چند دن پہلے کرناٹک کے ساحلی علاقہ کے ضلع “اڈپی” میں ہوئے حجاب سے متعلق واقعے کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں ایک مسلم طالبہ کو سرکاری پری یونیورسٹی کالج میں حجاب پہن کر آنے سے روکا جا رہا تھا ۔ اس واردات کے خلاف کچھ مسلم سیاسی پارٹیوں نے بھی آواز اٹھائی تھی، جس کی وجہ سے معاملہ تھوڑا ٹھنڈا ہوگیا۔ ضلع کی انتظامیہ نے کالج کے ذمہ داروں کے خلاف سخت ایکشن لیا۔ ضلع انتظامیہ نے اس لئے نوٹس لیا تاکہ یہ معاملہ کہیں ریاستی سطح پر ہندو مسلم منافرت کا سبب نہ بن جائے۔ اس سے ایک حقیقت واشگاف ہوگئی کہ اگر کسی معاملہ کے خلاف آواز اٹھائیں گے تو ضرور معاملہ حل ہو سکتا ہے ، آنکھ موند کر بیٹھنے سے کام نہیں چلے گا۔
کرناٹک کے اپوزیشن لیڈر جناب سدارامیا قابل مبارکباد ہیں کہ انہوں نے اس معاملہ کے متعلق عین وقت پر وزیر برائے بنیادی و ثانوی تعلیم بی سی ناگیش سے بات کر کے معاملہ کو رفع دفع کرنے کی سجیشن دی۔ لیکن افسوس کہ ہمارے اس ہندوستان میں جہاں ایک طرف “بیٹی بچاؤ ؛ بیٹی پڑھاؤ” کا ڈھکوسلہ آمیز نعرہ لگایا جاتا ہے، وہیں دوسری طرف مسلم طالبات کو حجاب سے روکا جا رہا ہے۔ گویا حجاب مسلم طالبات اور خواتین کے لیے عذاب و وبال جان ہو گیا ہے۔ حجاب درحقیقت اسلامی نقطۂ نظر سے خواتین کے لئے ایک مذہبی روایت و دینی شعار ہے ۔ ہندوستان میں کہیں مسلم نسل کشی کی بات ہو رہی ہے، تو کہیں مسلمانوں کے خلاف منافرت و تعصب کی آگ لگائی جارہی ہے۔ وزیر اعظم انتخابی ریلی سے خطاب کر کے “بیٹی بچاؤ” کا بھونڈا نعرہ لگاتے ہیں۔ اسی بھارت میں روح فرسا واردات بھی ہوئے جس کو لکھتے ہوئے میرا قلم بھی لرز رہا ہے۔ دہلی جو ہندوستان کی راجدھانی ہے، جہاں آئے دن عصمت دری کی درد بھری داستان و واقعات ہوتے رہتے ہیں، نہ حکومت کو اس کی فکر، نہ ارباب حکومت ایوان اسمبلی میں اس مسئلے کو چھیڑتے ہیں۔ وہیں اگر کسی سیاست دان کو اپنے مفاد کی بات کرنی ہو تو چیخ چیخ کر ایوان کو سر پہ اٹھا لیتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اسی کے لئے باشندوں نے انہیں اپنا ووٹ دے کر ایوان اسمبلی بھیجا تھا۔
حجاب کا مسئلہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے۔ اس واقعہ سے پہلے راقم جہاں سکونت پذیر ہے یعنی ضلع “جنوب کنڈا” کے موڈ بدرے جین کالج میں 2011 میں پی یوسی کی مسلم طالبہ ہادیہ اقبال کو اسکارف کے ساتھ کالج جانے سے روکا گیا۔ ہادیہ اقبال کی جرأت و بہادری کو سلام وہ بچی کالج کی انتظامیہ اور بی جے پی کے کارکنان سے لڑتی رہی۔ اسکارف کی وجہ سے جین کالج سے نکالنے کا فیصلہ بھی ہو گیا تھا۔ خارجہ کی دھمکی دی گئی۔ پھر بھی وہ عدل و انصاف سے اپنی امید نہ چھوڑتے ہوئے بنگلور تک پہنچی۔ آخرکار اسپیشل طور پر اس طالبہ کو امتحان لکھنے کا موقع فراہم کیا گیا۔
ستم بالائے ستم یہ ہے کی ان نازک حالات میں ایک مسلم مضمون نگار اس مسئلہ کو دوسرا رخ دے کر اس کو ہلکا سمجھ رہی ہے ۔ وہ اپنے مضمون میں یوں رقم طراز ہے کہ ” برقع یا حجاب فیشن ہو سکتا ہے، طرز زندگی ہو سکتا ہے، مذہبی خیال ہوسکتا ہے یا محض لباس کا انداز ۔ ان سارے پہلوؤں کو کھلا رکھنے کی ضرورت ہے “۔ گویا اس آزاد خیال خاتون کے نزدیک حجاب اور پردہ اسلامی شعار یا مذہبی علامت نہیں بلکہ ایک فیشن کا نام ہے۔ کیا خوب کہا تاباں دہلوی نے
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
یہی آزاد خیالی مسلم خواتین کو ذلت و خواری کے اندھیر گڑھے میں دھکیل دے گی ۔ لہذا میری ماں بہنوں سے گزارش ہے کہ اس مسئلہ کو سنجیدگی اور متانت سے سمجھنے کی کوشش کریں ، ہرگز ہلکا نہ سمجھیں۔ قرآن کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کریں اور اسلام جس قدر تقدس و عظمت کے ساتھ عورت کو پردہ کا حکم دیتا ہے اسی طرح اسلام عورت کے مقام کو بھی اتنا ہی مقدس اور عظیم سمجھتا ہے۔ یہ کوئی بازیچۂ اطفال نہیں بلکہ اسلام کے شعار کا سوال ہے۔