عمران خان کیوں اور کیوں نہیں؟ سلیم مغل

عمران خان کیوں اور کیوں نہیں؟ نشر مکرر

عمران خان سے میری پہلی ملاقات کلکتہ کے ہوٹل گرانڈ میں اس وقت ہوئی جب آصف اقبال کی قیادت میں پاکستان بھارت کے خلاف اپنا آخری میچ ایڈن گارڈن میں کھیل رہا تھا۔ یہ غالباً جنوری 1980کی بات ہے جب ہم کراچی یونیورسٹی طلبا یونین کے وفد کے ہمراہ کلکتہ پہنچے اور کلکتہ یونیورسٹی کے مہمان ہوئے… کرکٹ کے سب ہی کھلاڑیوں سے ملاقات ہوئی مگر عمران خان کو سب کھلاڑیوں سے الگ تھلگ، ملنے جلنے اور بات کرنے میں ایک خاص طرح کا فاصلہ رکھتے ہوئے دیکھا تو ہم نے اسے بھی موصوف کی اداجانا اور اس پر مر مٹے۔
جن دنوں میں یونیسیف کے لئے کام کیا کرتا تھا، عمران خان یونیسیف کے اعزازی سفیر تھے۔ اس حوالے سے بھی کچھ ملاقاتیں رہیں لیکن پہلی مفصل ملاقات ایک ہوائی سفر کے دوران اُس وقت ہوئی جب لاہور سے کراچی آتے ہوئے اکنامی کلاس کی اگلی نشستوں پر میں نے عمران خان کو اپنے برابر والی نشست پہ بیٹھے ہوئے دیکھا۔ میں عمران خان کی اس خوبی کا بھی معترف ہوا کہ جو شخص بزنس کلاس میں بہ آسانی سفر کرسکتا ہے وہ اکنامی کلاس میں ہمارا ہم سفر ہے۔ واقعی ایک عوامی راہ نما کو ایسا ہی ہونا چاہیئے۔میں نے عمران خان سے اپنا تعارف کلکتہ کی ملاقات، جامعہ کراچی اور یونیسیف کے نسیم بھائی کے حوالے سے کروایا۔ یوں کراچی تک گپ شپ کی ایک صورت نکل آئی۔ ڈیڑھ گھنٹے کی اس فلائٹ میں ہمارا موضوع ’’الطاف حسین اور ایم کیو ایم‘‘ ہی رہے۔ عمران خان نے مجھ سے میرا وزٹنگ کارڈ لیا اور پھر اس وقت تو میری حیرت اور خوشی کی انتہا نہ رہی جب میں نے اپنے گھر کے پتے پر اپنے نام عمران خان کا عید کارڈ وصول کیا۔ یقیناًعمران خان نے میرا کارڈ اپنی میلنگ لسٹ میں ڈال دیا ہوگا۔ اس سے کہیں زیادہ خوشی اس وقت ہوئی جب چند روز بعد برادرم عارف علوی کے بیٹے کی شادی میں عمران خان سے ملاقات ہوئی اور اُنہوں نے مجھے ’’مغل صاحب‘‘ کہہ کر مخاطب کیا۔ میرے نام کا اگر ایک حصہ بھی عمران خان کو یاد رہ گیا تو میرے لئے یہ بھی معمولی بات نہ تھی۔ یہ وہ انسانی وصف ہے جس سے نواز شریف کو اللہ تعالیٰ نے یکسر محروم رکھا ہے۔ مجھے عمران خان فاؤنڈیشن کے ساتھ بھی کام کرنے کا موقع ملا اور میں نے چند ماہ تک اپنی دوست عافیہ کے ساتھ مختلف نوعیت کے کام کئے جن میں ٹھٹھہ اور سجاول میں ہونے والے بہت سے فلاحی کام اور دستاویزات کی تراجم وغیرہ جیسے کام شامل تھے۔
عمران خان کے سیاست میں آنے سے قبل کے دور کو بھی میں قدرے قریب سے جانتا ہوں جب عمران خان کافی عرصے تک یہ سوچتے رہے کہ میں سیاست کی طرف جاؤں یا تعلیم کے لئے کام کروں۔ عمران خان کے ذہن میں ’’Hut Schools‘‘کے ایک بڑے نیٹ ورک کا ایک قابل عمل نقشہ بھی موجود تھا جسے پاکستان میں بنیادی تعلیم کے فروغ کے لئے اہم کردار ادا کرنا تھا۔ میں یہی دعا کرتارہا کہ عمران خان سیاست کی طرف نہ جائیں اور تعلیمی انقلاب پر اپنی توجہ مرکوز کر دیں۔ میں اس بات پر آج بھی کامل یقین رکھتا ہوں کہ پاکستان کے بیشتر مسائل کی جڑیں جہالت اور لاعلمی کے غلیظ جوہڑمیں اتری ہوئی ہیں اور بہ یک وقت اعلیٰ اور بنیادی تعلیم کے فروغ کے بغیر ان مسائل سے چھٹکارا ممکن نہیں۔ میں نے یہ تہیہ کررکھا تھا کہ اگر عمران خان نے تعلیم کے لئے کام کا آغاز کیا تو میں زندگی بھر کے لئے ان کا کارکن ہونا پسند کروں گا مگر ایسا نہیں ہوا اور عمران خان نے سیاست کو اپنی جدوجہد کے لئے عملی میدان کے طور سے منتخب کیا۔
پاکستان کے موجودہ سیاسی منظر نامے میں عمران خان کی سیاست میں آمد بھی مجھے اچھا شگون لگا۔ آکسفورڈ کا پڑھا ہوا عمران، کرکٹ کا ہیرو عمران، آہنی اعصاب اور مضبوط ارادے والا عمران، نمل اور شوکت خانم والا عمران مجھے نہ صرف اچھا لگنے لگا بلکہ میں عمران خان کو پاکستان کے مسائل کے حوالے سے نجات دہندہ بھی سمجھنے لگا۔ یوں ایک ذہنی اور قلبی تعلق مستحکم ہونے لگا۔ مجھے اپنے دوستوں عارف علوی اور نجیب ہارون کی پی ٹی آئی میں شمولیت پر بے انتہا خوشی ہوئی۔ کراچی کے حوالے سے ایم کیو ایم کے مقابل ڈٹ جانے اور بہت دلیری کے ساتھ ااپنے موقف پر قائم رہنے والے طرز عمل کی وجہ سے میں عمران خان کا پرستار ہوگیا۔ گذشتہ انتخابات میں مجھ سمیت میرے تمام اہل خانہ نے عمران خان کو ہی ووٹ دئیے اور انتخابی معرکے میں غیر معمولی کامیابی کے باوجود حکومت نہ بنا سکنے پر ہم سب بہت دل گیر بھی ہوئے۔
نواز شریف اقتدار میں آگئے، عمران خان نے ان نتائج پر اپنے تحفظات کااظہارتو کیا مگر پھر نتائج کو تسلیم بھی کرلیا۔کچھ ہی عرصے میں عمران خان نے لاہور کے چار انتخابی حلقوں کے نتائج پر سوال اٹھا دئیے۔ میرے لئے چار حلقوں پر اعتراض حیران کن اس لئے بھی تھا کہ انتخابی دھاندلی تو پاکستان کے بہت سے حلقوں میں ہوئی جن میں کراچی سمیت کئی شہروں میں عمران خان کی یقینی کامیابی شکست میں بدل گئی لیکن اعتراض صرف مسلم لیگ کے حلقوں پر ہوا۔ واضح رہے کہ میں تین بار انتخابات میں پریزائیڈنگ آفیسر رہ چکا ہوں اور انتخابی عمل کے بہت سے اندرونی معاملات کو بہت قریب سے جانتا ہوں۔ کراچی کے کئی حلقوں میں عمران خان جیت رہے تھے لیکن ایم کیوایم نے انتخابی نتائج اُلٹ کر رکھ دئیے۔ عمران خان نے کراچی کے حلقوں کی دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیوں نہیں کیا ؟ کراچی کے علاوہ بھی اندرون سندھ کے بعض شہری حلقوں میں عمران خان کامیابی کے قریب تھے مگر وہاں بھی نتائج تبدیل ہوئے لیکن عمران خان نے زبان بند رکھی۔ بہت ہی کم وقت میں یہ بات سب پر عیاں ہونے لگی کہ عمران خان کا ہدف صرف اور صرف نواز شریف ہیں۔ ہماری سادگی دیکھیں کہ ہم نے اسے بھی عمران خان کی سیاسی حکمت عملی سمجھا اور اپنے آپ کو یہی سمجھاتے رہے کہ عمران خان اپنے مضبوط ترین حریف کے قلعے میں دراڑ ڈالنے کی خاطر ایسا کررہے ہیں اور ایسا کرنے میں حرج ہی کیا ہے۔
اس عرصے میں چھوٹی چھوٹی شکایتوں کا سلسلہ تو شروع ہوہی چکا تھا۔ عمران خان کا مستقل کنٹینر پر کھڑے ہو کرمخالفین کے لئے ’’اوئے‘‘ اور ابے تبے‘‘ والی زبان استعمال کرنا۔
جلسہ گاہ میں تلاوت کے ساتھ موسیقی اورلڑکیوں کے رقص۔
تلنگوں کی ٹھرک بازیاں اور پھر خواتین کا گھیراؤ اور انہیں ہراساں کیا جانا(یوٹیوب پر دیکھیں) ان ساری باتوں سے دل خراب تو ہوا لیکن میں اپنے آپ کو سمجھاتا رہا کہ جلسے جلوسوں اور بڑے پروگراموں میں ایسا ہو ہی جاتا ہے… اس میں عمران خان کا کیا قصور؟
ایک روز انگلستان سے میرے ایک دوست کا فون آیا کہ ’’جو قوتیں عمران خان کو اقتدار میں لانا چاہتی ہیں وہ لندن میں طاہرالقادری اور عمران خان کی ملاقات کا اہتمام کروا رہی ہیں۔‘‘میں نے اس خبر کو صریحاً غلط یا افواہ جانا اور اسے قابل اعتبار نہ سمجھتے ہوئے اس پر کوئی توجہ نہ دی۔
طاہرالقادری کے حوالے سے میں بہت سی اہم معلومات سے واقف تھا کہ کس طرح وہ بیرونی مدد کے ساتھ خاموشی سے ایک نیٹ ورک بنا رہا ہے۔ ان کی فنڈنگ کہاں سے آتی ہے اور انہوں نے اپنے مفادات کے لئے اسلامی تصورات کو بگاڑنے میں کیا کردار ادا کیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ وہ عیسائی مذہبی اداروں کی ہمدردیاں سمیٹنے کے لئے خود بھی سراپا ’’پوپ‘‘ بن گئے ہیں۔
میں اپنے دوستوں اور پڑھنے والوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ میں نے ایک عرصے تک ان اداروں کے متعلق پڑھا ہے جو دنیا کے نظام کو غیر محسوس طریقے سے کنٹرول کرتے ہیں، جن کے وسائل ہمارے تصور سے زیادہ اور جن کا نیٹ ورک ہمارے وہم و گمان سے بھی بڑا ہے۔ اس کے باوجود میں نے یہی سوچا کہ عمران خان اور طاہر القاداری کا ملاپ ممکن نہیں۔دونوں کا کلچر، فکر، نقأ نظر سب کچھ 180کے زاوئیے پر ایک دوسرے سے مختلف ہے مگر اس روز تو وہ شیش محل چھناکے سے ٹوٹ گیا جو میں نے برسوں میں کہیں عمران خان کے لئے تعمیر کیا تھا۔طاہر القادری اور عمران خان یک جان ہوکر اسلام آباد میں دھرنا دینے چلے آئے۔
انگلستان سے ملنے والی اطلاع درست تھی، میں اپنے دوست سے بڑا نادم سا ہوا…. آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ میں نے ’’سچ ٹی وی‘‘ کے ایک ٹاک شو میں یہ بات سب سے پہلے بتائی کہ عمران خان اور طاہر القادری کی ملاقات لندن میں کروائی گئی ہے۔ اس ٹی وی پروگرام میں نصرت مرزا اور حیدرآباد سے آئے ہوئے ایک اور مہمان بھی شریک تھے۔ مگر میری بات سنی ان سنی ہوگئی اور حد تو یہ ہے کہ پروگرام کے شرکا نے بھی میری بات کو سرے سے کوئی اہمیت نہ دی۔ مجھے پہلی بار یہ اندازہ ہوا کہ اہم سے اہم بات بھی جب مجھ جیسا غیر اہم آدمی کرے گا تو اسے کوئی اہمیت نہ دے گا لیکن اگر قدرے کم اہم بات بھی کوئی معروف شخصیت کرے گی تو وہ Talk of the town بن جائے گی۔ سو وہی ہوا کہ چند روز بعد یہی بات کسی اور نے ٹی وی شو میں کہی اور اُس پر دانشورانہ تجزیوں کا آغاز ہوگیا۔

دھرنا نمبر ۱ پھر دھرنا نمبر ۲ اور پھر ان دھرنوں میں جو کچھ ہوا وہ میرے لیئے تو کافی تکلیف دہ تھا۔

چینی صدر کا دورہ منسوخ ہونا۔
بجلی اور گیس کے بل ادا نہ کرنے کا اعلان۔
پاکستان ٹیلی ویژن کو تہس نہس کردینا۔
سپر یم کورٹ اور اسمبلی کے باہر کا خوبصورت علاقہ دھوبی گھاٹ بنا دینا۔
قبریں کھودنا۔ درخت اور پودے اجاڑنا.
غلاظت پھیلانا اور اسلام آباد میں آباد غیر ملکیوں سمیت تمام شہریوں کی زندگی اجیرن بنا دینا۔
یہ سب کچھ عمران خان کی موجودگی میں ان کی اجازت و آمادگی کے ساتھ ہوااور ان سب سے بڑھ کر ’’ایمپائر کی انگلی‘‘والا نعرہ عمران خان کے جمہوری کردار کے حوالے سے بہت سے شکوک و شہبات چھوڑ گیا۔
عمران خان کی سیاست میں آمد سے قبل میں حکیم سعید شہیدکی وہ تحریر بھی پڑھ چکا تھا جس میں انہوں نے واضح طور پر لکھا تھا کہ انگلستان میں ایک لیڈر تیار ہورہا ہے جسے بعد ازاں پاکستان میں اتارا جائے گا۔یہ تحریر کچھ یوں تھی…
’’بیرونی قوتوں نے ایک سابق کرکٹر عمران خان کا انتخاب کیا ہے یہودی میڈیا نے عمران خان کی پبلسٹی شروع کردی ہے، سی این این اور بی بی سی عمران خان کی تعریف میں زمین و آسماں کے قلابے ملارہے ہیں، پاکستانی میڈیا کو کروڑوں روپے دئیے جاچکے ہیں، ایک یہودی خاتون جمیما گولڈ سمتھ جس کے والد ارب پتی یہودی ہیں عمران خان کی دلہن بنانے کی تیاریاں ہورہی ہیں‘‘۔ حکیم محمد سعید آگے سوال اٹھاتے ہیں کہ ’’میرے نوجوانوں! کیا پاکستان کی اگلی حکومت یہودی الاصل ہوگی۔‘‘
میں نے ایک بار یونہی حکیم صاحب سے پوچھ لیا کہ یہ بات آپ نے محض گمان کی بنیاد پہ لکھی ہے یا آپ کے پاس کوئی مصدقہ اطلاع ہے۔ حکیم صاحب نے برجستہ کہا ’’میاں! گمان کی بنیاد پر کسی کے لئے کچھ غلط کہنا تو گناہ ہے۔‘‘
نہ جانے ایسا کیوں ہے کہ جب آپ عمران خان کے خلاف کچھ بھی لکھتے یا بولتے ہیں تو بدزبانوں اور بد کلاموں کی ایک فوج ظفر موج آپ پر پل پڑتی ہے اور آپ پر لعن طعن شروع کردیتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ آپ کو فوری طور پر نواز شریف کا ساتھی یا وکیل ثابت کرنے لگتی ہے اور عمران مخالف شخص کا نام ” پٹواری” تو رکھ ہی دیا جاتا ہے۔ میں نے پاکستان میں کسی سیاسی جماعت کے کارکنان کو اتنا غیر شائستہ نہیں پایا جتنا تحریک انصاف کے کارکنوں کو۔
میں یہاں یہ عرض کردوں کہ میں نواز شریف سمیت ان کی ٹیم کے بیشتر لوگوں کے لئے بھی اچھی رائے نہیں رکھتا۔ میں ان میں سے بیشتر کے لئے ’’ٹیکنیکل کرپٹ‘‘کی اصطلاح استعمال کرتا ہوں۔ یہ لوگ ٹیکس بچاتے ہیں اور حکومت میں رہتے ہوئے ایسے مواقع پیدا کرتے ہیں جس سے ان کے تجارتی اداروں کی آمدنی کئی گناہ بڑھ جاتی ہے۔ پاکستان پر قرضوں کا بوجھ لاد دینے کا جو ظلم گذشتہ حکومت نے کیا ہے انہیں اندازہ نہیں کہ یہ معاشی بوجھ آخر کار ہمیں بلیک میل کرنے کا طاقت ور حربہ ثابت ہوگا۔
میں نے یہاں عمران خان کی ذاتی زندگی کے حوالے سے کچھ بھی لکھنے سے گریز کیا ہے۔ حالانکہ یہ وہ میدان ہے جہاں عمران خان پر پورے دبستان تخلیق کئے جاسکتے ہیں۔
عمران خان کو میدان سیاست میں جدوجہد کرتے ہوئے 18سے 20سال کا عرصہ ہونے کو آیا۔ سیاسی بلوغت کے حصول کے لئے یہ مدت کم تو نہیں مگر مجھے ایسالگا جیسے عمران خان نے ہر صورت میں انتخاب جیتنے اور وزارت عظمیٰ کے منصب تک پہنچنے کے لئے ہر جائز و ناجائز ، غلط اور درست، حلال و حرام سب کچھ اختیار کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان نے پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے منتخبہ مگر بری شہرت رکھنے والے سیاسی ارکان کو نہ صرف دل سے قبول کرلیا بلکہ Electable کی نئی اصطلاح کے ساتھ انہیں اپنے پلیٹ فارم سے انتخاب لڑنے کا اجازت نامہ بھی دیا۔
شادی عمران خان کا ذاتی معاملہ ہے مگر کسی کے گھر پر نقب لگا کر شادی کرنے کی اجازت تو دنیا کا کوئی بھی دین و دھرم نہیں دیتا۔ سو اگر سوشل میڈیا پر یہ موضوع یہ مذاق بن کر رہ گیا ہے تو اس پر ناگواری کیسی۔
بہت سی خواتین کی طرف سے جنسی طور پر حراساں کیے جانے کے الزامات بھی عمران خان پرعائد کیے جاتے رہے جسے بہت طاقت ور پروپگینڈہ مہم کی مدد سے دبا دیا گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بہت سی خواتین جوکچھ کہنے کے لئے اپنی ہمت مجتمع کررہی تھیں وہ بھی ہمت نہ کرسکیں اور اُنہوں نے چپ سادھ لی۔
عمران خان کے گھر پر ان کی بہ ظاہر تیسری اہلیہ کی جانب سے جادو، سفلی اور عملیات کی خبریں بھی میڈیا پہ آتی رہی ہیں۔ یہ خبریں درست نہ بھی ہوں تب بھی غیر اللہ کے مزار پہ سجدہ کرنا اور بعد ازاں اس کی رنگ برنگی تاویلیں پیش کرنا پاکستان بھر کے پڑھے لکھے لوگوں کو یہ سوچنے پر مجبور کررہا ہے کہ وہ عمران خان کے بارے میں اپنی رائے پر از سر نو غور کریں ۔
مجھے یہ بھی یقین ہے کہ عمران خان یہ انتخابات واضح اکثریت سے نہیں جیت پائیں گے البتہ اس کے عقب میں موجود قومی اور عالمی طاقتیں شائد اسے کسی نہ کسی طرح ایوان حکومت تک پہنچانے میں کامیاب ہوجائیں ۔ اگرایسا ہوگیا تو عالمی طاقتوں کا نیا کھیل اس خطے میں بہ آسانی شروع ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے۔