[ad_1]
ذہنی اضطراب جسے عام طور پر انزائٹی کے نام سے جانا جاتا ہے، آج کل دنیا بھر میں بیشتر افراد تیزی سے اس کا شکار ہو رہے ہیں۔
ایک تحقیق کے مطابق مَردوں کے مقابلے میں خواتین دگنا زیادہ انزائٹی یا ذہنی اضطراب کا شکار ہوتی ہیں۔
درمیانی عمر، کم تعلیم یافتہ، گھریلو، طلاق یافتہ، تنہا یا بیوہ خواتین میں انزائٹی کی شکایت زیادہ پائی جاتی ہے، جبکہ دیگر تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ مختلف طبی مسائل سے دوچار افراد بھی انزائٹی سے دوچار رہتے ہیں۔
انزائٹی دور کرنے کے لیے ڈاکٹرز مختلف ادویات تجویز کرتے ہیں لیکن دوا کے بغیر بھی اس مرض سے محفوظ رہنے کے کئی طریقے موجود ہیں، جن میں تناؤ کو کم کرنا، ورزش، سانس لینے کی مختلف مشقیں اور یوگا کرنا شامل ہیں۔
تھراپی اور ماہرِ نفسیات سے مشورہ لینا بھی اثر انگیز طریقہ ہے، خاص طور پر Cognitive Behavioural Therapy جس میں گفتگو کے ذریعے سوچ اور خیالات کا زاویہ اور انداز تبدیل کیا جاتا ہے۔
ڈپریشن اور انزائٹی میں فرق
بعض اوقات یہ نہیں سمجھ پاتے کہ ہم یاسیت کا شکار ہیں یا اندرونی بے چینی یا اضطراب کے سبب ذہنی خلفشار میں مبتلا ہیں۔
ڈپریشن، یاسیت یا افسردگی کو کہتے ہیں جبکہ انزائٹی کا مطلب ہے اضطرابی کیفیت، تشویش یا فکرمندی، دونوں ہی بہت تکلیف دہ اور قابلِ رحم بیماریاں ہیں۔
انزائٹی کی علامات
اگر انزائٹی کی علامات کی بات کریں تو وہ کچھ یوں ہیں:
٭ مسلسل غیر محفوظ رہنے کا خوف اور خیالات
٭ کام کرنے میں مشکل اور دشواری
٭ زیادہ تر عام جسمانی بیماریوں، سر درد اور معدے کی خرابی کی شکایات رہنا
٭ سماجی تقریبات، میل جول اور گھومنے پھرنے میں انتہائی پریشانی محسوس کرنا، نتیجتاً اپنے آپ کو تنہا کر لینا
٭ خوف اور جنون کے امراض، غیر معمولی پریشانی، سونے میں دشواری اور ڈراؤ نے خواب دیکھنا
کیسے قابو پایا جائے؟
اگر کسی انٹرویو یا اہم مسئلے پر بات کرنے جا رہے ہیں تو پیش آنے والی صورتِ حال کا اپنے ذہن میں خاکہ بنائیں۔
اگر انٹرویو دینے کے لیے جا رہے ہیں تو یہ بات ذہن میں رکھیں کہ کس قسم کے سوالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، اگر آپ کو لوگوں کا سامنا کرنا ہے تو کیا حالات درپیش ہو سکتے ہیں، آپ جو کہنے یا سننے جا رہے ہیں تو اس کے آپ پر اور دوسروں پر کیا اثرات ہوں گے۔
متوقع صورتِ حال کا یہ تصور آپ کو اصل صورتِ حال کا سامنا کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار کرنے میں نہایت اہم ہے۔
اپنی قوتِ ارادی پر بھروسہ کرنا سیکھیں، یہی انسانی شخصیت کی وہ اہم خوبی ہے جس نے آج تک انسان کو دنیا میں پیش آنے والی ہر قسم کی تبدیلی اور ہر قسم کے حالات سے نپٹنا اور ان پر قابو پانا سکھایا ہے۔
یہ قوت اپنی صلاحیتوں کو جاننے سے پیدا ہوتی ہے، قوتِ ارادی کا یہ عنصر گھبراہٹ، خوف اور ایسے ہی دیگر عوامل کو پہلے ہی لمحے میں بے اثر بنا دیتا ہے۔
خوف اور گھبراہٹ کے عالم میں پرسکون رہیں یا رہنے کی کوشش کریں، آپ کی گھبراہٹ صورتِ حال کو مزید ابتر بنا سکتی ہے، دل و ذہن کو پرسکون رکھیں گے تو آپ معاملات میں الجھنے کی بجائے ان کے حل پر زیادہ توجہ دے سکیں گے۔
پُرامید رہیں کیونکہ یہی وہ کیفیت ہے، جو ہر حال میں جینے اور ہر قسم کے حالات کا سامنا کرنا سکھاتی ہے۔
پُرامید رہنا خود پر یقین کا باعث بنتا ہے اور اندھیرے میں بھی روشنی کی کرن نظر آتی ہے۔
ناصرف آنے والے وقت سے بلکہ خود سے بھی بہتر امید رکھیں، اسی امید سے یقین پیدا ہوتا ہے، جو کامیابی کی ضمانت ہے۔
گھبراہٹ، ذہنی دباؤ یا کنفیوژن کی حالت میں اپنی باڈی لینگویج اور گفتگو میں کفایت شعاری کا مظاہرہ کریں، فضول حرکات و سکنات اور غیر ضروری باتوں سے گریز کریں، بار بار بالوں کو درست کرنا، چہرے یا جسم پر خارش کرنا اور اسی قسم کی دیگر حرکا ت گھبراہٹ کی نشاندہی کرتی ہیں۔
اپنی سوچ، ہمت اور حوصلے کو درست سمت دیں، ایک بہترین اور مثبت سوچ ہی ایک بہترین اور جاندار شخصیت کی ضامن ہو سکتی ہے، ایک بہتر شخصیت ہی زندگی کے معاملات کو بہتر طریقے سے چلانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
اگر آپ اپنی گھبراہٹ، کنفیوژن یا خوف پر قابو پانا چاہتے ہیں تو ابھی سے اپنی سوچ کی تربیت شروع کریں اور اسے اپنی زندگی کے معمولات میں شامل کر لیں، ہر قدم پر یہ آپ کی مددگار ثابت ہو گی۔
ہم میں سے اکثر افراد مجمع میں بات کرنے سے گھبراتے ہیں، اگر واقعی ایسی کسی بھی صورتِ حال میں گھبراہٹ، خوف یا کنفیوژن پر قابو پانا سیکھنا چاہتے ہیں تو ایک مخصوص ماحول میں سمٹنے کی کوشش نہ کریں۔
اپنے حلقۂ احباب اور میل جول کا دائرہ وسیع کیجیے، خاندان اور دوستوں کے علاوہ معاشرے کے دیگر افراد سے بات کرنا اور لوگوں کا سامنا کرنے کی عادت اپنائیں۔
گھبراہٹ یا خوف کے باعث سانس کی رفتار بڑھ جاتی ہے، سانس کی ابتر حالت، خیالات کی ابتری کا باعث بنتی ہے، یوگا کے ماہرین ذہنی یکسوئی، ارتکازِ توجہ اور ذہنی سکون کے حصول کے لیے سانس کی مشقیں تجویز کرتے ہیں۔
[ad_2]
Source link