باروچ اسپینوزا کا اقتباس،’’ اگر آپ چاہتے ہیں کہ حال ماضی سے مختلف ہو تو ماضی کا مطالعہ کریں‘‘ تاریخی بیداری کی اہمیت کے بارے میں ایک گہری سچائی کو سمیٹتا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ماضی کے تجربات کو سمجھنا اور ان پر غورکرنا، چاہے ذاتی، سماجی یا حتیٰ کہ عالم موجودہ میں بامعنی تبدیلیاں لانے کے لیے اہم ہے۔
تاریخ کو اکثر واقعات کے مجموعے کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو مستقبل کی رفتار کو تشکیل دیتے ہیں۔ ہم سے پہلے آنے والوں کے نمونوں، غلطیوں اور کامیابیوں کا مطالعہ کرنے سے، ہم غلطیوں کو دہرانے سے بچ سکتے ہیں اور حاصل کردہ حکمت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ماضی قیمتی اسباق فراہم کرتا ہے، جو ہمیں باخبر فیصلے کرنے اور سیاق و سباق کے گہرے احساس کے ساتھ چیلنجوں سے نمٹنے کی اجازت دیتا ہے۔ اسپینوزا کے عقلیت پسند فلسفے میں، ان اسباب کا علم جو ہماری حقیقت کو تشکیل دیتے ہیں۔
اس طرح، موجودہ دور کو تبدیل کرنے یا اس پر اثرانداز ہونے کے لیے، ہمیں ان عوامل کو پہچاننا اور ان کا تجزیہ کرنا چاہیے جنہوں نے ہمیں یہاں تک پہنچایا۔ اس تفہیم کو مربوط کرنے سے، ہم تاریخی تکرار کی جڑت کا شکار ہونے کے بجائے موجودہ کو نئے امکانات کی طرف لے جا سکتے ہیں۔
اسپینوزا کی بصیرت کو عالمی سطح پر انفرادی ترقی سے لے کر سماجی تبدیلی تک لاگو کیا جا سکتا ہے، جو اسے تاریخی مطالعے کی طاقت پر ایک لازوال عکاسی بناتا ہے۔ بچپن میں عید کا چاند سب لوگ اپنے اپنے گھرکی چھت پر چڑھ کر مل کر ڈھونڈتے تھے لیکن چاند تھا کہ اکثر مل کر ہی نہ دیتا تھا، کبھی ایک طرف سے آواز آتی تھی کہ ’’ وہ دیکھو چاند نظر آرہا ہے‘‘ سب کے سب لوگ پھر اسی سمت دیکھ کر چاند کو ڈھونڈنے لگ جاتے تھے پھر اسی دوران اچانک دوسری سمت سے آواز بلند ہوتی تھی کہ ’’ دیکھو دیکھو بادلوں کی آڑ میں چھپتا چاند نظر آرہا ہے‘‘ تو سب کے سب پھر اسی سمت اسے ڈھونڈنے نکل پڑتے تھے پھر جب رات کی سیاہی آسمان کو اپنی گرفت میں لے لیتی تھی تو سب مایوس ہوکر اپنی چھتوں سے اتر کر ریڈیو کے گرد بیٹھ جاتے تھے، ہر عید کی رات یہ ہی کچھ ہوتا تھا۔
اصل میں ہم بہت ہی دلچسپ قوم ہیں، ہماری فطرت ہی کچھ ایسی واقع ہوئی ہے کہ جب کسی نے کوئی بھی آواز بلند کی ہم سب نے باجماعت اسی سمت دیکھنا شروع کردیا، بغیر سوچے سمجھے۔ کبھی ملک میں آواز لگی کہ ’’ اگر ہمیں ذہین سیاست دان مل جائے تو ہم ترقی یافتہ ملک بن سکتے ہیں اور ہمیں درپیش تمام مسائل حل ہوسکتے ہیں‘‘ تو ہم سب نے ذہین سیاست دان ڈھونڈنا شروع کردیا، پھر آواز بلند ہوئی کہ ’’ اگر ہمیں ماہر معاشیات میسر ہوجائے تو ملک میں پیسوں کا سیلاب آجائے گا‘‘ تو پھر ہم نے ایک منٹ لگائے بغیر ماہر معاشیات کو ڈھونڈنا شروع کردیا۔ اسی دوران اچانک کہیں سے آواز آئی کہ ’’خدارا، ماہر امور خارجہ کو تلاش کرو، کیونکہ جب ہمارے دنیا بھر سے تعلقات اچھے ہوجائیں گے تو ہمارے تمام مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے‘‘ تو ہم نے ماہر امور خارجہ کی تلاش شروع کردی نتیجے میں آج دنیا بھر کے وہ تمام مسائل جو دنیا بھر میں ناپید ہوچکے ہیں، ماشاء اللہ ہمارے ملک میں دندناتے پھرتے ہیں۔
اصل میں ہم نے اپنے اصل مسئلے کی طرف کبھی نہیں سوچا اور نہ ہی کبھی دھیان دیا اور نہ ہی کبھی اس کے لیے کہیں سے کوئی آواز بلند ہوئی۔ آئیں! ہم اپنے اصل مسئلے پر بات کرتے ہیں کہ جس کی وجہ سے ہمارے تمام کے تمام مسائل پیدا ہوئے۔ یونانی فلسفے کی تاریخ و ارتقا میں تین ادوار آئے ہیں۔ چھٹی صدی قبل مسیح میں جب یونانی فلسفے کا آغاز ہوا تو ڈیڑھ سو برس یونانی ابتدائی فلسفیوں نے جس میں تھالیس، اناکسی منیڈر، ہیرا قلیطس ،انکساگورس، دیما قریطس شامل تھے نے اپنی ذہنی توانائیاں کائنات کی حقیقت معلوم کرنے میں صرف کیں۔
دوسرے دور میں خود کو Sophists کہلانے والے فلسفیوں پر وٹاگورس، تھراسی میکس، گارجیاس، پولس،کیلی کلس نے موضوع بحث و فکر کو کائنات سے انسان کی طرف موڑ دیا جبکہ تیسرے دور جس کا آغاز سقراط سے ہوا انہوں نے فکر و بحث کو نیکی بدی، بھلائی اور انصاف کے حتمی معنی کی طرف اور ’’ اچھے‘‘ انسان اور ’’اچھے‘‘ ترین نظام حکومت اور اخلاقی اوصاف کی طرف موڑ دیا اور ان سوالات سے بڑھ کر کہ ’’اچھا حکیم کون ہے، اچھا ملا ح کون ہے، اچھا بڑھئی کون ہے، اچھا کمہار کون ہے ، اچھا سنگ تراش کون ہے، اچھا نائی کون ہے اچھا منتظم کون ہے، اچھا سیاست دان کون ہے؟‘‘ کے بجائے اس سوال پر زور دینے لگے کہ ’’اچھا انسان کون ہے۔‘‘ دوسرے الفاظ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں جس انسان میں احساس فرض ، ہمدردی، ایثار، خلوص، بے لوثی، انصاف اور ذاتی مفاد پر اجتماعی مفاد کو فوقیت دینے کا جذبہ نہ ہو وہ فرد چاہے جتنا بڑا عالم، سائنس دان، ماہر اقتصادیات، ماہر امور خارجہ، منتظم، سیاست دان، ادیب، ہنرمند، فنکار ہو اپنی برادری کے لیے بیکار ہے بلکہ صفر ہے۔
روسو کہتا ہے کہ ’’ہمارے پاس اچھے سائنس دان، اچھے ڈاکٹر، اچھے ہنرمند، اچھے منتظمین تو ہیں مگر اچھے شہری اور اچھے انسان نہیں ہیں، اس لیے ہمارے پاس کچھ نہیں ہے، اگر ہم اچھے شہری اور اچھے انسان پیدا کرسکیں تو پھر ہمارے پاس سب کچھ ہوگا۔‘‘ وہ دعویٰ کرتا ہے کہ دنیا بھر کے سماجوں میں سماجی برائیاں سائنس، علم ، تجربے، ہنر اور فن کی کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ اخلاقی اوصاف کی کمی کی وجہ سے ہیں۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ اگر کوئی ریاست خوشحال، کامیاب اور ترقی یافتہ ہے تو اس ریاست میں اچھے شہریوں اور اچھے انسانوں کی اکثریت ہے اور اگر کوئی ریاست تباہ اور برباد ہے اور اس میں دنیا بھرکی تمام غلاظتیں موجود ہیں تو اس ریاست میں برے شہریوں اور برے انسانوں کی اکثریت ہے۔
ذہن میں رہے ایک اچھا شہری لازماً ایک اچھا انسان بھی ہوتا ہے اور برا شہری لازماً برا انسان ہوتا ہے۔ پوری دنیا اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ کسی بھی ریاست کا اصل مسئلہ اخلاقی ہوتا ہے، یعنی اگر کوئی ریاست اچھے شہری اور اچھے انسان پیدا کر رہی ہے تو وہ خوشحال اور کامیاب ہے، دوسری طرف اگر کوئی ریاست برے شہری اور برے انسان پیدا کر رہی ہے تو اس کا حال پاکستان جیسا ہوگا۔ اس لیے ہمیں اچھے سیاست دان، اچھے ماہر اقتصادیات ، ماہر امور خارجہ کی نہیں بلکہ اچھے انسانوں اور اچھے شہریوں کی ضرورت ہے، جب ہمیں اچھے شہری اور اچھے انسان وافر مقدار میں مہیا ہوجائیں گے تو ہمیں خود بخود اچھے سیاست دان، اچھے ماہر اقتصادیات اور ماہر امور خارجہ مل جائیں گے اور ساتھ ہی ساتھ ہمیں دنیا بھرکی غلاظتوں سے بھی نجات مل جائے گی ۔اس لیے آئیں! ہم اپنے ملک میں اچھے انسان پیدا کرنا شروع کردیں، اس کا آغاز آج ہی سے ہوجانا چاہیے۔