[ad_1]
ہندوستان کے مظلوم مسلمان اس وقت تاریخ کے جس سنگین مرحلے سے گزررہے ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔انھیں پوری پامردی اور صبر واستقامت کے ساتھ حالات کا سامنا کرنا چاہئے۔ایمان ویقین کے معنوی قوتوں سے کام لینے کا یہی مناسب وقت ہے اتنا ہی نہیں مسلمان اپنی ٹوٹی ہوئی جھتوں کو پھر سے جوڑنے کے کوشش وکاوش میں لگے رہے اور ایک روشن مستقبل کی تعمیر وترقی میں ہمہ وقت کوشاں رہے رونہ تاریخ کے صفحات سے مسلمان بوسیدہ کاغذات کی طرح نکال دئے جائیں گے۔آئے دن اسلام اورمسلمان ظلم وستم کے شکار بنائے جارہے ہیں سیاست دان طبقہ مسلمانوں کو کٹھ پتلی اور صنم لا ینطق سمجھ رہے ہیں۔اخباروں کی سرخیوں پر ہمیشہ مسجد ومندر کا تنازعہ شہ سرخی بنا رہتا ہے۔بابری مسجد کا قصہ خون ناب کے بعد اب باری بنارس میں واقع شاہی عالمگیری مسجد محلہ گیان واپی کی ہے جو ہندوستان کے طول وعرض میں موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔فرقہ پرست عناصر بابری مسجد کی ناجائز حصولیابی کے بعد اب انکی خونچکاں نگاہیں اس مسجد پر ٹکی ہوئی ہیں۔ہندوستان کے عدلیہ وسرکاری انتظامیہ میں اس کو لیکر خوب گرما گرم بحثیں ہورہی ہیں۔سپریم کورٹ میں اب تک اس معاملہ کا کوئی صحیح ومتوازن حل نہیں نکلا اور ابھی بھی تمام معاملات زیر سماعت ہیں۔ دن بدن فیصلہ کی تاریخ ملتوی در ملتوی کی جارہی ہیں پتہ نہیں اس کا انجام کیا ہوگا؟؟؟
اب ہم آج کی صحبت میں نہایت سنجیدگی ومتانت سے شاہی عالمگیری مسجد محلہ گیان واپی کی مختصر تاریخ بیان کرکے اس مرد قلندر ودرویش صفت انسان کی پیش گوئی سپرد قرطاس کرینگے جس کو اس باخدا وخدا ترس بندے نے تقریبا پینتیس سال پہلے قوم کے سامنے رکھا تھا اور مسلمانوں کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کی کوشش کی تھی آخر جس چیز کا خوف واندیشہ تھا وہی ہوا کیا خوب کہا شاعر نے
وہی ہوا کہ خود بھی جس کا خوف تھا مجھے چراغ کو جلا کے بس دھواں ملا مجھے
تاریخی پس منظر: شاہی عالمگیری مسجد کی تاریخ تاسیس یقینی طور پر کسی کو معلوم نہیں لیکن اتنا ضرور تاریخ سے ثابت ہے کہ یہ مسجد مغلیہ فرمانروا بادشاہ جلال الدین محمد اکبر کے عہد سلطنت بھی موجود تھی تاریخی حقائق سے پردہ اٹھاتے ہوئے مفتی عبد الباطن نعمانی رقم طراز ہیں کہ“تاریخی اعتبار سے یقینی طور پر تو یہ نہیں پتہ چلتا کہ اس مسجد کا اصل بانی کون ہے اور اس کا سنگ بنیاد کب رکھا گیا تاہم اتنا ضرور ہے کہ مغلیہ سلطنت کے ایک بادشاہ جلال الدین محمد اکبر (متوفی 1014ھ 1605 ء)جن کا دور حکومت 963ھ مطابق 1556ء تا 1014 ھ مطابق 1605ء ہے اس میں بھی یہ جامع مسجد موجود تھی اور اس میں باضابطہ نمازیں ادا کی جاتی رہیں۔اس کا ایک تاریخی ثبوت یہ ہے کہ اس دور میں بنارس کے ایک مشہور بزرگ ولی کامل قطب بنارس حضرت مخدوم شاہ طیب بنارسی رحمہ اللہ (متوفی 1042ھ)مدفون منڈواڈیہہ شہر بنارس پابندی سے نماز جمعہ کی ادائیگی اسی جامع مسجد میں فرماتے تھے۔(جامع مسجد گیان واپی تاریخ کے آئینے میں ص۴)
مسجد کے نام کی وضاحت: فرقہ پرست عناصر مسجد کے سلسلے میں ایک چھوٹا وپر فریب پروپیگنڈہ یہ پھیلا رہے ہیں کہ مسجد کا نام گیان واپی مسجد ہے اسلام میں عموما کسی عبادت گاہ کا نام سنسکرت لفظ میں نہیں رکھا جاتا ہے جس سے یہ بات آفتاب نیم روز کی طرح عیاں ہے کہ مسجد اصلا ایک مندر تھا پھر مسلم جابر حکمرانوں نے مسجد میں تبدیل کردیا۔العیاذ باللہ یہ ایسا جھوٹ ودجل ہے کہ شیطان بھی شرماجائے کہ ہائے جھوٹ پھیلانے میں میں بھی ان سے مات کھا گیا۔
اس پروپیگنڈہ کا حقیقت سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں ہے اس لئے کہ مسجد کا اصل نام گیان واپی نہیں ہے بلکہ مسجد کا اصلی وتاریخی نام شاہی عالمگیری مسجد ہے گیان واپی محلے کا نام ہے اس کی سچائی بیان کرتے ہوئے مفتی نعمانی رقم طراز ہیں کہ“عام تاثر یہ ہے کہ گیان واپی مسجد ہی کا نام ہے لیکن یہ تأثر غلط ہے“(جامع مسجد گیان واپی ص۳)
مذکورہ بالا تحریر سے یہ بات روز روشن کی طرح عیا ں وبیاں ہے کہ مسجد کا اصلی نام شاہی عالمگیری مسجد ہے محلہ گیان واپی میں مسجد واقع ہونے کی وجہ سے لوگ گیان واپی مسجد کہتے رہے پھر اسی نام سے مسجد کی تشہیر ہوگئی۔لہذا ہم جملہ اہل اسلام سے مخلصانہ ومؤدبانہ التماس کرتے ہیں کہ آگے تمام لوگ اس مسجد کو اسکے اصلی وتاریخی نام ہی سے لکھیں اور بولیں اپنی تحریر وتقریر میں بھی اسی نام کا استعمال کریں۔ہندو فرقہ پرست بابری مسجد کو جس طرح اپنے ناپاک کوششوں سے شہید کرکے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا اسی طرح وہ ابھی شاہی مسجد گیان واپی کے ساتھ گھناؤنا کھیل کھیلنا چاہتے ہیں۔ایسے نازک وسنگین حالات میں مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہوش کے ناخن لیں اور قانونی چارہ جوئی کرتے رہے اور مرکزی حکومت سے دشمن عناصر جو ہندوستان کے مسلمانوں کو فرقہ وارانہ خطوط میں تقسیم کرکے ہندو سیاسی تفوق وتسلط قائم کرنے اور اسے بحال رکھنے کا پورا پورا جتن کررہا ہے اس فرقہ وارانہ دہشت گردی کے خلاف سخت تعزیری کاروائی کرنے کا حکومت ہند سے مطالبہ کرتے رہے اور حزب اقتدار سے بار بار اس مطالبہ کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرتے رہے ورنہ وہی حال ہوگا جس کا ہم سب کو خدشہ ہے۔
برسر مطلب آمدم کہ اسی گیان واپی مسجد سے متعلق ایک مرد قلندر قائد اہل سنت علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ نے تقریبا پینتیس سال قبل وہی خدشہ ظاہر کیا تھا جو آج رونما ہورہا ہے وہ لکھتے ہیں۔“تیسری بات یہ ہے کہ بنارس کی گیان واپی مسجد اور متھرا کی عید گاہ‘دونوں کا ماحول اس وقت بالکل پرسکوں ہے۔وہاں معمول کے مطابق نمازوں کا سلسلہ اور نمازیوں کی آمد ورفت بھی بے خوف وخطر جاری ہے ا۔اگر بابری مسجد کی طرف پیش قدمی کے جواب میں خدانخواستہ فرقہ پرست ہندو تنظیموں نے بھی مذکورہ بالا دونوں مسجدوں کے طرف پیش قدمی کا پروگرام بنالیا‘ تو ان حالات میں جن مشکلات کا ہمیں سامنا کرنا پڑے گا اور جن مصائب سے ہمیں دو چار ہونا پڑے گا‘ان کا حل بابری مسجد رابطہ کمیٹی کے پاس کیا ہے“(شعور آگہی ص 94)
یہ اقتباس اس مضمون کا ہے جس کو علامہ نے اگست 1988 ء میں ماہنامہ حجاز جدید دہلی کے لئے لکھاتھا۔جس کا عنوان کچھ یو ں ہے ” اجود ھیا مارچ کے نقصانات ” اس سے اس مرد قلندر کی دور اندیشی ومستقبل شناسی کا جہاں پتہ ملتا ہے وہیں یہ بات بھی آفتاب نیم روز کی طرح روشن ہو جاتی ہے کہ ہمارے اسلاف کی نگاہیں جہاں حالات حاضرہ پر بھی تھیں وہیں مسقبل میں ہونے والے نتائج کو بھی وہ بھانپ لیتے تھے۔مزید لکھتے ہیں“اگر ہندو ان دونوں مسجدوں تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے اور انھوں نے دونوں مسجدوں کے گرد گھیر ا ڈال دیا‘تو اس کا نتیجہ اس کے علاوہ اور کیا نکلے گا کہ بابری مسجد کی طرح فرقہ وارانہ تصادم کا سوال پیدا کرکے حکومت نمازیوں کی آمد ورفت پر پابندی عائد کردے گی اور اس کے بعد نہیں کہا جاسکتا کہ ان مسجدوں کا ماحول اعتدال پر آسکے گا۔یا خدا نخواستہ بابری مسجد ہی کی طرح ان دونوں مسجدوں کے لئے بھی ہمیں ایک نیا محاذ جنگ کھولنا پڑے گا۔(شعور وآگہی ص95)
ان دونوں اقتباس کو پڑھ کر قارئ کا دل ودماغ تروتازہ ہو جائیگا کہ اس مرد قلندر نے جو کچھ کہا تھا آج ہوبہو وہی ہورہا ہے۔ان حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہئے اسکا بھی حل بیان کرتے ہوئے آپ رقم طراز ہیں کہ“مصائب ومشکلات کی دبیز تاریکیوں میں اب سوائے اس کے ہمارے پاس کوئی چارہ کارہ نہیں رہ گیا ہے‘ کہ ہم ضمیر کے تہہ خانے میں رہنے والی ایمانی قوت کو جگائیں اور رات کی تاریکیوں میں اس خدائے جبار وقہار کے آگے پھوٹ پھوٹ کرروئیں۔جس نے ہاتھیوں کے سیاہ لشکر کو ناچیز پرندوں کے ذریعہ آن واحد میں ہلاک کردیا۔اس نے خانہ کعبہ کی چھت پر اڑنے والے پرندوں سے وہ کام لیا جو کام آج عذاب نازل کرنے والے بمبار طیاروں سے لیا جاتا ہے۔انتظار کیجئے غیرت الہی جس دن حرکت میں آگئی‘ اس دن سارے اصنام منہ کے بل گرجائیں گے“۔(شعور آگہی ص ۷۹)
یہاں سؤال کسی ایک مسجد کا نہیں بلکہ اسلام کی حرمت کو پامال کرنے کا ہے۔بھاجپا حکومت برسر اقتدار ہونے کے بعد سے ہندوستان کے پچیس کروڑ مسلمانوں کے صبر وضبط کے خرمن میں لگاتار آگ لگا رہی ہے۔عزت وناموس کو تہس نہس کرکے رکھ دی۔جو لوگ کل تک سینہ ٹھوک ٹھوک کر سیکولرزم وجمہوریت کا راگ الاپتے تھے آج انہیں کے ہاتھ مظلوم مسلمانوں کے خون سے رنگین ہیں۔آخر مسلمان گلہ وشکوہ کریں تو کس سے؟؟ ان کا اس ملک میں پرسان حال کون؟؟ ان ناگفتہ بہ حالات میں ہمیں چاہئے کہ ہمار ے مستقبل کیلئے ایک مضبوط لائحہ عمل تیار کریں ساتھ ہی ساتھ ان حالات میں قانونی چارہ جوئی کیلئے ہمارے پاس ایک مضبوط قانونی محاذ ہونا چاہئے جو بر وقت حکمت ودانش کے ساتھ مسلمانوں کے معاملات کو عدالت تک پہنچانے میں کامیاب ہو۔اللہ تعالی دعا ہے کہ مولی ہمارے منتشر جتھون کو شیرازہ بندی کی توفیق عطافرمائے ورنہ ہمارے مقدر میں ظلم وبربریت اور قہر وستم کے پہاڑ کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا۔مولی ہماری صفوں میں اتحاد واتفاق پیدا فرمائے کیا خوب کہا شاعر نے
ایک ہوجائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبین ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا بات بنے
[ad_2]
Source link