
چوری فون کی برآمدگی کو لے کر پولیس کتنا بھی اپنی پیٹھ تھپتھپائے، بہت کم لوگ ہی ہوں گے جنھیں آسانی سے ان کا فون حاصل ہو سکا ہو۔
دہلی پولیس، علامتی تصویر آئی اے این ایس
دہلی پولیس، علامتی تصویر آئی اے این ایس
دہلی پولیس نے گزشتہ دنوں چوری ہوئے یا گم ہونے والے موبائل فون برآمد کرنے کے اعداد و شمار پیش کر کے اپنی پیٹھ تھپتھپائی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ 2024 میں دہلی سے جو 4743 فون جو چوری ہوئے، چھین لیے گئے یا گم ہو گئے تھے، ان میں سے 1572 کو برآمد کرنے میں کامیابی حاصل کر لی گئی ہے۔ یعنی دہلی پولیس ایسے تقریباً 33 فیصد فون برآمد کرنے میں کامیاب رہی ہے۔
دہلی پولیس خود کو عالمی سطح کا مانتی ہے۔ اس لیے اس معاملے میں اس نے اپنے مقابلے میں کسی دوسری ریاست کے اعداد و شمار دینے کی جگہ دوسرے ممالک کے اعداد و شمار پیش کیے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ لندن میں تو صرف ایسے 2 فیصد فون ہی برآمد ہو پاتے ہیں۔ امریکہ بھی پیچھے ہے کیونکہ وہاں یہ کامیابی 32 فیصد ہے۔ بس ایک نیویارک ہی ہے جو 40 فیصد نمبر کے ساتھ کچھ آگے ہے۔
ان اعداد و شمار پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ دہلی میں جن کے فون چوری ہوئے، ان میں سے 33 فیصد ایسے خوش قسمت تھے جن کے فون برآمد ہو گئے۔ حالانکہ میرا ذاتی تجربہ کچھ الگ ہی کہانی کہتا ہے۔ جن کے فون برآمد ہوئے، ان میں سے بہت سے لوگ شاید ان سے زیادہ بدقسمت ہو سکتے ہیں جن کے فون برآمد نہیں ہوئے۔ آپ سوال کریں گے کہ ایسا کیسے؟ اس کے لیے مجھے واقعہ بیان کرنا ہوگا۔
یہ 31 اگست 2014 کی دوپہر تھی جب پرگتی میدان میں چل رہے ’دہلی بک فیئر‘ کی بھیڑ میں کسی نے میری جیب سے میرا موبائل فون نکال لیا۔ یہ فون تھا اینڈرائیڈ پر چلنے والا ایل جی ایل 9۔ اس کی رپورٹ لکھانے جب میں تلک مارگ تھانے پہنچا تو وہاں 3 لوگ پہلے سے موجود تھے، جن کا فون اسی کتاب میلہ میں چوری ہوا تھا۔ وہاں ایک سَب انسپکٹر سمجھا رہا تھا کہ فون چوری کی ایف آئی آر کرانے کی جگہ اس کے گم ہونے کی عرضی دیں تو فائدے میں رہیں گے۔ اگر فون ملا تو تھانے سے ہی مل جائے گا، ورنہ عدالت سے لینا پڑے گا۔ میں نے جب ضد کی تو میری ایف آئی آر درج ہو گئی۔ مسائل بھی یہیں سے شروع ہوئے۔ اگلے دن سے تھانے سے فون آنے شروع ہو گئے۔ فون کب، کیسے، کہاں میری جیب سے نکالا گیا… ایسی بہت سی جانکاری لی گئی۔ فون خریدنے کے ثبوت سے لے کر میرے آدھار کارڈ، پین کارڈ سب کی عکسی کاپی بھی لی گئی۔ پھر کئی دن تک اس کے آگے کچھ نہیں ہوا۔ کوئی فون نہیں آیا تو لگا کہ معاملہ ختم ہو گیا ہے۔ تب تک میں اپنے نئے فون کے ساتھ خوش ہونے اور اسی میں دل لگانے کی کوشش کرنے لگا تھا۔
ایک سال بعد اچانک ایک دن پتہ لگا کہ وہ فون برآمد ہو گیا ہے۔ کچھ ہی دن میں پٹیالہ ہاؤس کورٹ میں بیٹھنے والے میٹروپولیٹن مجسٹریٹ نے اس کا ریلیز آرڈر بھی 19 اگست 2015 کو پاس کر دیا۔ یعنی اصولی طور سے میں اسے تلک مارگ تھانے کے مال خانہ سے جا کر لے سکتا تھا۔ لیکن ہماری عدالتوں میں چیزیں کبھی اتنی آسان نہیں ہوتی۔ فون لینے کے لیے مجسٹریٹ کے حکم کی کاپی چاہیے تھی۔ اس حکم کو حاصل کرنے کے لیے اسٹامپ پیپر پر ایک عرضی دینی تھی۔ حکم کی کاپی ملی تو وہ شرطیں پتہ چلیں جن پر فون مجھے ملنا تھا۔ عدالتی زبان میں کہیں تو وہ فون مجھے واپس نہیں مل رہا تھا، بلکہ مجھے سپرداری میں دیا جا رہا تھا۔ اور اس کے لیے مجھے سب سے پہلے تو 10 ہزار روپے کا ایک بانڈ بھرنا تھا۔ پھر مجھے سونپے جانے کی فوٹوگرافی اور ویڈیوگرافی ہونی تھی جس کا خرچ بھی مجھے ہی اٹھانا تھا۔
اس سپردگی سے پہلے ایک پنچ نامہ تیار ہونا تھا جس میں مال خانہ سے باہر آئے فون کی مکمل تفصیل لکھی جاتی۔ اس کا رنگ، اس کا ماڈل، اس کی حالت وغیرہ۔ میرے علاوے سارے کاغذات پر میرے علاوہ اس شخص کے بھی دستخط ہونے تھے جس کے پاس وہ فون برآمد ہوا۔ اس سب سے بھی بڑی ایک شرط یہ تھی کہ ہر تاریخ کو مجھے یہ فون لے کر عدالت پہنچنا تھا کیونکہ فی الحال میں اس فون کا مالک نہیں تھا، بلکہ وہ عدالت کی ملکیت تھا اور صرف وہ میرے پاس موجود تھا۔ اتنی شرطیں پڑھنے کے بعد میں نے طے کیا کہ ان شرائط پر فون لینے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ میں بغیر مال خانہ گئے ہی ایک پورا دن برباد کر کے لوٹ آیا۔
بہرحال، مقدمہ شروع ہو چکا تھا اور میرے گھر پر سمن پہنچنے شروع ہو گئے۔ اسی کے ساتھ وہ سلسلہ بھی چل پڑا جسے کہا جاتا ہے ’تاریخ در تاریخ‘۔ ہر کچھ وقت بعد سماعت۔ اس درمیان یہ معاملہ ایک دوسرے جج کے حوالے کر دیا گیا۔ ابھی تک میں پٹیالہ ہاؤس کے کمرہ نمبر 21 میں جا رہا تھا۔ اب میں کمرہ نمبر 7 میں جانے لگا۔ ایسی ہی ایک تاریخ کو میں نے جج سے گزارش کی کہ اب بہت ہو گیا، معاملے کو ختم کر دیجیے۔ انھیں بھی لگا کہ اب بہت ہو گیا۔ انھوں نے کہا کہ اگلی تاریخ کو معاملہ ختم ہو جائے گا۔ لیکن اگلی بار جج عدالت میں نہیں آئے، یعنی ایک اور تاریخ مل گئی۔ پھر ایک بار دوسرا فریق وہاں نہیں تھا۔ مجھے سمجھ میں اایا کہ ایسے معاملے میں غیر حاضر رہنا کوئی بڑا گناہ نہیں ہے، اس لیے چند ایک بار میں بھی نہیں گیا۔
28 نومبر 2023 کی تاریخ کا سمن جب میرے پاس آیا تو اس معاملے کو 9 سال سے زیادہ گزر چکے تھے۔ اتفاق سے اس دن عدالت میں جج بھی موجود تھے، میں بھی اور دوسرا فریق بھی، جس کے پاس فون برآمد ہوا تھا۔ دونوں فریقین کے اتفاق سے جج نے معاملہ کو وہیں اسی وقت ختم کر دیا۔ اس دہشت ناک آلودگی والی دوپہر جب پٹیالہ ہاؤس کی عمارت سے باہر نکلا تو میں بہت راحت محسوس کر رہا تھا۔ سر سے ایک بوجھ اتر گیا تھا۔ اب میں ہر تاریخ پر عدالت میں حاضر ہونے کی سزا سے آزاد تھا۔ میں چاہتا تو تھوڑی سی کوشش کر کے مزید کچھ رسموں کے بعد وہ فون مال خانہ سے حاصل کر سکتا تھا۔ لیکن 2012 کا وہ ’اولڈ ورژن‘ فون اب میرے لیے کسی کام کا نہیں تھا۔ اس لیے میں نے اسے حاصل کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔
ظاہر ہے، دہلی پولیس نے چوری ہوئے موبائل فون برآمد کرنے کے پچھلے کچھ سال کے جو اعداد و شمار دیے ہیں، وہ ادھورے ہیں۔ اس سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ ان میں سے کتنے فون ان کے مالکان کے پاس واپس پہنچے، اور کتنے پولیس کے مال خانہ کی کال کوٹھری میں ہمیشہ کے لیے دفن ہو گئے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔