[ad_1]
ماب لنچنگ کے اعداد و شمار جاری کیے جانے کے بعد پولیس نے عوام سے اپیل کی ہے کہ ’’وہ کسی بھی قسم کے تنازعے کی صورت میں پولیس کی مدد لیں، قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش نہ کریں۔‘‘
بنگلہ دیش میں گزشتہ سال اگست میں شیخ حسینہ حکومت کے تختہ پلٹ کے بعد سے ماب لنچنگ کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ شیخ حسینہ کی دور حکومت میں ہجوم کے ذریعہ لوگوں کو موت کے گھاٹ نہیں اتارا جاتا تھا۔ تختہ پلٹ سے قبل ماب لنچنگ کی تعداد میں کافی کمی تھی لیکن محمد یونس کی عبوری حکومت میں خاصہ اضافہ ہوا ہے۔ اگر ہم بات کریں 2024 کی تو بنگلہ دیش میں تقریباً 128 لوگوں کی ہجوم نے پیٹ پیٹ کر جان لے لی تھی۔ چونکانے والی بات یہ ہے کہ 128 میں سے 96 قتل اگست 2024 یعنی تختہ پلٹ کے بعد ہوئے ہیں۔
ماب لنچنگ کی اس ڈراؤنی تعداد کے بارے میں مکمل جانکاری بنگلہ دیش کی انسانی حقوق کی ایک اہم تنظیم ’اے ایس کے‘ نے فراہم کی ہے۔ صرف اسی ایک تنظیم نے نہیں بلکہ 3 مزید تنظیموں نے جانکاری دی ہے کہ ’’بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی مضبوط حکمرانی کے جانے کے بعد ہجوم کے ذریعہ کیے جانے والے قتل میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔‘‘ دوسری جانب انسانی حقوق کی تنظیم ’اے ایس کے‘ کے ممبر ابو احمد فیضل کبیر نے کہا کہ ’’بنگلہ دیش میں ماب لنچنگ، بھیڑ کے ذریعہ کسی شخص کو زد و کوب کرنے کے معاملے میں خاصہ اضافہ ہونا سماج میں بڑھتے عدم برداشت اور انتہا پسندی کا واضح ثبوت ہے۔‘‘ دیگر تینوں تنظیموں نے بھی ’اے ایس کے‘ کے مماثل ہی تعداد بتائی ہے۔ ان تنظیموں کا کہنا ہے کہ 2024 میں پیش آئے ماب لنچنگ کی تعداد گزشتہ 5 سالوں کے مقابلے میں 3 گنا سے بھی زیادہ ہے۔
قابل ذکر ہے کہ بنگلہ دیش کی ہیومن رائٹس سپورٹ سوسائٹی نے ماب لانچنگ کے شکار ہونے والے لوگوں کی تعداد 173 بتائی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ ان لوگوں کو ہجوم نے کیوں مارا اس کی اصل وجہ تو اب تک سامنے نہیں آئی ہے۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے ماب لنچنگ کے معاملوں میں خاصہ اضافہ ہوا ہے۔ اگست 2024 کے بعد جن لوگوں کو بھیڑ نے مارا ان میں زیادہ تر تعداد شیخ حسینہ کے حامیوں کی تھی۔ مختلف تنظیموں کے ذریعہ ماب لنچنگ کے اعداد و شمار جاری کیے جانے کے بعد بنگلہ دیش کی پولیس نے عوام سے اپیل کی ہے کہ ’’وہ کسی بھی قسم کے تنازعے کی صورت میں پولیس کی مدد لیں، قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش نہ کریں۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
[ad_2]
Source link