی بدل جاتا ہے۔ کچھ یہی حال ’خامہ فرسائی‘ کی ترکیب کے استعمال کا بھی ہے۔اگر کہا جائے کہ
”اطہرہاشمی مرحوم زندگی کے آخری ایّام تک اصلاحِ زبان کے موضوع پر خامہ فرسائی کرتے رہے“۔
تو یہ اُن کی خدمات کا اعتراف ہوگا۔تاہم اگر ہم یہ عرض کریں کہ
”ہم کیا اور ہماری تحریریں کیا؟ بس یوں ہی کچھ خامہ فرسائی کر لیتے ہیں“۔
تو ہر چند کہ یہ اظہارِ حقیقت ہوگا،مگر جی یہی چاہے گا کہ اس فقرے کو آپ ہمارے انکسار کا اظہار سمجھیں۔جھٹ یقین نہ کر لیں۔
لیکن اگر کوئی مبصر یہ تبصرہ کر بیٹھے کہ ”ابونثرؔ نے کالم تو خیر کیا لکھاہے، بس خامہ فرسائی کی ہے“۔
تو ایسا ’روح فرسا‘ (روح کو گھسیٹنے یعنی اذیت دینے والا) تبصرہ پڑھ کر جی چاہے گا کہ مبصر صاحب ہی کو ”ناصیہ فرسا“ کر دیا جائے۔’ناصیہ فرسائی‘ کے معنی کسی مستند لغت میں دیکھ لیجے۔آج ہم نے بہت خامہ فرسائی کرلی۔ خدا حافظ۔
٭٭

Exit mobile version