[ad_1]

اپنے پچھلے کالم میں، میں نے امن اور آج کے تناظر میں اس کی اہمیت پر لکھا تھا۔ آج کے کالم میں، میں تین ایسی خواتین کے بارے میں لکھ رہی ہوں جو تین مختلف براعظموں سے تعلق رکھتی ہیں لیکن ان کا مقصد ایک تھا امن اور انسانی حقوق کا تحفظ اور فروغ۔ ان تینوں نے اپنی زندگیاں اس عظیم مقصد کے لیے وقف کردیں۔ یہ تین عظیم خواتین تھیں، یورپ سے برتھا وان سٹنر، افریقہ سے وانگاری ماتھائی اور ایشیا سے ملالہ یوسفزئی۔ان خواتین کی جدوجہد نہ صرف ان کے اپنے ممالک بلکہ عالمی سطح پر امن کے فروغ کا باعث بنی۔

برتھا وان سٹنر نے امن کی اہمیت کو پہچانا اور اس کے فروغ کے لیے اپنی زندگی وقف کی۔ انھوں نے اس وقت امن کے لیے کام کیا جب قوم پرستی کے جذبات عروج پہ تھے۔ برتھا کی کتاب Lay Down Your Arms  جس کا اردو میں مفہوم ہے ’’ اپنے ہتھیار ڈال دو‘‘ 1889 میں شایع ہوئی تھی اور اس نے دنیا بھر میں امن کے نظریات کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ یہ کتاب جنگ کی تباہ کاریوں اور انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف ایک نوحہ تھی۔

برتھا اس بات پہ یقین رکھتی تھیں کہ جنگ انسانیت کی بقا کے لیے نقصان دہ ہے اور صرف بات چیت کے اور سفارت کاری کے ذریعے ہی مسائل کا حل ممکن ہے۔برتھا کی امن کے لیے جدوجہد نے نہ صرف یورپ بلکہ دنیا بھر میں امن کے متوالوں کو متاثرکیا۔ ان کی امن کے فروغ کے لیے کوشش اور جدوجہد کے نتیجے میں ان کو 1905 میں نوبل امن انعام سے نوازا گیا۔ ان کی بدولت الفریڈ نوبل نے نوبل امن انعام کی بنیاد رکھی۔ برتھا کا قول ’’ اگر ہم ہتھیار ڈال دیں تو انسانیت کی اصل جیت ہوگی ‘‘ بہت مشہور ہے۔ ان کا یہ قول آج بھی دنیا بھر میں امن پسندوں کے لیے مشعل راہ ہے۔

وانگاری ماتھائی کی زندگی سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ امن کا راستہ صرف سیاسی جدوجہد میں نہیں بلکہ فطرت اور ماحول کی حفاظت میں بھی ہے۔ وانگاری ماتھائی کا تعلق کینیا سے تھا۔ ان کا زیادہ وقت کینیا میں موسمیاتی تحفظ کے کاموں میں گزرا۔ 1977 میں وانگاری نے گرین بیلٹ موومنٹ کی بنیاد رکھی۔ اس تنظیم کا مقصد جنگلات کی بحالی، درختوں کی شجرکاری اور ماحول کا تحفظ تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے خواتین کے حقوق کے لیے بھی آواز اٹھائی۔ وانگاری نے نہ صرف لاکھوں درخت لگائے بلکہ اس نے عورتوں کو آزادی اور خود مختاری کی راہ دکھائی۔

اس کا کہنا تھا کہ درخت لگانا ایک خاموش احتجاج ہے۔ وہ اس طرح اپنے سماج اور اپنے مستقبل کو بہتر بنانے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔اس کا ماننا تھا کہ امن کا قیام تبھی ممکن ہے جب انسان اپنی زمین اور فطرت کے ساتھ توازن میں رہے۔ اسے 2009 میں نوبل امن انعام سے نوازا گیا۔ اس کی تحریک دنیا بھر میں امن اور ماحول کی حفاظت کی علامت بن گئی۔ وانگاری کے نظریے نے یہ ثابت کیا کہ ماحولیات، سیاست اور انسانی حقوق آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔

تین مختلف براعظموں سے تعلق رکھنے والی یہ خواتین برتھا وان سٹنر، وانگاری ماتھائی اور ملالہ کی زندگیاں ہمیں یہ سبق دیتی ہیں کہ امن کی راہ پر چلنے کے لیے جرات اور مسلسل جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ خواتین اس بات کی علامت ہیں کہ امن کی جستجو میں جنس، مذہب یا جغرافیہ کی کوئی قید نہیں۔ امن کی تحریک ایک مسلسل عمل ہے اور یہ بات بھی واضح ہے کہ جب تک دنیا میں ظلم، ناانصافی اور جنگ کا عفریت باقی ہے امن کی جدوجہد بھی جاری رہے گی۔اگر ہم تاریخ پہ نظر ڈالیں تو ہمیں بے شمار ایسی مثالیں ملتی ہیں جہاں عورتوں نے جنگوں کو روکنے، تشدد کوکم کرنے اور معاشرتی ہم آہنگی کو فروغ دینے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

عالمی سیاست میں عورتوں کا کردار تیزی سے بڑھ رہا ہے، وہ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں میں اہم عہدوں پر فائز ہوکر نہ صرف عالمی سطح پہ امن کے قیام کی کوشش کر رہی ہیں بلکہ قوموں کے درمیان اختلافات کو ختم کرنے میں بھی اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔آج کے دور میں عورت کو مزید با اختیار بنانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ معاشرتی مسائل کو حل کرنے اور امن کے فروغ میں مزید موثرکردار ادا کر سکے۔تعلیم، حقوق اور سیاسی مواقعے کی فراہمی اس سلسلے میں نہایت ضروری ہے، اگر ہم ایک پر امن اور خوشحال دنیا کا خواب دیکھتے ہیں تو ہمیں عورتوں کو وہ مقام دینا ہوگا جس کی وہ حق دار ہیں۔ تنازعات کے حل اور امن کے قیام میں خواتین کی شمولیت نا گزیر ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ خواتین کو فیصلہ سازی کے عمل میں شامل کیا جائے اور انھیں برابرکے مواقعے فراہم کیے جائیں۔

تیسری جس خاتون کا میں ذکرکرنا چاہوں گی، وہ ہیں ملالہ یوسفزئی۔ ملالہ کا تعلق سوات، پاکستان سے ہے۔ طالبان کی جانب سے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کے خلاف آواز اٹھانے کی وجہ سے 2012 میں ملالہ پر قاتلانہ حملہ کیا گیا، تاہم وہ اس حملے میں زندہ بچ گئیں اور اس واقعے کے بعد ان کی آواز مزید مضبوط ہوگئی، وہ خصوصا ان علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم کے حق میں جرات مندانہ آواز اٹھانے کی وجہ سے جانی جاتی ہیں جہاں تعلیم تک رسائی محدود ہے۔

ملالہ نے اپنی زندگی کو تعلیم کے فروغ اور دنیا بھرکی لڑکیوں کے حقوق کے لیے وقف کردیا ہے، وہ دنیا بھر میں امن، مساوات اور انصاف کے لیے جدوجہد کرنے والی ایک علامت بن چکی ہیں۔

2014 میں ملالہ کو نوبل امن انعام سے نوازا گیا جس کے ساتھ وہ انعام حاصل کرنے والی کم عمر ترین شخصیت بن گئیں۔ ملالہ کا پیغام ہے کہ ہر بچے کو تعلیم حاصل کرنے کا حق حاصل ہونا چاہیے ،چاہے وہ کسی بھی جنس، ملک یا مذہب سے تعلق رکھتا ہو۔



[ad_2]

Source link

By admin