[ad_1]
بادشاہ نوشیروان اپنی ملکہ کے ساتھ سیر کو نکلا تھا۔ صحرا میں انھوں نے ایک بوڑھے لکڑہارے کو دیکھا جو لکڑیوں کا گھٹا لادے ہوئے ہانپتا کانپتا اور قدم قدم پر لڑکھڑاتا ہوا جارہاتھا۔بادشاہ نے کہا یہ بڑا احمق اور عاقبت نااندیش آدمی ہے۔اس نے اگر اپنی جوانی میں کچھ بہتر انداز اختیار کیا ہوتا تو اب اس بڑھاپے میں یہ حال نہ ہوتا۔لیکن ملکہ نے بادشاہ سے اختلاف کرتے ہوئے کہا، قصور اس کا نہیں ہے بلکہ اس کی بیوی کا ہے اگر وہ کوئی لائق عورت ہوتی تو آج اس بیچارے کا یہ حال نہ ہوتا۔ یہ عورت ہی ہے جو گھر بنانے سنبھالنے اور مستقبل سنوارنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
بادشاہ کو ملکہ کی یہ بات بُری لگی دونوں میں بحث و تکرار ہونے لگی۔ ملکہ عورتوں کی طرف داری کررہی تھی اور بادشاہ مردوں کا جانب دار تھا۔آخر بادشاہ کو غصہ آیا اور ملکہ سے الگ ہوتے ہوئے کہا آج میں تجھے یہیں چھوڑے جا رہا ہوں، دیکھتا ہوں تم کیسے خود کو سنبھالتی ہو۔ملکہ اس بوڑھے لکڑہارے کے پیچھے ہولی، لکڑ ہارے نے بازار میں لکڑیاں بیچ دیں اور بازار سے روٹی ترکاری خرید کر گھر پہنچا، ملکہ بھی اس کے پیچھے تھی گھر میں لکڑہارے کی بیوی تھی، دونوں نے مل کر کھانا کھایا۔تو ملکہ نے ان کے پاس جاکر کہا کہ میں ایک بے سہارا عورت ہوں اگر آپ مجھے گھر میں رکھ لیں تو میں بیٹی کی طرح آپ کی خدمت کروں گی۔
لکڑہارے نے کہا کہ ہمارا تو بمشکل گزارا ہوتا ہے۔ملکہ نے کہ آپ فکر نہ کریں میں آپ کی بچی ہوئی روکھی سوکھی میں گزارا کرلوں گی۔دوسرے دن لکڑہارا کام پر جانے لگا تو ملکہ نے کہا کہ آج لکڑیاں بیچنے کے بعد روٹی سالن کے بجائے اناج اور دال لائیں، میں اناج پیس کر روٹی بناؤں گی اور دال بھی پکا دوں گی۔ ملکہ نے اس اناج اور دال میں سے آدھا آدھا پکا لیا، اور بوڑھے کو دکھا کر کہا کہ کل جو پیسے ملیں آدھے پیسوں سے سامان لائیں اور آدھے پیسے گھر لے آئیں۔اسی طرح چند روز میں لکڑہارے کے پاس کچھ پیسے جمع ہوگئے تو ملکہ نے پیسے نکال کر بوڑھے کو دیتے ہوئے کہا کہ اس سے ایک گدھا خرید لیں اور آیندہ لکڑیاں گدھے پر لاد کر لایا کریں۔ بوڑھے نے اب پہلے سے زیادہ لکڑیاں لانا شروع کیں۔تو آمدنی بڑھ گئی پھر ملکہ نے بوڑھے سے کہا کہ ایک دن کی لکڑیاں بیچا کریں اور ایک دن کی لکڑیاں کسی جگہ جمع کریں۔
ایسے ان کے پاس بہت سی لکڑیاں جمع ہوگئیں۔ اور جب سردی کے موسم میں لکڑیوں کی مانگ بڑھی اور قیمت چڑھی تو بیچ ڈالیں۔اتنی بڑی رقم پاکر بوڑھا اور بوڑھی پھولے نہیں سما رہے تھے۔اب بیٹی کے مشورے پر بوڑھے نے لکڑیوں کاکام چھوڑ دیا اور ایک اچھی جگہ پر دکان کھول لی، دکان چل نکلی لکڑہارا سیٹھ ساہوکار بن گیا، اس کے بعد ملکہ نے کہا کہ دکان میں اتنا فائدہ نہیں جتنا تجارت میں ہے چنانچہ بوڑھا اب تاجر بن گیا ۔آہستہ آستہ شہر کے معززین میں اس کا شمارہونے لگا۔ٹوٹے پھوٹے مکان کی جگہ اب وہ ایک عالی شان محل بناکر اس میں رہنے لگے۔ پھر ملکہ نے ایک دن لکڑہارے سے کہا کہ بادشاہ کو کھانے کی دعوت دے۔لکڑہارا جو اب شہر کے چند گنے چنے روساء میں شامل تھا اس نے جب بادشاہ کو دعوت دی تو بادشاہ نے خوشی سے قبول کرلی۔مقررہ دن پر بادشاہ اپنے خاص خاص وزیروں کے ساتھ اس محل پہنچا تو ہر ہر چیز کو دیکھ کر حیران ہوتا رہا۔لکڑہارے نے بتایا کہ یہ سب میری بیٹی کا کمال ہے۔
بادشاہ کو اس کی بیٹی سے ملنے کا اشتیاق ہوا تو بیٹی سامنے آگئی لیکن نقاب و حجاب کے ساتھ۔چنانچہ بادشاہ اسے نہیں پہچان سکا لیکن اس کے رکھ رکھاؤ،بات چیت اور انداز و اطوار سے اس پر فریفتہ ہوگیا اور اسے ملکہ بنانے کی پیش کش کی اس پر ملکہ نے نقاب ہٹاکر کہا۔میں تو پہلے ہی سے آپ کی داسی ہوں بادشاہ اسے دیکھ کر ششدر رہ گیا۔پھر ملکہ نے ساری کہانی سناتے ہوئے کہا کہ میرا یہ منہ بولا باپ جو اس وقت ملک التجار ہے وہی غریب اور ضعیف لکڑہارا ہے۔پھر اس نے بتایا کہ یہ سب کچھ اسی کی اپنی آمدنی کو سلیقے سے استعمال کرنے کا نتیجہ ہے۔ہاں تو(77) سال کے بوڑھے بچو۔تم نے اس کہانی سے کیا سبق حاصل کیا ؟ تم میں سبق حاصل کرنے کی صلاحیت ہوتی تو اب تک لکڑیوں کے گھٹے کے نیچے کیوں ہانپ رہے ہوتے، تم لکڑہارے تھے لکڑہارے ہو اور لکڑہارے ہی رہوگے ۔
[ad_2]
Source link