[ad_1]
یو پی میں 2022 کے اسمبلی انتخابات قریب سے قریب تر ہوتے جا رہے ہیں اور اسی کے ساتھ تمام سیاسی پارٹیاں لنگر لنگوٹ کس کر میدان میں اتر چکی ہیں ، ویسے تو ہر بار الیکشن کے وقت تمام پارٹیاں ایک دوسرے پر کھل کر زبانی حملے کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتی لیکن اس بار تو ایک الگ ہی ماحول دیکھنے کو مل رہا ہے ، بی جے پی اپنے کاموں میں رام مندر کو سر فہرست رکھ کر عوام کو اپنی جانب مائل کر رہی ہے اور ساتھ ہی ہندو عوام کو اس بات کا اشارہ بھی دے رہی ہے کہ اگر ریاست میں سماجوادی پارٹی یا کوئی اور سیکولر پارٹی سرکار بناتی ہے تو ان کے رام مندر کی تعمیر کا خواب ہمیشہ کے لیے خواب ہی رہ جائے گا، تو وہیں سیکولر پارٹیاں بھی بی جے پی پر کا منھ توڑ جواب دینے میں لگی ہیں،مسلمانوں کے حوالے سے بی جے پی کی آئیڈیالوجی اور نظریات ہر کس و ناکس پر ظاہر و باہر ہیں لیکن اپنے آپ کو مسلمانوں کا مسیحا بتانے والی تمام سیکولر پارٹیوں میں مسلمانوں کے ساتھ اظہار ہمدردی کا پرزور مسابقہ چل رہا ہے کیونکہ خاص طور پر یوپی میں ہندوتوا اور زعفرانی ذہنیت کےحامل لوگ کھل کر بی جے پی کے ساتھ ہیں اور حالات چاہے جیسے ہوں وہ لوگ ان کے ساتھ ہی رہیں گے، باقی ہندوؤں کے سیکولر پسند طبقے میں بعض کانگریس کی طرف جائیں گے تو بعض سماجوادی پارٹی کی طرف، اب ظاہر ہے کہ ان چند لوگوں کو لے کر حکومت بنانا یقینا ناممکن ہے، لہذا تمام سیاسی پارٹیوں کو مسلمانوں کے حمایت کی اشد ضرورت ہے اور وہ مسلمانوں کے دلوں کو جیتنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔
ویسے حقیقت میں یہ سیکولر پارٹیاں مسلمانوں کا کتنا ساتھ دے رہی ہیں گزشتہ سالوں میں ان کے رویے کو دیکھ کر اس کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے، اب رہا سوال یہ کہ ایسے نازک ترین حالات میں مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے؟ ہمارے پاس نہ تو صوبائی لیول پر کوئی سیاسی پارٹی ہے اور نہ ہی سے سیکولر پارٹیوں سے وفا کی کوئی امید ، اور دوسری جانب اس سیاسی گھماسان میں مجلس اتحاد المسلمین بھی داخل ہوچکی ہے ، بتاتا چلوں کہ گزشتہ اسمبلی انتخابات میں بھی اسد الدین اویسی نے اپنی پوری کوشش کی تھی لیکن ایک بھی سیٹ ان کے ہاتھ نہ آ سکی، لیکن اس بار یوپی میں اویسی کی ایک الگ ہی دھوم مچی ہوئی ہے اور عوام میں ان کی مقبولیت بھی پہلے سے بہت زیادہ ہے اور یہ کیوں نہ ہو کہ جب بھی مسلمانوں کے حقوق کی بات آتی ہے یا پورے ملک میں کہیں بھی مسلمانوں پر ظلم و ستم ہوتا ہے تو پارلیمنٹ میں سب سے پہلے آواز اٹھانے والا یہی شخص ہے ، جو ہر وقت ملک کے اقلیت کی آواز بننے کا ہمت اور حوصلہ رکھے تو یہ ہماری بھی ذمہ داری ہے کہ ہم اسے انتخابات میں فراموش نہ کریں۔
رپورٹ کے مطابق یوپی میں مجلس مختلف علاقوں سے سو سیٹوں پر الیکشن لڑے گی اور یوپی میں 403 سیٹیں ہیں ، اب ظاہر سی بات ہے کہ فقط سو سیٹوں پر الیکشن لڑ کر سرکار بنانا یہ ناممکن ہے، لہذا ایسے وقت میں ہمیں کیا کرنا چاہیے اس کی بظاہر کوئی صورت نظر نہیں آ رہی ،حالانکہ اس بات کا بھی یقین ہے کہ تمام سیکولر پارٹیاں اگر اسی نھج پر چلتی رہیں تو کثیر تعداد میں مسلمانوں کے ووٹ بٹتے ہوۓ نظر آئیں گے اور ایک بار پھر بی جے پی یوپی میں سرکار بنانے میں کامیاب ہوتی نظر آۓگی, لہذا بی جے پی کو روکنے کے لیے یہ پارٹیاں جو چیدہ چیدہ الیکشن لڑنے کی تیاری کر رہی ہیں، انھیں ایک جدید لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا اور باہم اتحاد کرنا ہوگا اور کیونکہ اس الیکشن میں کثیر تعداد میں مسلم مجلس کے شانہ بشانہ ہیں، اسی لیے انھیں اس اتحاد میں مجلس کو شامل کرنا بھی نہایت ہی ضروری ہے ورنہ اس کا خمیازہ ہمیں اجتماعی طور پر بھگتنا پڑ سکتا ہے ۔
بقلم محمد احمد حسن امجدی۔
البرکات اسلامک ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ علی گڑھ۔
8840061391
[ad_2]
Source link