اساتذہ قوم کے معمار ہوتے ہیں
جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک
ان کی تدریس سے پتھر بھی پگھل سکتے ہیں
ماں باپ کے بعد اساتذہ نہایت قابل احترام ہوتے ہیں ۔ استاد کی مثال اس سنگ تراش سی ہے جو معمولی پتھر کو تراش کر ایک شاہکار مجسمہ تیار کرتا ہے ۔ معلم اس مالی کی طرح ہے جو پودوں کو کانٹ چھانٹ کر ثمر آور درخت بناتا ہے ۔ گرو اس کمہار کی مانند ہے جو مٹی کے گوندے کو خوشنما شکل دیتا ہے ۔ مدرس اس جوہری کے جیسے ہے جو زنگ آلود دھات کو غیر معمولی زیور میں بدل دیتا ہے ۔
اسلام میں معلم کا مرتبہ بہت بلند ہے ۔عظمت استاد کے لئے یہی کافی ہے کہ محسن انسانیت نے استاد ہونے پر فخر کا اظہار فرمایا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے ” بیشک میں معلم بنا کر بھیجا گیا۔ ” ایک اور حدیث کا مفہوم ہے ” تم میں بہترین شخص وہ ہے جو قرآن کو سیکھے اور اسے سکھائے”باب علم حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا قول ہے : جس نے مجھے ایک لفظ بھی پڑھایا میں اس کا غلام ہوگیا ۔چاہے مجھے بیچے، آزاد کرے یا غلام بنا کر اپنے پاس رکھے ۔عباسیہ خلافت کے مشہور خلیفہ ہارون رشید کے شہزادے مامون اور امین اپنے استاد کی جوتیاں اٹھانے اور سیدھا کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاتے ۔ سکندر اعظم نے کہا تھا : میرا باپ مجھے آسمان سے زمین پر لایا جبکہ میرے استاد نے مجھے پھر سے زمین سے آسمان پر پہنچا دیا ۔
اساتذہ صرف زیور علم سے آراستہ نہیں کرتے بلکہ طلبہ کی بہترین تربیت بھی کرتے ہیں ۔ انہیں ایک ذمہ دار شہری بناتے ہیں ۔ بامقصد زندگی گزارنے کی تلقین کرتے ہیں ۔ ان میں عمدہ اخلاق پیدا کرتے ہیں ۔ان کی کمیوں اور خامیوں کی اصلاح کرتے ہیں ۔ ان کی خوابیده صلاحیتوں کو بیدار کرتے ہیں ۔ ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں ۔ انہیں ابھارتے ہیں ۔ انہیں تابناک مستقبل فراہم کرتے ہیں ۔ انہیں ہر زاویہ سے سنوار کر بام عروج پر پہنچاتے ہیں ۔
پہلے اساتذہ اس پیشہ کو خدمت جان کر اپناتے تھے ۔ انہیں کسی سے کوئی سروکار نہیں ہوتا ۔ وہ بے لوث خدمت کرتے ۔ وقت کی پابندی ،سیرت میں سادگی ،مطالعہ کا شوق ،ذمہ داری کا احساس ان کا خاصہ تھا ۔مضمون پر پکڑ اتنی کہ نثر کے ایک پیراگراف کے ضمن میں مختلف موضوعات پر سیر حاصل گفتگو کرتے ۔ نظم و غزل کے ایک ایک شعر کی شرح میں دو دو ،تین تین دن صرف ہوجاتے مگر تشنگی باقی رہتی ۔ انہیں نصاب کی فکر نہیں ہوتی تھی ۔ وہ طلبہ میں علمی لیاقت و صلاحیت پیدا کرنے میں یقین رکھتے تھے ۔ ان کی نظر میں ذہین اور کند تمام بچے یکساں ہوتے۔ طلبہ بھی اسی معیار کے ہوتے ۔ محنتی، علم کا شغف رکھنے والے ۔ اساتذہ کی عزت کرنے والے ۔ استادوں کا ادب و احترام کرنے والے۔ ان کا حکم ماننے اور ان سے ڈرنے والے ۔
اب سب کچھ بدل گیا ہے ۔ پورا تعلیمی نظام بدل گیا ہے ۔ اب تدریس کا پیشہ خدمت نہیں صرف ایک ایک نوکری رہ گیا ہے ۔ اب اس شعبہ میں بھی کالی بھیڑیں گھوس گئی ہیں ۔ بد عنوانی عام ہے ۔ ڈونیشن کے نام پر موٹی موٹی رقم اینٹھی جاتی ہے ۔ رشوت لے کر بچوں کو کامیاب کیا جاتا ہے ۔ سوالیہ پرچے قبل از امتحان لیک کردیے جاتے ہیں ۔ الا ماشاء اللہ ۔ ایسے اساتذہ بھی ہیں جو تدریس کو اس پرفتن دور میں بھی خدمت کے طور پر اپنائے ہوئے ہیں ۔ اور ان طلبہ کی تعداد بھی کم نہیں جو محنت و لگن کے ساتھ نہ صرف تعلیم حاصل کرتے اپنے اساتذہ کا ادب و احترام بھی کرتے ہیں ۔
ہر سال 5 ستمبر کو ” یوم اساتذہ ” بڑے اہتمام سے منایا جاتا ہے ۔ اسکول و مدارس اور دیگر تعلیمی اداروں میں تقاریب کا انعقاد کیا جاتا ہے ۔ معلمین و معلمات کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے ۔ ان کی خدمات کو سراہا جاتا ہے ۔ ان کی قربانیوں کا اعتراف کیا جاتا ہے ۔ ان کی عزت افزائی کی جاتی ہے ۔ انہیں تحفے تحائف دیے جاتے ہیں ۔ ان سے محبت و خلوص کا اظہار کیا جاتا ہے ۔ ان کا مان سمان کیا جاتا ہے ۔ یہ سب کچھ اپنی جگہ درست ہے ۔ مگر اساتذہ کی حقیقی خدمت ان کی مشکلات کا کم کرنا ہے ۔ انہیں غیر ضروری ذمہ داریوں سے دور رکھنا ہے ۔ وقت پر مشاہرہ دینا ہے ۔ ان کی خبر گیری کرنا ہے۔ ابھی بھی مخلص اساتذہ کی کمی نہیں ہے ۔ اللہ تعالی ہمارے اساتذہ کو دارین کی سعادت سے نوازے ،انہیں جزائے خیر عطا فرمائے آمین ۔