[ad_1]
حکمران جماعت کو ہوش میں آنا ہوگا ورنہ…
حکمراں جماعت مسلسل تیسری باربرسراِقتدار ہے، لہٰذاہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ ملک ومعاشرت کی تعمیر و ترقی میں یادگاراور انمٹ نقوش چھوڑجاتی، ہرچہار جانب قومی یکجہتی ، اُخوت ومروت ، اتحاد واتفاق اور محبت و یگانگت کے ترانے گائے جاتے اور فرقہ پرستی کی جگہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کاماحول سازگار ہوتا۔ لیکن افسوس صد اَفسوس کہ یہ آج بھی اپنی غیردانشمندانہ حرکتوں اوراپنی پُرانی روشوں پرقائم ہے کہ نفرت انگیزیوں کو ہی اپنا وطیرہ بنائے ہوئی ہے۔ حالاں کہ اِنہی نفرت انگیزیوں کے باعث ۲۰۲۴ء کے انتخاب میں حکمراں جماعت آسمان سے سیدھے زمین پر آگئی ہے، لیکن پھر بھی ہوش کا ناخن لینے کوتیار نہیں۔ بلکہ آج نوبت بایں جارسید کہ چھوٹی-موٹی سیاسی جماعتیں بھی آنکھیں دکھارہی ہیں اور حکمرں جماعت کو برداشت کرنا پڑرہا ہے، تو محض اِس لیے کہ اُنھیں سیاسی جماعتوں کی بیساکھیوں پر موجودہ حکومت کا دارومدار ہے۔ حکمراں جماعت آج کس حد تک مجبور ہے اِس کااندازہ ’’بجٹ: ۲۰۲۴ء‘‘سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے جو صرف اور صرف ’’بہار و آندھراپردیش نوازی‘‘ کانمونہ معلوم پڑتاہے۔ چوں کہ بہار کو خصوصی ریاست کادرجہ اور آندھراپردیش کو اِسپیکر کاعہدہ نہیں مل سکا، اِس لیے اُن ریاستوں کی ناراضی کے خوف نے ہی حکمراں جماعت کو مجبور کیا کہ بجٹ میں بہار و آندھراپردیش پربطور خاص توجہ دے کہ مبادا پایۂ تخت متزلزل نہ ہوجائے۔ لیکن اب دیکھنے والی بات یہ ہے کہ بہار اور آندھرپردیش پر جس قدر خزانے کا دہانہ کھولاگیا ہے وہ کس حد تک برقراررَہتا ہے، کیوں کہ تجربات کی روشنی میں دیکھا جائے تو حکمراں جماعت کی طرف سے کیے گئے زیادہ تر وعدے-اِراردے محض جملے بازی اور فائل کی حد تک ہی محدود رَہتے ہیں، اور اِس کی اصل وجہ یہ ہے کہ حکمراں جماعت کے تمام تر وعدے محض سیاسی ہوتے ہیں بلکہ درحقیقت اِس کے زیادہ تر اِعلانات وترجیحات تو’’ہاتھی کے دانت کھانے کے اور، دِکھانے کے اور‘‘ کے طرز پر ہوتے ہیں۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ جو جماعت، کامل حمایت کے ساتھ مسلسل دوبار برسراِقتدار آچکی ہو، وہ تیسری بار اِقتدار میں بنے رہنے کے لیے مختلف اورچھوٹی-موٹی سیاسی جماعتوں کی بیساکھیوں کا سہارا لینے پر مجبور ہے اور جو جماعت، کل تک بڑی سے بڑی سیاسی شخصیات کو بھی کسی خاطر میں نہیں لاتی تھی آج اُنہیں کے آگے جھکتی اور تعظیم بجالاتی نظر آرہی ہے، حکمراں جماعت کے لیے یہ مقام عبرت کے ساتھ مقام اِحتساب بھی ہے۔
اور اِسی پر بس نہیں بلکہ جس رام راج کے سہارے حکمراں جماعت مسلسل دوبار بلاشرکت غیر اِقتدار میں رہی اور دَس برسوں تک بڑے کروفر اورشان وشوکت کے ساتھ رہی، آج اُسی رام کی نگری میں وہ چاروں خانے چت نظر آرہی ہے، اور اَیودھیا اور بدری ناتھ جیسی پُر اعتمادسیٹوں پر بھی عوام الناس کے درمیان حکمراں جماعت کےاعتماد کاجنازہ نکل چکاہے۔ مزید حالیہ ضمنی انتخاب میں اِس جماعت کا اِس قدر بُرا حشر ہواہے کہ تیرہ میں سے صرف دوسیٹوں پر ہی اُسےکامیابی مل سکی ہے، یہ بھی آنکھیں کھولنے والی بات ہے۔ مگر چوں کہ یہ، ناقابل یقین حدتک اقتدار کےلالچی ہے اِس لیے کرسی سے جدائی کا خیال آتے ہی اِس جماعت پر ایک ہزیانی کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور اِس کا اثر یوں ظاہر ہوتا ہے کہ اِس کے قائدین زمینی حقائق کو سمجھنے اور اپنا محاسبہ کرنے کی بجائے ملکی اور معاشرتی سطح پر اکثریت و اقلیت کی کالابازاری شروع کردیتے ہیں، اُتردیش کے مکھیا کے نیم پلیٹ پر مشتمل موجودہ بیانات کو اِسی تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے۔ جب کہ یہ معلوم ہونا چاہیے کہ عوام الناس نے اُنہیں مسلسل دوبار اقتدار کی باگ-ڈور دِے کربخوبی دیکھ لیا ہے، سمجھ لیاہے اور بہر جہت آزما بھی لیا ہے، لہٰذا عوام الناس اب کسی طرح سے اِن کے جھانسے میں آنے والے نہیں۔ اِس کا ایک واضح ثبوت یہی ہےکہ اُترپردیش کے مکھیا نے مذہبی تہوار کے پردے میں جس طرح سےملکی و صوبائی پُربہار فضا کو مسموم کرنےکی کوشش کی تو اُسی انداز میں ہندوستانی عوام نے اُسے نہ صرف ناکام بنایا بلکہ اپنے صبر و ضبط اوراپنی قومی یکجہتی کا مظاہرہ کرکے یہ پیغام بھی دے دیا ہے کہ قومی یکجہتی، اِتحاد و اتفاق اورگنگا-جمنی مشترکہ تہذیب وثقافت کی علمبرداری ہندوستان کے مذہبی تہواروں کی روح میں شامل ہے، لہٰذا مذہبی تہواروں کو کوئی بھی اور کبھی بھی نفرت کی بھینٹ نہیں چڑھا سکتا۔
علاوہ ازیں قدیم ہندوستان کی تاریخ پر ایک سرسری نظر ڈالی جائے تو یہ حقیقت بخوبی سامنے آتی ہے کہ ہندوستان نے بڑے بڑے حکمرانوں کو موقع دیاہے اور پھلنے-پھولنے میں اُن کا تعاون بھی کیا ہے، لیکن قابل غور پہلو یہ ہے کہ یہاں جتنے بھی حکمران گزرے ہیں خواہ وہ اکثریت سے ہوں یا اَقلیت سے ہوں، ملکی و معاشرتی سطح پراُسی وقت کامیاب رہے ہیں جب تک وہ ملک ومعاشرے میں عدل وانصاف، اُخوت ومروت، اتحاد واتفاق اور یکجہتی و یگانگت کا پرچم بلند کیے ر ہیں، ورنہ بصورت دیگر جن جن حکمرانوں نے اکثریت واقلیت کی کالابازاری کا لبادہ اُوڑھا اور نفرت انگیزیوں کا سہارا لیا، تو اُسی وقت سےاُن حکمرانوں کےدن لد گئے اور اُن کی جگہ نئے حکمرانوں نے لے لی۔ یہاں تک کہ انگریزی سامراج کا عہد آیا، تو انگریزی حکمران بھی جب تک ملک ومعاشرہ اور عوام الناس کے مفادات کو اَوّلیت اور ترجیح دیتا رہا اُس وقت تک وہ بڑے عیش وآرام کے ساتھ رہااورہندوستان نے اُسے اپنے سر اور آنکھوں پر بٹھایا، لیکن جیسے جیسے اُس کی شاطرانہ سازشوں کا علم ہوتا گیا اور اکثریت واقلیت کے درمیان’’ تفرقہ ڈالو اور حکومت کرو‘‘ کی اُس کی پالیسیاں اُجاگر ہوتی گئیں ویسے ویسے ہندوستان اُس کے خلاف سراپا احتجاج بنتا گیا اور ایک دن ایسا بھی آیاکہ ۱۰۰؍ برسوں تک چلنےوالا انگریزی سامراج بھی ہندوستان کی انقلابی آندھی کے سامنے ٹک نہ سکا اور ہندوستانیوں کو غدار کہتے کہتے بالآخرایک دن انگریزی سامراج خودہی ملک بدر ہوگیا۔
اِس پس منظر میں دیکھا جائے تو ہندوستان آج بھی اپنی اُسی روش پر قائم ودائم ہے، چنانچہ ۱۹۴۷ء سے لے کر اب تک کے احوال دیکھنے کے بعد اِس راز سےبخوبی پردہ اٹھتا ہے کہ مسزگاندھی کی ایمرجنسی کا زمانہ ہو/آنجہانی راجیوگاندھی کا، جب کبھی ملک ومعاشرہ اور عوام الناس کےمفادات سے کھیلواڑ کیا گیااور اقتدار میںجمے رہنے کےلیےسیاسی اُتھل-پتھل کا ماحول بنایا گیا تو ہندوستان نے ہرحکمراں کو اِقتدار سے نکال باہر کیاہے۔ یہاں تک کہ بذات خود حکمراں جماعت کو بھی اُسی صورت میں موقع دیا گیا کہ جب عوام الناس نے یہ محسوس کیا کہ منموہن سنگھ کی حکومت، اُن کے مفادات اور ترجیحات کو نظر انداز کررہی ہے۔ اِس کے باجوداگرحکمراں جماعت اِن تمام انقلابی واقعات وحالات سے سبق نہیں لے رہی ہے اور ہوش میں نہیں آرہی ہے، تووہ دور نہیں کہ ہندوستان اِسے بھی ایک نہ ایک دن اقتدار سے نکال باہرکردے، بلکہ آج کل پیش آنے والے سانحات اورآثار وقرائن بتاتے ہیں کہ ۲۰۲۴ء انتخاب کے بعد سے اب تک جتنے بھی رجحان سامنے آئے ہیں اور آرہے ہیں وہ ایک طرف ملک ومعاشرے کے حق میں نیک فال ہیں، تودوسری حکمراں جماعت کے حق میں بڑی بدشگونی بھی ہے،اِس لیے حکومت کو اِن واقعات وسانحات سے بالخصوص سبق لینےکی ضرورت ہے اور اِس کے لیے لازم ہے کہ ہندوستان نے جن عوامی مفادات وحصولیابیوں کی خاطر اُنہیں اقتدار سونپاہے وہ اُن مفادات و حصولیابیوں کو اَوّلیت اورترجیح دیں۔ نیزملکی ومعاشرتی سطح پر طبقاقی اونچ نیچ، مذہبی منافرت، مساجدومنادر ، فرقہ پرستی اورآپسی تعصب وعناد کے خاتمے کو یقینی بنائیں اور ملک ومعاشرت کی تعمیر وترقی کے ساتھ امن وآشتی، قومی یکجہتی، اُخوت و مروت، گنگا-جمنی مشترکہ تہذیب وثقافت، بین المذاہب ہم آہنگی وغیرہ کو فروغ دیں۔
[ad_2]
Source link