اس کے بعد نہرو کے لیے چیلنجز مزید بڑھ گئے مگر وہ ایسے ہی نہرو نہیں بنے تھے۔ جلد ہی انہوں نے بازی پلٹ دی۔ ستمبر 1950 میں ٹنڈن کی کامیابی کے دوران ناسک میں کانگریس کا اجلاس ہوا، تو نہرو نے اسٹیج سے دو ٹوک انداز میں کئی سخت اور کھری باتیں کیں۔ یہ بات بھی کہی کہ ’’پاکستان میں اقلیتوں پر مظالم ہو رہے ہیں، تو کیا ہم بھی یہاں وہی کریں؟ اگر اسے جمہوریت کہتے ہیں، تو ایسی جمہوریت بھاڑ میں جائے!‘‘ انہوں نے اجلاس کے نمائندوں سے کہا، ’’اگر آپ مجھے وزیر اعظم کے طور پر چاہتے ہیں، تو آپ کو بغیر شرط کے میرے پیچھے چلنا ہوگا۔ اگر نہیں چاہتے، تو واضح طور پر کہہ دیں۔ میں عہدہ چھوڑ دوں گا اور کانگریس کے اصولوں کے لیے آزادانہ جدوجہد کروں گا۔‘‘
ان کی بات کا اثر ہوا اور انہوں نے نہ صرف نمائندوں کا اعتماد جیت لیا بلکہ ہندوستان میں سیکولرازم کے مستقبل کو بھی یقینی بنا دیا۔ اس وقت ‘نیویارک ٹائمز’ نے اپنے 22 ستمبر 1950 کے شمارے میں لکھا کہ ’’اب یہ طے ہو گیا ہے کہ ہندوستان ایک سیکولر ریاست بننے کی طرف ہی بڑھے گا۔‘‘
تاریخ گواہ ہے کہ اس کے بعد مجبوراً ٹنڈن کو کانگریس کے صدر کا عہدہ چھوڑنا پڑا اور 1952 کے عام انتخابات میں ملک کے ووٹرز نے نہرو کی سیکولر پالیسیوں پر مہر ثبت کر دی، جس نے ہندو مہاسبھا سمیت تمام فرقہ پرستوں کو ان کی حیثیت اس طرح یاد دلا دی، کہ وہ مدت طویل تک کوئی منصوبہ تیار نہیں کر سکے۔
(کرشن پرتاپ سنگھ سینئر صحافی ہیں)