کراچی: وفاقی ٹیکس محتسب ڈاکٹر آصف محمود جاہ نے ٹیکس دہندگان کی شکایات پر فوری کاروائی کا اعلان کرتے ہوئے 4 سے 6 ہفتوں میں انصاف فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ ایف ٹی او آفس کے پاس ایف بی آر کی بدانتظامی اور بدعنونی کے خلاف کارروائی کا اختیار ہے اور ہم یہ یقینی بناتے ہیں کہ ایف بی آر ہمارے فیصلوں پر حقیقی روح کے ساتھ عمل درآمد کرے۔
یہ بات انہوں نے سائٹ ایسوسی ایشن آف انڈسٹری کراچی کے دورے کے موقع پر منعقدہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔
انہوں نے کہا کہ ایف ٹی او کو شکایات کے اندراج پر ایف بی آر کی طرف سے ایف ٹی او آفس بھی نگرانی کرتا ہے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ ٹیکس دہندگان کو اس طرح کا کوئی ردعمل نہ ہو اس کا نوٹیفکیشن پہلے ہی جاری کر دیا گیا ہے۔ایف ٹی او آفس کو گزشتہ سال 8 ہزار سے زائد شکایات موصول ہوئیں جن میں سے90 فیصد کو حل کیا گیا۔ ایف ٹی او آفس کی کوششوں سے ایف بی آر کی جانب سے ٹیکس دہندگان کو 17.8 ارب کے ریفنڈز ادا کیے گئے۔ صدر مملکت نے ایف ٹی او کے 590 میں سے 510 فیصلوں کی توثیق کی۔انہوں نے ممبران کو مطلع کیا کہ ایف ٹی او کی طرف سے ایس آر او 350 سے متعلق مسائل پر پہلے ہی کارروائی کی جا چکی ہے۔ ہم کسٹم ڈیوٹی کی ادائیگی کی وجہ سے بندرگاہوں پر جمع ہونے والے سامان پر بھی ایکشن لے رہے ہیں۔
اس موقع پر وفاقی ٹیکس محتسب نے سائٹ ایسوسی ایشن آف انڈسٹری سے ایک ایڈوائزر نامزد کرنے کا بھی اعلان کیا۔
قبل ازیں صدر سائٹ ایسوسی ایشن محمد کامران عربی نے کہا کہ اختیارات کے غلط استعمال کی وجہ سے ٹیکس دہندگان اور ٹیکس حکام کے درمیان اعتماد کا فقدان ہے۔ ایس ایم ایز ٹیکس گوشواروں اور تعمیل کے معاملات کے لیے زیادہ تنخواہ دار عملے کو ملازمت دینے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
چیف کوآرڈینیٹر سلیم پاریکھ نے وفاقی ٹیکس محتسب سے درخواست کی کہ وہ اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے بھاری رقم کے نوٹس جاری کرنے والے افسران کے خلاف کارروائی کریں۔ ایسے نوٹس جاری ہونے کے بعد معاملہ کرپشن پر ختم ہوتا ہے۔
سابق صدر جاوید بلوانی کا کہنا تھا کہ 90 فیصد شکایات کا فیصلہ ٹیکس دہندگان کے حق میں کیا گیاجو ایف بی آر کی بدنیتی کا واضح ثبوت ہے۔
انہوں نے ریفنڈز کی مینوئل پراسیسنگ کو مکمل طور پر ختم کرنے کی ضرورت پر زور دیا کیونکہ ایف بی آر کے پاس تمام ڈیٹا اور ریکارڈ الیکٹرانک طور پر دستیاب ہے جس سے انسانی مداخلت کو کم کرکے ہی غلط طریقوں پر قابو پایا جاسکتا ہے۔چونکہ ایف بی آر کے پاس ریئل ٹائم آڈٹ کا نظام ہے اس لیے آڈٹ کی ضرورت بھی نہیں ہونی چاہیے۔
سابق صدر طارق یوسف نے کہا کہ لگتا ہے حکومت ملک میں صنعتکاری کی مسلسل نفی کر رہی ہے۔
انہوں نے ایف ٹی او سے درخواست کی کہ وہ برے قوانین کو جوابدہ بنائے اور جو اختیارات کا غلط استعمال کرنے والوں کو پہلے جوابدہ بنایا جائے جو ہمارے نظام کو ہر سطح پر بہترکرے گا۔
ٹیکسیشن سب کمیٹی کے چیئرمین ریاض الدین نے سیلز ٹیکس ریفنڈز سے متعلق مسائل نشاندہی کی کہ ایف بی آر حکام 45 دن کی دی گئی ٹائم لائن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جان بوجھ کر تاخیر کے مرتکب ہیں۔
انہوں نے انکم ٹیکس آرڈیننس اور سیلز ٹیکس ایکٹ کی مختلف شقوں کا حوالہ دیتے ہوئے مختلف مسائل اجاگر کیے جو ٹیکس دہندگان کے لیے مسائل پیدا کرتے ہیں اور بالآخر ریفنڈز میں رکاوٹ کا باعث بنتے ہیں۔
انہوں نے تجویز پیش کی کہ ایف ٹی او بد انتظامی پر کارروائی کرتے ہوئے خراب شہرت والے ٹیکس دفاتر کا اچانک معائنے کا شیڈول بنائے۔صنعتی ٹیکس دہندگان کے لیے ایف ٹی او امید کی واحد کرن ہے جو ایف بی آر میں بدانتظامی پر قابو پا سکتا ہے۔