[ad_1]
جسٹس سندیپ مہتا نے کہا کہ ’’راجسمند کے سرپنچ کی دور اندیشی کی وجہ سے ہر بیٹی کی پیدائش پر 111 پودے لگائے جانے سے چیزیں کافی بہتر ہوئی ہیں۔ اب تک وہاں تقریباً 14 لاکھ پودے لگائے جا چکے ہیں۔‘‘
سپریم کورٹ نے آج اپنے ایک فیصلے میں صوبہ راجستھان کے ضلع راجسمند کی خوب تعریف کی۔ سپریم کورٹ کی تعریف کی اصل وجہ وہاں چل رہے ’پری پلینیٹری ماڈل‘ ہے۔ اس ماڈل کے تحت وہاں پیدا ہونے والی ہر ایک بیٹی کے لیے 111 پودے لگائے جاتے ہیں۔ دراصل جسٹس بی آر گوئی، جسٹس ایس وی این بھٹی اور جسٹس سندیپ مہتا کی 3 ججوں کی بنچ صوبہ راجستھان میں ’مقدس جنگلات‘ کی تحفظ کے متعلق ایک معاملہ کی سماعت کر رہی تھی۔ ساتھ ہی عدالت نے اپنے فیصلے کے دوارن کئی ہدایات بھی دیے ہیں۔
جسٹس سندیپ مہتا نے سماعت کے دوران کہا کہ ضرورت سے زیادہ کان کنی کی وجہ سے ماحولیات کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ ایسے میں راجسمند کے سرپنچ کی دور اندیشی کی وجہ سے ہر بیٹی کی پیدائش پر 111 پودے لگائے جانے سے چیزیں کافی بہتر ہوئی ہیں۔ اب تک ’پری یپلینیٹری ماڈل‘ کے تحت وہاں تقریباً 14 لاکھ پودے لگائے جا چکے ہیں۔ ساتھ ہی سپریم کورٹ نے کہا کہ اس سے صنفی انصاف کا بھی پتہ چلتا ہے اور جنین کے قتل کے واقعات پر بھی روک لگی ہے۔ یہ ایک بہترین قدم ہے کیوں کہ اب خواتین کی آبادی دوسروں کے مقابلے زیادہ ہیں۔ عدالت نے راجستھان میں ’مقدس جنگلات‘ کے تحفظ کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے۔
سپریم کورٹ نے ریاستی محکمہ جنگلات کو سیٹلائٹ سے واضح اور تفصیلی نقشہ سازی فراہم کرانے اور انہیں جنگل کے طور پر درجہ بندی کرنے کی ہدایت دی ہے۔ ساتھ ہی ’سیکرڈ گرووز‘ کو وائلڈ لائف پروٹیکشن ایکٹ 1972 کے تحت تحفظ فراہم کرنے اور اسے ’کمیونٹی ریزرو‘ قرار دینے کا حکم دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے مذکورہ بالا تمام ہدایات راجستھان حکومت کو دیے ہیں۔ اس معاملے کو دیکھنے کے لیے ایک 5 رکنی کمیٹی بنانے کا بھی حکم دیا گیا ہے جس کی صدارت ہائی کورٹ کے جج کریں گے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
[ad_2]
Source link