[ad_1]
پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے ٹیلنٹ کے قحط کو ختم کرنے کیلئے منعقد کیا جانے والا چیمپئننز ون ڈے کپ اختتامی مرحلے کے قریب پہنچ چکا، ایونٹ میں بیٹ اور بال کے درمیان دلچسپ جنگ جاری ہے، کھلاڑی نہ صرف صلاحیتوں کے اظہار کیلئے کوشاں ہیں بلکہ قومی ٹیم میں جگہ بھی آنکھوں کی چمک بڑھا رہی ہے، بظاہر یہ ٹورنامنٹ پاکستان کے اسٹار بیٹر بابراعظم کیلئے فائدہ مند ثابت ہوا، انھیں اپنے بیٹ پر موجود گرد جھاڑنے اور اعتماد بحال کرنے کا بہترین موقع میسر آیا۔
انھوں نے اپنے ابتدائی 3 میچز کے دوران ایک ناقابل شکست سنچری بھی بنائی، وہ تب بیٹنگ چارٹ پر دوسرے نمبر پر تھے، ان سے آگے موجود مارخورز کے کامران غلام نے 4 میچز میں 247 رنز بنائے، جس میں 2 سنچریاں شامل تھیں، اس دوران ان کی اوسط 61.75 رہی، بابراعظم نے 225 رنز 112.50 کی ایوریج سے اسکور کیے ، ابھی ان کی ٹیم کا ایک میچ پینتھرز کے خلاف باقی تھا، لائنز کے امام الحق 189 رنز کے ساتھ تیسرے نمبر پر تھے۔
مارخورز کے سلمان آغا نے 170 اور ساتھی کھلاڑی افتخار احمد نے 151 رنز بنائے، مارخورز کے محمد رضوان نے اگرچہ 149 رنز بنائے مگر بطور کپتان ایونٹ کے آغاز سے ٹیم کو فتح کی راہ پر گامزن رکھا، فتوحات کی ہیٹ ٹرک کے بعد آخری لیگ میچ میں مارخورز کو شاہین شاہ آفریدی کی ٹیم لائنز سے شکست ہوگئی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ابتدائی آٹھوں میچز کے دوران ٹورنامنٹ میں پہلے بیٹنگ کرنے والی ہی سائیڈ جیتی۔ پاکستان کے ریڈ بال کپتان شان مسعود کی غفلت کی نیند سوئی فارم آخری لیگ میچ سے قبل تک تو نہیں جاگ سکی تھی، انھوں نے 31.33 کی اوسط سے 3 میچز میں 94 رنز بنائے، بولرز میں اسٹالینز کے جہانداد خان، پینتھرز کے محمد حسنین اور مارخورز کے زاہد محمود نے 9، 9 وکٹیں اڑاکر اپنی صلاحیتوں کا کچھ اظہار کیا، شاہین نے اپنے ابتدائی 3 میچز میں 7 وکٹیں لیں۔
اسٹینڈنگ میں مارخورز کی ٹیم 4 میں سے 3 میچز جیت کر ٹاپ پر موجود تھی، ڈولفنز کو ٹورنامنٹ میں اپنے ابتدائی تینوں میچز میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، اس کے پلیئرز بیٹ اور بال دونوں کے ساتھ ان میچز میں غیرمعمولی پرفارم کرنے میں ناکام رہے۔ فیصل آباد کے اقبال اسٹیڈیم میں جاری اس ٹورنامنٹ کو پی سی بی کی جانب سے ڈومیسٹک کیلنڈر میں کافی اہم قرار دیا گیا، اس کا مقصد نہ صرف نئے ٹیلنٹ کو سامنے لانا بلکہ آنے والے وائٹ بالز مقابلوں کی تیاری کرنا بھی مقصود ہے، جس میں پاکستان میں فروری میں شیڈول چیمپئنز ٹرافی بھی شامل ہے۔
وائٹ بال کوچ گیری کرسٹن بھی چیمپئنز کپ کے دوران پاکستان میں ہی موجود اور کھلاڑیوں کی کارکردگی کا بغور مشاہدہ کررہے ہیں، انھوں نے اس دوران ایونٹ میں شریک تمام 5 ٹیموں کے مینٹورز اور ہیڈ کوچز سے ملاقات بھی کی، اس دوران کوچ نے واضح کیا تھا کہ پاکستان میں ٹیلنٹ موجود ہے بات صرف اسے چمکانے کی ہے، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کھلاڑی میچ جبکہ ٹیمیں سیریز اور ٹورنامنٹ جتواتی ہیں۔ گیری کرسٹن نے آئی پی ایل سے واپسی کے بعد دورئہ انگلینڈ کے دوران گرین شرٹس کو ٹی 20 سیریز میں جوائن کیا تھا، جس میں ٹیم کو شکست ہوئی، اس کے بعد ٹی 20 ورلڈکپ میں بھی وہ اپنی موجودگی اور تجربے کا واضح اظہار نہیں کرپائے، جہاں پاکستان کو امریکا جیسی ٹیم کے ہاتھوں شکست اور پہلے ہی راؤنڈ سے باہر ہونے کی شرمندگی سے دوچار ہونا پڑا۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے ریڈ اور وائٹ بال کیلئے الگ الگ غیرملکی کوچز کی تقرری کی گئی ہے، ٹیسٹ کوچ جیسن گلیسپی کی بھی موجودگی میں پاکستان کو اپنے ہی ہوم گراؤنڈ پر بنگلہ دیش کے ہاتھوں 2 ٹیسٹ میچز کی سیریز میں وائٹ واش شکست ہوچکی ہے، اب ان کی اگلی آزمائش آئندہ ماہ شیڈول انگلینڈ سے ہوم ٹیسٹ سیریز ہے، بطور کپتان اپنے پانچوں ابتدائی ٹیسٹ میچز میں شکست فاش سے دوچار ہونے والے شان مسعود کی قیادت پر غیریقینی کے بادل مزید گہرے ہورہے ہیں، ایک تو ان کی قائدانہ صلاحیتوں پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں، دوسرا ان کی بیٹنگ پرفارمنس بھی مایوس کن رہی ہے، انھیں باقی چیمپئنز کپ میچز میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ دوسری جانب کپتانی کی متوقع تبدیلی میں بظاہر محمد رضوان مضبوط امیدوار بن کر سامنے آئے ہیں، یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ پی سی بی وائٹ اور ریڈ بالز کیلئے الگ الگ کپتانوں کی پالیسی برقرار رکھتا ہے یا پھر تینوں فارمیٹس کی قیادت رضوان کو ہی سونپی جاتی ہے۔n
[ad_2]
Source link