[ad_1]
ویب ڈیسک: میر حیدر الدین ابوتُراب کامل ایک گوشہ نشین بزرگ تھے جنھوں نے اپنے تین دیوان سندھی، اردو اور فارسی میں یادگار چھوڑے۔ اُن کے شاگرد میر علی شیر قانع کے بیان کے مطابق کاملؔ نے اپنے کلام کے دس ضخیم مسودے تیار کرکے ایک اورشاگرد میاں محمد پناہ رِجاؔ ٹھٹوی کو برائے تدوین دیے تھے۔
یہ کلہوڑا دورکی بات ہے جب ٹھٹہ پر ہنوز مغل صوبے دار ہی حاکم تھے اور اُردو کے شعراء وقتاً فوقتاً سندھ تشریف لاتے تھے جن سے ملاقاتوں کے نتیجے میں سندھ کے فارسی گوشعراء نے اُردو میں بھی شعرکہنے شروع کیے۔انہی میں میر کاملؔ بھی شامل تھے۔قانع کے الفاظ میں کاملؔ اُس دور کے بے مثل ایہام گو شعراء میں شامل تھے۔انھوں نے غزل، منقبت اور کبت و دوہرہ جیسی اصناف ِ سخن میں بہت اعلیٰ کلام پیش کیا۔نمونہ کلام ملاحظہ فرمائیں:
ےُو جلا کھیل میں ےُو جاتا ہوں (ےُو: یوں۔س اص)
شمع رُو کا پتنگ اُڑانا کیا
یہاں بہت ہی باریک سا نکتہ ہے۔شمع رُو سے معلوم ہواکہ شاعر نے محبوب کو شمع کی طرح روشن کہا اور پھر اُس کا پتنگ اُڑانا یعنی گویا پتنگے اُڑانا ایک عجیب اور ناقابل ِ فہم قسم کا تماشا قراردے۔یہ قدیم اردو کے ایہام گوئی کے اثرات کا ایک نمونہ ہے۔
میر کامل کے مزید اشعار دیکھیے:
عشق اب ڈ ول ہے زُلیخا کا
اس سوں آگے ہے چاہ میں یوسف
(سوں: سے۔ س ا ص)چاہ بہ یک وقت بمعنی چاہت اور کنواں استعمال کیا ہے۔اب ایسی فن کاری کہاں سے لائیں گے؟
لبوں دلبر کے میرے قتل پر بِیڑا اُٹھایا ہے
خدایا خون سوں میر ے تو اِ س کوں سرخرو کرنا
(کوں: کو۔س ا ص)یہ شعر بھی اسی کلاسیکی روایت کا حصہ ہے جب محبوب کے ہرناز نخرے اور جلوے کا ایسا بیان ہوتا تھا کہ سامع اُس کی دید کا مشتاق ہوجائے۔
عشق کی آگ جگمگاتی ہے
یہ دیا تیل،بات پاتی ہے
یہاں بھی ایہام گوئی داد طلب ہے۔بات سے مراد باتوں کے علاوہ بتّی ہے اور پاتی سے مراد پتّی بھی معلوم ہوتی ہے۔
میر اسد اللہ ساقیؔان کے متعلق کہاگیا ہے کہ یہ اپنے وقت کے عظیم شاعر اور عالم تھے، فارسی کے ساتھ ساتھ کبھی کبھی اردومیں شعر کہاکرتے تھے۔میر علی شیر قانع کے شناسا تھے۔انھوں نے ساقیؔ کی شان میں یہ سجع تصنیف کی: مست گردم زِبادہ ئ کوثر+اسداللہ ساقیم باشیم۔ساقیؔ کا نمونہ کلام پیش کرتا ہوں:
کرو دو نین نم ہردَم، رکھو دل میں الم ہردَم
کہے ساقیؔ زِغم ہر دَم کرو زاری مسلمانان
یہ کلام واضح طور پر وہی ریختہ ہے جس کا سبب فارسی سے گہرا لگاؤ بھی ہے۔
(آگے بڑھنے سے قبل ایک گزشتہ تذکرے کی بابت کچھ عرض کروں۔کہاجاتا ہے کہ مؤرخ میر معصوم بکھری کے بھائی میرفاضل بکھری پہلے ’معلوم‘ سندھی شاعر تھے جنھوں نے اردومیں شعر کہے اور یہ دسویں صدی ہجری یعنی سولھویں صدی عیسوی کی بات ہے، مگر اُن کا نمونہ کلام نہیں ملتا (’سندھ میں اردو‘اَزڈاکٹر شاہدہ بیگم بحوالہ ذخیرۃ الخوانین و شعرائے سکھر‘)۔کہاجاتا ہے کہ وہ اس زبان میں کافی کہنے پر عبور رکھتے تھے۔
شاہ لطیفؔ کے جدّ اعلیٰ شاہ عبدالکریم بُلڑی والے کا یہ شعر اُن کی اردوشاعری کا نمونہ کہلاتا ہے:
اے سجنا! گانٹھ پریم کی جو پڑی کسی پر
یہ کھولے کُھلی نہیں، سب جگ رہا ایدھر
(’سندھ میں اردو‘اَز ڈاکٹرشاہدہ بیگم))
میراسداللہ ساقیؔ کے بعد مسکین ولد عبدالحکیم عطائی اور میرشاہ ولی شکر الٰہی اہم اردو شاعر ہوگزرے ہیں۔ان کے بعد ہمیں میر علی شیر قانع کا نام سب سے نمایاں نظرآتا ہے۔ایک طویل فہرست بوجوہ نظر اَنداز کرتے ہوئے بہت ناگزیر محسوس ہوتا ہے کہ حافظ عبدالوہاب عُرف سچے ڈِنہ یعنی سچل سرمستؔ کا ذکر ِخیرکیا جائے۔اٹھارویں صدی کا یہ شاعرِ ہفت زبان اردو کو ایسا منفرد کلام دے گیا:
میری آنکھوں نے اے دلبر! عجب اَسراردیکھا تھا
میانِ اَبر اُس خورشید کا اَنوار دیکھا تھا
یہاں راقم یہ نکتہ واضح کرنا چاہتا ہے کہ اُس کا موضوع سندھی زبان کا ارتقاء نہیں، اس لیے اس بابت تفاصیل سے قصداً گریز کیا۔اسی طرح پیچیدہ لسانی مباحث اور ماہرین کی آراء اور اختلافات کا نقل کرنا بھی عام قارئین کے لیے ہرگز دل چسپی کا باعث نہ ہوتا، لہٰذا خاکسارنے اس سے بھی اجتناب کیا۔یہ ساری تفصیل مختلف کتب میں محفوظ ہیں اور اِن میں اکثر انٹرنیٹ پربھی دستیاب ہیں۔
اردو اور سندھی کو قریب لانے میں قدیم دورکے شعراء کا حصہ تو اَب تاریخ کا حصہ بن چکا، لیکن تقسیمِ ہند اور آزادی کے بعد جب بڑے پیمانے پر ہجرت ہوئی تو ہمارے پُرکھو ں نے اپنے خوابوں کی سرزمین پر قدم رکھتے ہی مقامی مہمان نواز اہل ِ ادب کے تعاون سے اردو۔سندھی مشترک مشاعروں اور اَدبی محافل بشمول اردو سندھی کانفرنس کا انعقاد شروع کیا جس میں اُس وقت کے تقریباً تمام نمایاں اور اکثر بڑے شعرائے کرام نے سرگرمی دِکھائی۔
ہمیں آزادؔ انصاری، خمارؔ انصاری، خالدؔ علیگ، ارتضا ء عزمی، آفاق صدیقی، حمایت علی شاعرؔ، محسن بھوپالی، عبدالصمد سازؔ،علامہ رَزی جے پوری، الیاس عشقی،منظر ؔایوبی، بابو رَفیق ریواڑوی، قابلؔ اجمیری اور قاصد عزیز سمیت متعدد مشاہیر کی ایک طویل فہرست ملتی ہے جبکہ سندھی شعراء میں سب سے بڑا نام شیخ ایاز کا تھا۔ایک تاریخی انکشاف بھی کرتاچلوں کہ ہمارے بزرگ معاصرین محسن بھوپالی اور حمایت علی شاعرؔ کے ہم عصر، معروف شاعر جناب قابل اجمیری اپنے ابتدائی دورہی میں اس قدر مقبول ہوگئے تھے کہ اُنھیں 1954ء میں حکومت ِ سندھ نے ’شاعرِ سندھ‘ کا خطاب دے دیا تھا اور کئی ہزارروپے سالانہ وظیفہ بھی مقررکیا تھا جو بہرحال فقط اعلان ہی کی حدتک محدودرہا۔(’احوال ِ واقعی‘ از پروفیسر مرزا سلیم بیگ۔مکتبہ نئی قدریں، حیدرآباد، سندھ: 1994ء۔ ص 138: ہدیہ حمایت مرحوم)
”پاکستان آتے ہوئے جب مَیں نے سندھ کی سرحد پر قدم رکھا تو میرے دل میں دو آرزوئیں تھیں، حیدرآباد کو دیکھوں اور شیخ ایاز سے ملوں“۔ یہ مدح سراتھے ہمارے بزرگ معاصر حمایت علی شاعر ؔ۔شیخ ایاز نے سندھی کی بجائے اپنا اوّلین مجموعہ کلام اردومیں ’بوئے گل، نالہ دل‘ 1954ء میں شایع کیا۔وقت نے کروٹ لی اور وہ قوم پرست ہوگئے تو اُردوکو ”طوائفوں کی زبان“ قراردیا جس پر اُن کے دوست آفاق صدیقی نے تاریخی تناظر اور موصوف کی اردوسے اُن کی دیرینہ وابستگی کا ذکرکرکے شرمندہ کیا۔(گِلڈ کہانی۔آفاق صدیقی کی زبانی ازارتضیٰ حسین گوہر)۔
نہایت دُکھ کی بات ہے کہ اسی حرکت کا اِرتکاب پیر علی محمد راشدی نے 1960ء کی دہائی میں استادگرامی مفتی محمد اطہرنعیمی رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے کیا۔(ایسے دیگر ناموں میں امرجلیل، فخر زمان، اکبر بُگٹی اور اَحمد فراز شامل ہیں۔سیاسی اختلافات کو ملک وملت کے خلاف پرچار سے جوڑ کر لسانی تعصب کی آگ بھڑکائی گئی اور ہمارے بزرگوں کی صدیوں کی محنت پر یوں پانی پھیردیا گیا جیسے اس صوبے میں اردو اور اردو والے ابھی کل ہی گھُس بیٹھے ہوں اور سندھی زبان وقوم کا حق ماررہے ہوں۔یہ نہ ہوتاتو ہمارے بیچ لسانی اشترا ک کا سلسلہ پہلے سے زیادہ قوی ہوتا)
تاریخی انکشاف: اردومیں طبع زاد ہائیکو شاعری کے بانی سندھی ہیں
ہرچند کہ یہ انکشاف ماقبل بھی اپنی تحریروتقریربشمول انٹرویو میں کرچکاہوں، مگر موضوع کی مناسبت سے دُہرانا ضروری سمجھتاہوں کہ اردومیں ہائیکو کے (انگریزی سے)تراجم کا سلسلہ دراز ہوا تو 1963ء میں محسن بھوپالی نے سندھی سے اردو ہائیکو ترجمہ کرکے اس جہت میں پیش رفت کی، مگر طبع زاد اُردوہائیکو کا معاملہ ابھی باقی تھا۔بقول پروفیسر آفاق صدیقی، 1970ء میں لبِ مہران (سکھر، سندھ) پر تین دوستوں کی گپ شپ اور پلّا مچھلی کے لیے سجائی گئی بیٹھک میں اثنائے گفتگو جب یہ بات ہوئی کہ اردومیں ہائیکو کہی جائے تو یکے بعددیگرے تینوں نے ہائیکو کہہ دیں۔
پہلے دوست ڈاکٹر تنویرعباسی نے دو، دوسرے دوست شیخ ایاز نے دو اور تیسرے دوست یعنی خود آفاق صاحب نے فقط ایک ہائیکو کہی۔ڈاکٹر تنویرعباسی کو پاکستان میں سندھی ہائیکو کے سَرخیل کا درجہ حاصل ہوا، البتہ اُن سے بہت پہلے ہندوستان میں ایک ہندوسندھی شاعر نرائن شام کو اوّلیت کا شرف مل چکا تھا۔خاکسارکویہ شرف حاصل ہواکہ اس انکشاف پر مبنی آفاق صدیقی کی تحریر اپنے کثیر لسانی ادبی جریدے ہائیکو انٹرنیشنل میں شایع کی۔مجھے یہ اعزاز حاصل ہواکہ تنویر کی قدرے مشکل سندھی میں کہی گئی ہائیکو کا اُردومیں منظوم ترجمہ کرکے شایع کیا،ماقبل مولابخش چانڈیو جیسے غیر معروف شاعر کی سندھی ہائیکو اُردومیں منتقل کرچکا تھا۔
ہائیکو اِنٹرنیشنل اور اُس کے بانی مدیرسہیل کا اردو اور سندھی کے ارتباط میں کردار
خاکسار اپنے اسکول کے زمانے میں سندھی کا اچھا طالب علم رہا۔اس کی تفصیل شاید یہاں غیرمتعلق معلوم ہو۔بہرحال مجھے یہ شرف بھی حاصل ہوا کہ ایک بہت بڑے نجی تعلیمی ادارے میں سندھی کی ایک معلمہ کی مدد کے لیے ایک جماعت کے فریق [Section]کو اَزخود پیشکش کرکے سندھی پڑھائی۔مجھے دسویں جماعت میں مطالعہ پاکستان کے ساتھ ساتھ،سندھی پڑھانے والے نہایت عالم فاضل استاد محترم رئیس احمد خان بحمداللہ بقید ِحیات ہیں۔اس سارے پس منظر کے ساتھ عرض کرتاہوں کہ جب راقم نے 1998ء میں کثیرلسانی ادبی جریدے ہائیکو انٹرنیشنل [Haiku International]جاری کیا تو اُس میں تین زبانو ں اردو،انگریزی اور سندھی کے حصے مستقل تھے،پھر جاپانی حصہ شامل ہوا اور دیگر زبانیں بھی وقتاً فوقتاً۔یوں میں نے پچیس زبانوں میں مواد شایع کرکے عالمی ریکارڈ قائم کیا۔
ہائیکو انٹرنیشنل کی اردو۔سندھی ربط کے سلسلے میں اوپر کچھ عرض کرچکاہوں۔مزید ملاحظہ فرمائیں:
ا)۔اس جریدے نے ماہر مترجم،سندھی اور اردو کے شاعر، پاکستان ٹیلیوژن کے سابق ملازم تاج بلوچ صاحب سے اردو کے مشہور شاعر اِقبال حیدر اور پروفیسر محمد رئیس علوی کی ہائیکو کا منظوم سندھی ترجمہ کرواکے شایع کیا،(میں نے اپنی زندگی میں تاج بلوچ سے زیادہ سریع، مانندِ طبع زاد اور بھرپور ترجمہ کرنے والا نہیں دیکھا جو سگریٹ کے کش لگاکر، چُٹکیاں بجاتے ہوئے ایسی مہارت دِکھاتا تھا کہ سامنے بیٹھا ہوا آدمی حیران پریشان ہوجائے)،اقبال حیدر کے کلام کے شمشیر الحیدری اور سائلؔ آزاد کے کیے ہوئے منظو م تراجم،ہندوستانی شاعر واسن آسوانی مجبورؔکا کلام مع منظوم ترجمہ از قلم حیدرجعفری سید، تاج بلوچ کا سندھی مضمون، چند دیگر سندھی شعراء کا کلام اور تراجم شایع کیے۔شہناز نورؔ کا کیا ہوا کلام ِشاہ لطیف کا اردوہائیکو میں ترجمہ بھی شایع کیا۔
ب)۔محسن بھوپالی مرحوم سے اُن کی سندھی میں کہی گئی ہائیکو (اُنہی کے عکس ِتحریرمیں) اور تاج بلوچ کے سندھی ماہنامہ سوجھرو میں شامل، محسن صاحب کا مضمون ”تنویر(ڈاکٹر تنویرعباسی) کی یاد میں کچھ سطریں“ خاکسار نے خوداردومیں ترجمہ کرکے ہائیکو انٹرنیشنل میں شایع کیا۔
خاکسارنے کِیرت بابانڑی سے متعلق نہایت مشکل تحریر کا اردوترجمہ اور زیب سندھی کی کتاب ’جپسی۔یورپ جا خانہ بدوش سندھی‘ پر مضمون بزبان انگریزی بھی تحریر کیا تھا۔
شاہ جو رِسالو کا منظوم ترجمہ کس کا کارنامہ؟
قارئین کرام یقینا چونک گئے ہوں گے۔یہ انکشاف بھی راقم نے اپنے ایک انٹرویومیں کچھ سال پہلے کردیا تھا۔مشہور تویہی ہے کہ شاہ عبداللطیف بھٹائی کے کلام ’شاہ جو رسالو‘ کا منظوم اردوترجمہ شیخ ایاز نے کیا، مگر یہ جھوٹ ہے۔اصل میں یہ کام بھی آفاق صدیقی کا ہے جو بوجوہ شیخ ایاز سے منسوب کرکے مشتہرکیا گیا۔
آفاق صاحب نے یہ بات نہ صرف اپنے حلقہ بگوش اہل قلم کو بارہا بتائی، بلکہ اپنی کتاب میں بھی لکھ گئے: ”سندھی زبان سیکھنے اور سندھی اہل قلم سے رابطہ رکھنے کا یہ فائدہ ہوا کہ 1948ء سے تراجم اور سندھی زبان وادب کے بارے میں میرے مضامین شایع ہوتے رہے۔اس بات کو اب سبھی دوست تسلیم کرتے ہیں کہ قیام پاکستان کے بعد سندھی سے اردوتراجم کا سب سے زیادہ کام راقم حروف نے کیا ہے۔(ص 48-49)۔
جیسا کہ پہلے بتاچکاہوں کہ سندھی ادب سے میری دل چسپی کا آغاز 1947ء میں ہوگیا تھا۔کئی سال تک سندھی کہانیوں اور منظومات کے تراجم کا سلسلہ جاری رہا اور ادبی حلقوں میں میرے تراجم پسند بھی کیے گئے۔1955ء میں ایک دن جب مَیں شیخ ایاز سے ملا تو انھوں نے بتایا کہ سندھ یونیورسٹی کے زیر ِ اہتمام ’شاہ جو رِسالو‘ کا منظوم اردوترجمہ ہونا ہے۔میں نے فوراً کہا یہ تو بڑی اچھی خبر ہے۔تب ایاز نے ایک کاغذ میرے حوالے کردیا جس پر شاہ لطیف کے کچھ بیت اور دو وَائیاں اور اُن کا لفظی ترجمہ تحریر تھا۔میں نے وہ لفظی ترجمہ پڑھا اور محسوس کیا کہ اگر کوشش کی جائے تو منظوم ترجمہ ہوسکتا ہے۔دوسرے دن مَیں نے
ایاز کو تمام منظوم تراجم دِکھائے تو (شیخ ایازنے) بڑی تعریف کی اور یہ خیال ظاہرکیا کہ’ہم دونوں مل کر اِس بڑے کام کو آسانی سے کرسکیں گے‘۔وہ تراجم جو مَیں نے کیے تھے، پِیر حُسّام الدین راشدی کو بھیج دیے گئے پھر کچھ دن کے بعد جب ایاز سے ملاقات ہوئی تو پتا چلا کہ ہمارے تراجم کو پسند کرلیا گیا ہے اورپورے شاہ جو رِسالو کا منظوم ترجمہ سال بھر میں مکمل ہونا ہے۔حیدرآباد، سندھ کے مخدوم اَمیر احمد کو یہ ذمے داری سونپی گئی کہ وہ لفظی ترجمہ نثر میں کریں گے اور اِسی لفظی ترجمے کو منظوم ہمیں کرنا ہوگا۔میں شب وروز اس کام میں منہمک رہا۔ایاز صاحب اپنی وکالت میں عدیم الفرصت، بس یہ ہوتا کہ ترجموں کو اصل متن سے قریب تر کرنے کے لیے کچھ ترامیم وتنسیخ فرمادیتے۔
اس طرح جیسے تیسے مقررہ مدت میں یہ مہم سر ہوئی“۔ص59-60: ’صبح کرنا شام کا‘۔خودنوشت ِ آفاق صدیقی، اشاعتِ ثانیہ: جولائی 2000ء۔ بات اگر یہیں تک رہتی تو ہم کہتے کہ ایسا ہوتا آیا ہے، مگر ایک قدم آگے بڑھ کر ایک اور بھی انکشاف آپ کا منتظر ہے۔اسی کتاب کے صفحہ نمبر ساٹھ پر آفاق صاحب نے لکھا: ”نثری دیباچہ ڈاکٹر این اے بلوچ کو لکھنا تھا جنھوں نے ناگزیر وجوہ کی بناء پر معذرت کرلی اور سوڈیڑھ سو صفحات کی نثری جگر کاوی بھی کرنا پڑی۔سارا کام ایاز صاحب کے نام تھا، سو اُن کا ہی نام روشن ہوا“۔مشہور سندھی شاعر تاج بلوچ نے مجھ سے گفتگو میں آفاق صاحب کے اس دعوے کی تصدیق کی تھی۔
ویسے تو ڈاکٹر سید جاویداقبال مرحوم،صدرشعبہ اردو،جامعہ سندھ (حیدرآباد) نے مجھے 1998ء میں حیدرآباد اور کراچی کے مشاہیر کی موجودگی میں بتایا تھا کہ ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کی مرتبہ’سندھی اردو لغت‘ درحقیقت ڈاکٹر غلام مصطفی خاں کی مساعی کا نتیجہ تھی جسے اُنھوں نے سرکاری منصب کے احترام میں اوّل الذکر کی نذرکردیا تھا،مگر خیر….یار لوگ ایسی باتوں کا ثبوت بھی مانگتے ہیں۔
قارئین کرام یہ موضوع ایک بہت بڑا دریا ہے جسے کُوزے میں سمونا ناممکن ہے۔اس باب میں کئی پہلو مجبوراً نظر اَنداز کرنے پڑے ہیں۔جو لوگ لسانی بنیاد پر اُردواور سندھی کے مشترکات کا جائزہ لینا چاہیں اُن کے لیے کتب بھی دستیاب ہیں۔میرے لیے مسئلہ یہ ہے کہ بہت سے موضوعات پر ابھی بہت کچھ لکھنا باقی ہے، اس لیے تھوڑے کو بہت جانیں۔ہوسکتا ہے کہ کبھی محض سندھ میں اردوشاعری ہی پر مزید خامہ فرسائی کرسکوں۔
پہلا حصہ؛ زباں فہمی نمبر215؛ اردو اور سندھی کے لسانی تعلق پر ایک نظر(حصہ اوّل)
دوسرا حصہ؛ زباں فہمی نمبر216 ؛ اردو اور سندھی کے لسانی تعلق پر ایک نظر (حصہ دُوَم)
تیسرا حصہ؛ زباں فہمی نمبر217 ؛ اردو اور سندھی کے لسانی تعلق پر ایک نظر(حصہ سوم )
[ad_2]
Source link