نتین یاہو نے بین الاقوامی میڈیا کو دیے گئے انٹرویو میں کہا ہے کہ ’جو میزائل تل ابیب تک پہنچ سکتے ہیں وہ امریکا پر بھی برس سکتے ہیں‘۔
صاف ظاہر ہے کہ وہ ایران کیخلاف امریکا کو بھی جنگ میں گھسیٹنا چاہتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ جو اسرا۔ائیلی میزائل تہران، اصفہان، شیراز، یزد اور کرمان شاہان تک پہنچ سکتے ہیں وہ خاکم بدہن حرامین الشرافین پر بھی برس سکتے ہیں۔ وہ ریاض کو بھی اُجاڑ سکتے ہیں۔
یہ خدشہ نہیں بلکہ یقینی امکان ہے کہ اسرا۔ائیلی پارلیمنٹ کے پیشانی پر اعلانیہ تحریر ہے ۔۔۔ ’اے اسرا۔ئیل تیری حدیں دریا نیل سے دریائے فرات تک ہیں‘۔
کون نہیں جانتا کہ گریٹر اسرا۔ئیل کے اس مجوزہ منصوبے میں شہر رسولؐ مدینہ منورہ بھی داخل ہے۔
پھر بات یہی نہیں کہ گریٹر اسرا۔ئیل کا یہ نعرہ و نقشہ محض کسی نظری بحث تک محدود ہے، بلکہ اول اسرا۔ئیل کا جھنڈا دو متوازی نیلے خطوط اور اس کے درمیان ستارہ داؤدی (David Star) کیساتھ یہودیوں کے اس عزم کا برملا اظہار کرتا نظر آتا ہے، ۔۔۔ یعنی بالائی نیلا خط دریا نیل کو اور زیریں نیلا خط دریائے فرات کو ظاہر کرتا ہے، جب کہ ان کے دو خطوط کے درمیان ’ستارہ داؤدی‘ اسرا۔ئیل حکومت کی علامت ہے۔
دوسری جانب ہر اسرا۔ئیلی سپاہی کے بازو پر لگے بیج کیساتھ گریٹر اسرا۔ئیل کا نقشہ اس کو اپنے مقصد کی یاد دہانی کرواتا ہے۔
حیرت اس بات پر ہے کہ سرزمین فلسطین پر قبضے کے بعد توسیع پسندی کے اعلان و اظہار کے باوجود نہ صرف یورپ نے اس جانب سے آنکھیں موند رکھی ہیں بلکہ عرب حکمران بھی ریت میں سر دیے پڑے ہیں کہ:
’گری ہے جس پہ کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہو‘
بات یہ کہ اسرا۔ئیل کی جانب سے مصر و اردن کو رام اور شام و لبنان کو زیر کرنے کے بعد پاکستان کے ایٹمی اثاثوں تک پہنچنے کی راہ میں اب واحد رکاوٹ ایران ہے، اسرا۔ئیل، شام کی طرح ایران میں بھی ’رجیم چینج‘ کا کھیل کھیلتے ہوئے پاکستان کی سرحدوں پر اترنا چاہتا ہے۔
ایک جانب نیتن یاہو مکر کی ان چالوں کے ساتھ کیل کانٹے سے لیس ہے تو دوسری جانب یہ فرمان باری مسلمانوں کا حوصلہ بڑھا رہا ہے:
وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّهُ ۖ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ ﴿آل عمران:54﴾
ترجمہ: اور کافروں نے مکر کیا اور اللہ نے ان کے ہلاک کی خفیہ تدبیر فرمائی اور اللہ سب سے بہتر چھپی تدبیر والا ہے۔
اب کچھ ذکر ڈونلڈ ٹرمپ کا، کہ وہ اس بیگانی شادی میں دھمال ڈالنے کو بیتاب ہیں۔ امریکی صدر روز اول سے تضاد بیانی کی تصویر بنے ہوئے ہیں، ان سے کوئی سوال پوچھنے والا نہیں کہ وہ کس بُوتے پر تہران خالی کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں؟ وہ کیوں شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کر رہے ہیں؟ محض اس لیے کہ ’سارا مسئلہ معاشیات کا ہے‘؟ یا پھر (اقبال سے معذرت کیساتھ):
’ٹرمپ‘ کی رگِ جاں پنجہ یہود میں ہے؟
بہرحال مسئلہ اس وقت ایران کا نہیں بلکہ پوری امت کا، اگر آج ایران کے ساتھ نہیں کھڑے ہوئے تو کل پاکستان براہ راست اسرا۔ئیل اور انڈیا کے درمیان گِھرا ہوگا، سو ایسے میں رنگ و نسل اور فرقہ کے تنگ دائروں سے بلند ہو کر ایک امت کے تصور کیساتھ ایران کا ساتھ دینا ہوگا بصورت دیگر:
جو کرے گا امتیازِ رنگ و خُوں، مِٹ جائے گا
تُرکِ خرگاہی ہو یا اعرابیِ والا گُہر
نسل اگر مسلم کی مذہب پر مُقّدم ہوگئی
اُڑ گیا دُنیا سے تُو مانندِ خاکِ رہ گزر
۔۔۔۔۔۔ (علامہ اقبال) ۔۔۔۔۔۔