منموہن سنگھ کی قیادت میں شرح ترقی طویل مدت تک 8 فیصد رہی، اس کا استعمال کبھی بھی چنندہ سرمایہ کاروں کو کھرب پتی بنانے اور ان کی بالادستی قائم کرنے کے لیے نہیں کیا گیا۔
ڈاکٹر منموہن سنگھ، تصویر@INCIndia
گزشتہ دنوں ہندوستانی سیاست مزید غریب ہو گئی۔ ایک شخصیت کے وداع ہونے کی وجہ سے ہی نہیں بلکہ اس لیے کہ سادگی، نرم مزاجی، حقیقت پسندی کی للک سیاست میں ویسے بھی کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے اور ان خوبیوں والی شخصیت کا دنیا سے جانا افسوسناک ہے۔
جب ڈاکٹر منموہن سنگھ وزیر مالیات تھے تب ہماری نسل نے کالج کی چوکھٹ پر قدم رکھا تھا۔ ملک میں فرقہ واریت کی ہوا چل رہی تھی۔ معاشی طور پر ان کے وزیر مالیات ہونے کے کچھ ہی ماہ پہلے ملک کا سونا رہن رکھا گیا تھا۔ ایسے مشکل دور میں ان کی قیادت میں معاشی لبرلائزیشن کا راستہ منتخب کیا گیا۔ لبرلائزیشن نے کئی امکانات کے لیے دروازے کھولے۔ تجارت کو آسان بنایا۔ سرکاری عمل کے اباؤپن سے راحت ملی۔ ملک میں ترقی کی ایک نئی عبارت لکھی گئی۔ لیکن ایک بڑے طبقہ کے لیے مقابلہ آرائی کی آندھی کو برداشت کرنا مشکل تھا۔ میں نے انہی حالات میں سیاست کو منتخب کیا۔
میری ان سے ملاقات بہت بعد میں ہوئی۔ 90 کی دہائی کے نصف آخر میں جب مرکز میں بی جے پی قیادت کی حکومت تھی، وہ راجیہ سبھا میں حزب اختلاف کے قائد تھے۔ طلبا کے ساتھ لبرلائزیشن کی پالیسی پر لیکچر منعقد کرنے کے سبب ان سے ملاقات ہوئی۔ بغیر کسی انا کے انھوں نے کہا کہ لبرلائزیشن کی عالمی حالات پر نئے طریقے سے غور و خوض کیے بغیر لیکچر کرنا مناسب نہیں ہوگا۔ کوئی سچا عبادت گزار ہی اس ایمانداری کے ساتھ اپنے برسوں کے تجربہ سے حاصل اصولوں کو از سر نو پرکھ سکتا ہے۔ اصول کو پکڑے رکھنا تو آسان ہے، لیکن اس کا از سر نو جائزہ لینا سچائی کے متلاشی شخص کی ہی نشانی ہے۔ تقریباً دو سال بعد وہ ایسے ہی ایک سمینار میں آئے۔ 10 بجے کا وقت دیا اور ٹھیک 10 منٹ پہلے پہنچ گئے۔ ہم منتظم حیرانی سے دیکھنے لگے۔ ان کے چہرے پر جھنجھلاہٹ کی شکن تک نہیں تھی۔ ہمیشہ کی طرح ہلکی مسکان تھی۔ وقت کی پابندی سے بھی بڑھ کر کبھی کسی کو کمتر محسوس نہیں ہونے دینے کا رویہ بے مثال تھا۔ کسی خوش عملی کا تکبر نہیں تھا۔
پھر وہ وزیر اعظم بن گئے۔ ملک نے ان کے عزائم کا مشاہدہ کئی مرتبہ کیا۔ انہی کی قیادت میں شرح ترقی طویل مدت تک 8 فیصد رہی۔ اس کا استعمال چنندہ سرمایہ کاروں کو کھرب پتی بنانے اور ان کی بالادستی قائم کرنے کے لیے نہیں کیا گیا۔ لاکھوں کروڑوں روپے کا استعمال ’کام کا حق‘، ’تعلیم کا حق‘، ’فورڈ سیکورٹی کا حق‘، ’کسانوں کی قرض معافی‘ وغیرہ کے لیے ہوا۔ حق پر مبنی قوانین کی جھڑی لگا دی گئی۔ یہ بنیادی حقوق کے نئے ایڈیشن بن کر سامنے آئے۔ عالمی منظرنامہ پر ہندوستان کی ساکھ قائم ہوئی۔ انھیں نہ تو اپنی تصویر لگا کر خود کی تعریف کروانے کا شوق تھا اور نہ ہی افتتاح میں فیتہ کاٹنے کی للک۔ سچے عامل کی طرح وہ خود کو صفر کر کے کام کرتے تھے۔ ان کے لیے سیاست سنسنی کا ذریعہ نہیں تھی۔ جب نیوکلیئر پلانٹ معاہدہ پر بایاں محاذ پارٹیں نے ساتھ دینے سے انکار کیا تب وہ اپنے فیصلے پر قائم رہے۔ 2009 میں پہلی بار میں رکن پارلیمنٹ بن کر پارلیمنٹ گئی۔ تب ان کی باوقار اور سنجیدہ موجودگی قابل ترغیب تھی۔
بہت افسوسناک ہے کہ ان کے میموریل (یادگار) کو لے کر برسراقتدار پارٹی جاری بحث کو ذیلی سیاق و سباق تک سمٹانے پر آمادہ ہے۔ جیسے ہر واقعہ کو ذو بنیادی بنایا جاتا ہے، اس معاملہ پر بھی کچھ ایسا ہی کیا جا رہا ہے۔ کیا ایسی کوئی دوہریت ہے بھی یا یہ مصنوعی ہے؟ ایک دیگر غیر نہرو-گاندھی وزیر اعظم کے کابینہ میں یہ وزیر مالیات تھے۔ ان دوسرے وزیر اعظم کی کابینہ کے ہی نصف اراکین ان کی کابینہ میں تھے۔ کچھ دیگر گورنر یا وزیر اعلیٰ ہو گئے۔ ان کی مدت کار کے دوران نہرو-گاندھی کنبہ کی ہی رکن تنظیم کی صدر تھیں۔ فوراً کچھ دیگر پارٹی بدل چکے لوگوں سے بیان دلائے گئے۔ یہ بھولتے ہوئے کہ جن صدر کی بات ہو رہی ہے، ان کو صدر کس کی صدارت میں نامزد کیا گیا تھا۔ پھر کیا سچ میں ڈاکٹر منموہن سنگھ غیر نہرو سوچ رکھتے تھے؟ کیا سچائی کا متلاشی کبھی اپنے راستہ کو محدود دائرے میں قید کرتے ہیں؟ کیا وہ وقت کی طلب اور بدلے ہوئے حالات میں ملکی مفاد کے لیے سب سے بہتر راستہ نہیں منتخب کرتے؟ دراصل یہ ذو بنیاد اس لیے کھڑا کیا گیا کہ تین دن تک کئی تشہیری ذرائع نے ڈاکٹر منموہن سنگھ کے تعاون کو پیش کرتے وقت بالواسطہ یا بلاواسطہ طور سے 70 سال میں کیا کیا، کے سوال کا خود ہی جواب دے ڈالا۔ شرمناک طریقے سے جو بے بنیاد جھوٹ پیش کیا گیا تھا، اس کی قلعی کھلنے لگی۔ گودی چینلوں تک کو کچھ سچ کہنا پڑا۔ تب اس سے توجہ ہٹانے کا ایک ہی راستہ باقی بچا تھا۔ ذیلی سیاق و سباق کی آڑ لے کر بلاوجہ کی بحث کو آگے بڑھایا جائے۔
2015 میں نہرو جی کی پیدائش صدی پر سمینار کی ایک سیریز کا انعقاد ہوا تھا۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ اور پروفیسر عرفان حبیب ایک ساتھ اسٹیج پر تھے۔ عرفان حبیب نے اپنے بیان میں کہا کہ معاشی معاملوں میں ہمیشہ الگ سوچ ہونے پر بھی وہ ڈاکٹر منموہن سنگھ سے بڑا ماہر معیشت کسی کو نہیں مانتے۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ نے اپنی بات میں کہا کہ پوری دنیا میں گہراتے عدم مساوات انھیں مجبور کرتی ہے کہ اپنے راستے کو مزید ٹٹولے۔ اس قول نے ثابت کیا کہ جو واقعی میں عظیم ہوتے ہیں، وہ نظریات کی سرحد بندی نہیں کرتے۔ بغیر تکبر اور انا کے سرحدیں لانگھتے ہیں اور دونوں طرف جو کچھ مفاد آور ہوتا ہے، اسے اختیار کرتے ہیں۔
غور کرنے والی بات ہے کہ اسی ہفتے شیام بینیگل بھی نہیں رہے۔ آئین ساز پر ان کے ذریعہ بنایا گیا سیریل بے حد ثمر آور ہے۔ وہ صحت مند سیاسی روایت کا جھروکا بھی ہے۔ ’بھارت ایک کھوج‘ نے ہماری گنگا جمنی تہذیب کو خوبصورت انداز سے پیش کیا ہے۔ اس کا تانا بانا توڑنے کی کوشش آج زوروں پر ہے۔ ’ایشور اللہ تیرو نام‘ گانے پر بہار میں گلوکارہ کو گالیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ برسراقتدار پارٹی کے کارکنان اس میں شریک تھے۔ شیام بینیگل کی ’منتھن‘ عوامی تعاون کی بہترین مثال ہے۔ ہندوستان کے دودھ پیداوار کرنے والے کسانوں نے ایک ایک روپیہ دے کر فلم بنوائی۔ ہندوستانی سماجی عدم مساوات-مساوات، نفرت-محبت، اقتدار کی مرکزیت-عدم مرکزیت کے ’منتھن‘ سے گزر رہا ہے۔ یہ گاندھی کے کانگریس صدر ہونے کی صدی والا ہفتہ اور سال بھی ہے۔ ایسے میں بس یہی لگتا ہے کہ جب بھی کسی کو مجبور کہا جائے، تب سمجھنا چاہیے کہ جمود کی کیفیت کو چیلنج دینے والے سچائی کے متلاشی شخصیت کی بات ہو رہی ہے۔ مجبور نہ تو مہاتما موہن داس تھے اور نہ ہی منموہن سنگھ۔ بہت مضبوط تھے۔ تبھی انھیں 56 انچ والی خود نمائی کی ضرورت نہیں پڑی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔