[ad_1]
آج لوک سبھا میں جب آئین پر بحث کی شروعات ہوئی تھی سب سے پہلے راجناتھ سنگھ نے اپنی بات سبھی کے سامنے رکھی، اس کے بعد پرینکا گاندھی اور اکھلیش یادو نے مرکزی حکومت کو نشانے پر لیا۔
لوک سبھا میں آج آئین پر بحث کا آغاز ہوا اور پہلے ہی دن کانگریس رکن پارلیمنٹ پرینکا گاندھی نے کچھ اس انداز میں برسراقتدار طبقہ کو کٹہرے میں کھڑا کیا کہ سبھی دیکھتے رہ گئے۔ پرینکا گاندھی کی یہ تقریر پارلیمنٹ میں ان کی پہلی تقریر تھی، اس لیے بھی لوگ ان کے مبنی بر موضوع گفتگو کی تعریف کر رہے ہیں۔ آج بحث کی شروعات راجناتھ سنگھ نے کی اور انھوں نے کانگریس کو ہدف تنقید بنایا، لیکن پھر پرینکا گاندھی اور اکھلیش یادو نے اچھی طرح موجودہ حکومت کو نشانے پر لیا۔
مذکورہ تینوں ہی لیڈران نے آئین پر بحث کے دوران کئی موضوع پر کھل کر اپنی بات رکھی۔ حالانکہ تینوں کی تقریروں کا جائزہ لیا جائے تو کم از کم 4 موضوعات ایسے ہیں جن پر راجناتھ، پرینکا اور اکھلیش تینوں نے ہی خاص توجہ دی۔ وہ 4 موضوعات ہیں: ذات پر مبنی مردم شماری، آئین کی حفاظت، لیڈروں کا پارٹی بدلنا اور اتر پردیش کی سیاست۔ آئیے جانتے ہیں ان چاروں موضوعات پر تینوں لیڈران نے کیا کچھ کہا۔
1. ذات پر مبنی مردم شماری:
2024 کے لوک سبھا انتخاب میں ذات پر مبنی مردم شماری ایشو سرخیوں میں تھا۔ کانگریس اور سماجوادی پارٹی سمیت کئی پارٹیاں ذات پر مبنی مردم شماری کا مطالبہ لگاتار کر رہی ہیں۔ حکومت نے اس معاملے میں پہلے خاموشی اختیار کر رکھی تھی، لیکن پہلی بار ایوان میں حکومت کی طرف سے اس پر مثبت رخ ظاہر کیا گیا ہے۔ بی جے پی کی طرف سے بولتے ہوئے مرکزی وزیر راجناتھ سنگھ نے کہا کہ ذات پر مبنی مردم شماری کرانے میں کوئی دقت نہیں ہے، لیکن یہ بھی بتایا جائے کہ حاصل اعداد و شمار سے کسے ریزرویشن دینے کی تیاری ہے۔ اسپیکر اگر اس سے اتفاق رکھتے ہیں تو پارلیمنٹ میں اس پر بحث ہونی چاہیے۔
کانگریس رکن پارلیمنٹ پرینکا گاندھی نے ذات پر مبنی مردم شماری کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ لوک سبھا انتخاب میں شکست کے بعد اب یہ لوگ ذات پر مبنی مردم شماری کی بات کر رہے ہیں۔ لوک سبھا انتخاب میں جب ہم اس ایشو کو اٹھا رہے تھے، تب یہ لوگ منگل سوتر اور بھینس چوری کی بات کر رہے تھے۔ پرینکا نے ذات پر مبنی مردم شماری کی پرزور حمایت کی اور کہا کہ اسے ضرور کرایا جانا چاہیے۔
اکھلیش نے اپنی تقریر میں ذات پر مبنی مردم شماری کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ سنٹرل یونیورسٹی میں وائس چانسلر اور پروفیسر کے عہدہ پر صرف 10 فیصد آبادی والے لوگوں کا قبضہ ہے۔ حکومت اس سے متعلق اعداد و شمار جاری کرے۔ یہ حکومت ذات پر مبنی مردم شماری کے بارے میں صرف بولتی ہے۔ ہم لوگوں کو حکومت میں آنے کا موقع ملے گا تو ذات پر مبنی مردم شماری ضروری کرائیں گے۔
2. آئین کی حفاظت:
لوک سبھا میں آج ’ہندوستانی آئین‘ پر ہی بحث ہو رہی تھی، اس لیے تینوں ہی لیڈران نے اس تعلق سے خوب باتیں کیں۔ آئین کے 75 سال مکمل ہونے پر لوک سبھا میں 2 دنوں کا جو بحث رکھا گیا ہے، اس کے پہلے دن راجناتھ سنگھ نے کہا کہ کانگریس کی حکومت کو جب بھی آئین اور اقتدار میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کا موقع ملا، تب کانگریس نے اقتدار کا انتخاب کیا۔ مرکزی وزیر نے ایمرجنسی سے لے کر کلیان سنگھ کی حکومت گرانے تک کے واقعات کا تذکرہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ کانگریس آئین کو جیب میں لے کر چلتی ہے۔
پرینکا گاندھی نے اپنے خطاب میں آئین کی طاقت کا انتہائی خوبصورتی کے ساتھ تذکرہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ جو لوگ پرانی باتیں کرتے ہیں، وہ یہ نہیں بتائیں گے کہ کس طرح منتخب حکومت کو پیسے کی طاقت پر ہٹایا جا رہا ہے۔ پرینکا نے کہا کہ آئین اس ملک کی آواز ہے اور عوام ہی اسے بچا رہے ہیں۔ ملک کا آئین اتنا کمزور نہیں ہے کہ اسے کوئی کچل سکے۔ یہ ملک کے بزدلوں کے ہاتھ میں زیادہ دیر تک نہیں رہا ہے۔
اکھلیش یادو نے بھی آئین سے متعلق کھل کر اپنی بات ایوان زیریں میں رکھی۔ انھوں نے کہا کہ آئین کی تمہید میں ملک کی حفاظت اور سیکولرزم لفظ کا تذکرہ ہے، لیکن آج سرحدیں محفوظ نہیں ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ ملک میں ہر مسجد کے نیچے سے مندر کی تلاش کی جا رہی ہے۔ یہ آئین کے لیے مناسب نہیں ہے۔ اقلیتوں کو نشانہ بنائے جانے کو بھی اکھلیش یادو نے اپنی تقریر کا موضوع بنایا۔
3. اتر پردیش کی سیاست:
راجناتھ، پرینکا اور اکھلیش یادو قومی سطح کے سیاستداں ہیں، لیکن تینوں کی ہی تقریر میں خاص طور پر اتر پردیش کا تذکرہ دیکھنے کو ملا۔ راجناتھ سنگھ نے بابری مسجد انہدام کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ جب 1992 میں ایودھیا کا گنبد گرا تب اُس وقت کی کلیان سنگھ کی حکومت نے اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ عہدہ سے استعفیٰ دے دیا، لیکن اُس وقت کی کانگریس حکومت نے استعفیٰ کو منظور نہیں کیا، بلکہ کچھ گھنٹے بعد حکومت کو برخاست کر دیا۔ راجناتھ سنگھ نے اپنی تقریر کے دوران جگدمبیکا پال والے واقعہ کا بھی تذکرہ کیا جس پر کچھ اراکین پارلیمنٹ ہنسنے لگے کیونکہ اب وہ بی جے پی میں ہیں اور لوک سبھا میں بیٹھ کر یہ باتیں سن بھی رہے تھے۔
پرینکا گاندھی نے اتر پردیش کے آگرہ، سنبھل اور ہاتھرس کا تذکرہ کیا۔ ان تینوں علاقوں کا نام لے کر انھوں نے یوپی حکومت کے ساتھ ساتھ مرکزی حکومت کو بھی گھیرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے یوپی میں ہو رہے مظالم اور پولیس کارروائی کو لے کر بی جے پی کو ہدف تنقید بنایا۔ اکھلیش یادو نے بھی اتر پردیش کے حالات پر فکر کا اظہار کیا۔ انھوں نے کہا کہ اتر پردیش میں ڈبل انجن کی حکومت بنانے گئے تھے، لیکن اب انجن کے ساتھ ساتھ ڈبے بھی ٹکرا رہے ہیں۔ ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ یوپی کسٹوڈیل ڈیتھ میں نمبر 1 بن گیا ہے۔ وہاں کی حکومت اقلیتوں کو لوٹنے میں بھی مصروف ہے۔
4. لیڈران کا پارٹی بدلنا:
راجناتھ سنگھ جب آئین پر اپنی بات رکھ رہے تھے تو اس دوران انھوں نے اتر پردیش میں پیش آئے 1998 کے ایک واقعہ کا تذکرہ کیا، جس میں مکمل اکثریت کے باوجود کلیان سنگھ کی جگہ جگدمبیکا پال کو وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا تھا۔ راجناتھ سنگھ جب یہ بول رہے تھے جگدمبیکا پال بھی ان کے ساتھ ایوان میں بیٹھے تھے۔ حالانکہ راجناتھ سنگھ نے یہ بھی کہا کہ انھیں (جگدمبیکا پال کو) اپنی غلطی کا احساس ہو گیا اس لیے وہ اب پارٹی بدل کر بی جے پی میں آ گئے ہیں۔
پرینکا گاندھی نے پارٹی بدلنے والے معاملے پر بی جے پی پر تلخ حملہ کیا ہے۔ انھوں نے بی جے پی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’آپ کے پاس ایک واشنگ مشین ہے، اس میں اِدھر سے اُدھر گئے لوگوں کی صفائی ہو جاتی ہے۔‘‘ اکھلیش یادو نے بھی اس معاملے میں اپنی بات رکھی اور اِدھر سے اُدھر جانے والے سیاسی لیڈران کو بھرپور انداز میں طنز کا نشانہ بنایا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
[ad_2]
Source link