[ad_1]
پشاور: نیزہ بازی کے قومی ہیرو ارشد ندیم نے کہا ہے کہ میں کرکٹ کا کھلاڑی تھا مگر ایتھلیٹکس میں آگیا، ورلڈ اولمپکس سے قبل انجری نے پریشان کیا، آپریشن کرایا، دوسری تھرو پر ہی گولڈ میڈل جیتنے کا یقین ہوگیا تھا۔
یہ بات انہوں ںے گورنر ہاؤس پشاور میں جشن آزادی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ ارشد ندیم نے کہا کہ قوم کو یوم آزادی پاکستان مبارک ہو، اپنی فتح پر قوم، والدین کا مشکور ہوں جن کی دعاؤں سے پاکستان کے لیے گولڈ میڈل حاصل کیا۔
قومی ہیرو کا کہنا تھا کہ میں کرکٹ کا کھلاڑی تھا مگر اس کے بعد ایتھلیٹکس میں آگیا، اسپورٹس مین کا آغاز نوکری سے ہوتا ہے، جب واپڈا نے نوکری دی تو محںت شروع کی، 2016ء میں بھارت میں ایوارڈ جیتا اور اولمپکس کے لیے محنت شروع کی، 2016ء 2020ء بہت سے میڈلز جیتے، ٹوکیو اولمپکس کے لیے محنت کی تاہم وہاں انجریز کے سبب پانچویں نمبر پر آیا اس کے بعد مزید محنت کی اور جتنی کامیابیاں حاصل کیں وہ بڑی ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ کامن ویلتھ گیمز کے لیے محنت کی اور ورلڈ ایتھلیٹکس میں پانچویں نمبر پر آیا، اسی طرح ورلڈ اسلامک گیمز میں بھی میڈل جیتا، ورلڈ ایتھلیٹکس چیمپئن شپ میں حصہ لیا جہاں سلور میڈل جیتا، ورلڈ اولمپکس سے قبل انجری نے پریشان کیا، آپریشن کرایا اس کے بعد اولمپکس کے گولڈ میڈل کا یقین تھا۔
انہوں نے کہا کہ میری وارم اپ تھرو اچھی تھی یقین تھا کہ 90 میٹر سے زیادہ نیزہ پھینکنے کا ٹارگٹ حاصل کروں گا اور دوسری تھرو پر ہی گولڈ میڈل جیتنے کا یقین ہوگیا تھا، آنری تھرو بھی 91 پلس پھینکی تھی یہ سب میرے کوچز کی محنت کا نتیجہ تھا، قوم دعا کرے تو آگے بھی گولڈ میڈل جیت کر دکھاؤں گا اور ورلڈ ایتھلیٹکس چیمپئن شپ میں ورلڈ ریکارڈ بریک کروں گا۔
[ad_2]
Source link