[ad_1]
عالمی یوم انسدادِ بد عنوانی 2024 ء اس اعتبار سے بھی اہم کہ اقوام متحدہ کی جانب سے اس دن کو پوری دنیا میں ہر سال 9 دسمبر کو منا تے ہوئے آج پورے 24 سال ہو چکے ہیں۔
دو برس قبل انٹی کرپشن ڈے کے موقع پر اقوام متحدہ کی جانب سے بدعنوانی کے اعتبار سے یہ مرکزی خیال تھا کہ کرپشن کا ظالمانہ تعلق امن ، سلامتی اور ترقی سے ہے، یعنی جہاں جہاں جن جن ملکوں میں کرپشن ہے وہاں امن ، سلامتی کو بھی خطرہ اور وہاں کسی قسم کی سماجی ، سیاسی ، اقتصادی ، تعلیمی ، یعنی ہر طرح کی ترقی ممکن نہیں۔ اگر ہم اسلامی تعلیمات کی روشنی میں دیکھیں تواسلام میں کرپشن کو معاشرے کے لیے زہر ہلاہل قرار دیا گیا ہے اوریہ ایک ناقابل ِ معافی جرم ہے کیونکہ اس سے پورا معاشرہ متاثر ہوتا ۔
واضح رہے کہ ہمارے ہاں برصغیر میں کرپشن جیسی معاشرتی برائی انگریزوں کے زمانے میں ایک منصو بے کے تحت رائج کی گئی تھی اور اس کے لیے معروف انگریز مشیر لارڈ مکالے نے یہاںکے حکام کو یہاں معاشرے کو کرپٹ کر نے مشورہ دیا تھا جب کہ اُن کا اپنا معاشرہ کرپشن کو سختی سے روکتا ہے اور اُن کے معاشرے میں آج بھی سماجی اور معاشرتی سطح پرکرپشن کو نہایت برا تصور کیا جاتا ہے ، اس کی مثال یہاں ایک تاریخی حقیقت سے پیش کرتا ہوں ۔
انگریزوں نے برصغیر میں مسلمانوں کے خلاف پہلی بڑی کامیابی لارڈ کلائیو نے 1757 ء میں پلاسی کی دوسری جنگ میں اُس وقت حاصل کی جب نواب سراج الدولہ کو اس کے مشہور ِ زمانہ غدار وزیراعظم میر جعفر کولالچ دے کر اُس کی مدد سے شکست دی ۔ نواب سراج الدولہ شہید ہوئے ۔ سراج الدولہ کے بعد کھٹ پتلی کی حیثیت سے میر جعفر کو بنگال کا نواب بنا دیا گیا ، تھوڑے عرصے بعد برطانیہ میں وائسراے لارڈکلائیو کے بارے میں شکایات ملیں کہ اُس نے رشوت کے طور پر نوابین اور امرا سے بہت مہنگے اور قیمتی تحائف وصول کیئے ہیں ۔
اس پر لارڈ کلائیو کو لندن طلب کیا گیا اوراِس پر کرپشن کے الزمات کے تحت عدالت میں مقدمہ چلنے لگا ۔ لارڈ کلائیو کو چند روز بعد ہی معلو م ہو گیا کہ ثبوتوں کی بنیاد پر جیوری اُس کے خلا ف فیصلہ دے گی اور اُسے کچھ جرمانے کی سزا ہو گی کیونکہ وہ ہندوستان میں انگریز وں کا نہایت کامیاب ہیرو جنرل اور وائسرائے تھا مگر برطانیہ میں کرپشن کے خلاف سماجی اور اخلاقی اقدار اتنی مضبوط تھیں کہ لارڈ کلائیو نے شرمندگی کے خوف سے جیوری کے فیصلے سے قبل ہی تو اپنے پستول سے خود کشی کر لی ۔
یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ ہمارے ہاں میر جعفر اور میر صادق اور ایسے امرا نے کرپشن کی مگر ہمارے پورے معاشرے کی اکثریت ایماندار رہی اور تحریک آزادی میں ہمارے رہنما تو دیانتداری کی عمدہ مثال تھے ۔ یوں عالمی یوم انسدادِبد عنوانی کے موقع پر آپ اس پر اتفاق کر یں گے کہ جو معاشرے ا خلاقی طو ر پر باکردار ہوتے ہیں جہاں کرپشن کو معیوب سمجھتا ہے وہاں بد عنوانی ، بد دیانتی نہیں پنپ سکتی ، اس اعتبار سے جا ئزہ لیں تو بدقسمتی سے آج ہمارا معاشرہ اخلاقی پستی کا شکار ہے اور یہ اخلاقی پستی بہت مختصر عرصے میں ہمارے یہاں غالب آئی۔
غالباً 1996 ء کا واقعہ ہے میں ایک مقامی روزنامہ میں کنٹرولنگ پوزیشن پر تھا ، سردیوں کے دن تھے کہ دو غریب بلوچ نوجوان رات کو آئے ان کے پاس ایک دستی بیگ تھا جس کی زپ پر چھوٹا سا تالا لگا ہوا تھا ، اُنہوں نے مجھے بیگ دیا اور کہا کہ یہ بیگ سائنس کالج چوک سے ملا ہے اس کو اخبار عوامی سروس کے اشتہار میں شائع کر دیں تاکہ اس کا مالک اسے لے جا ئے ، میں نے بیگ کو کان کے قریب موڑ کر اس کی آواز سنی تو اندازہ ہوا کہ بیگ کرنسی نوٹوں سے بھرا ہو ا ہے ، میں نے کہا یہ تو نو ٹوں سے بھرا ہوا ہے ، اس پر نوجوان نے جواب دیا مگر یہ میر انہیں ہے۔
دوسرے روز اشتہار پڑھ کر ایک شخص اپنے محافظ کے ساتھ دفتر میں آیا اور تعارف کر اتے ہوئے بولا میں میر ہزار خان بجرانی کا بھائی ہوں اور یہ بیگ میرا ہے ، نشانی بتانے اور اپنی چابی سے بیگ کھولنے پر بیگ میں ملکی اور غیر ملکی کرنسی کی مالیت اُس وقت چار لاکھ سے زیادہ تھی ، میں نے یہ واقعہ بلوچستان کے معرف دینی اسکالر اور ماہر تعلیم پرو فیسر فضل حق میر مرحوم کو سنایا تھا تو اُنہوں نے جواباً تاریخی واقعہ سنایا کہ انگریزوں کے دور میں وائسرائے کی بیگم نے دہلی کی جامع مسجد کا دورہ کیا اور اس دوران بے خیالی میں اپنا ہینڈ بیگ مسجد کے طاق میں رکھ کر بھول گئیں ، پھر واپس محافظوں کے ساتھ مسجد سے باہر جلوس کی شکل میں کافی دور نکل آئیں تو یاد آیا کہ وہ ہینڈ بیگ تو مسجد کے طاق میں بھول آئی ہیں بیگ میں اُن کے قیمتی زیوارت تھے ، محافظوں سپاہیوں کی دوڑیں لگ گئیں۔
بیگم ہجوم کے درمیان بلند مقا م پر کھڑی تھی اُس نے دیکھا کہ ایک غریب شخص نے اُس کا بیگ اُسے لہرا کر دکھایا ، بیگم وائسرائے نے اُس کوقریب بلایا، یہ مسجد کے فرش کو دھونے والا بہشتی (ماشکی ) تھا ، وائسرائے کی بیگم نے زیوارت دیکھے اور پھر اُس بہشتی سے کہا تم نے یہ دولت بھرا بیگ کیوں واپس لوٹا دیا۔ اس پر بہشتی بولا مادام میں قیامت کے دن اپنے نبیﷺ کو آپ کے نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے سامنے شرمندہ ہوتا نہیں دیکھ سکتا تھا، یہ وزڈم ( بصیرت) اور اخلاقی قدریں ہمارے معاشرے کے افراد میں ماضی قریب تک تھیں ۔ جو تحریک آزادیِ پاکستان کے ساتھ چلی آئی تھیں ، قائد اعظم کے یوں بہت سے واقعات ہیں یہ بلوچستان زیارت کا واقعہ ہے جسے میںحوالے کے طور پر پیش کر رہا ہوں۔
بیمار ی کے بڑھ جانے پر قائد نے کھانا کھا نا بالکل کم کر دیا تو فاطمہ جناح نے لائل پور ( فیصل آباد) سے اُن دو باورچی بھائیوںکو بلوایا جن کا پکایا ہوا کھانا قائد کو پسند تھا، اُس دن قائد نے کھانا زیادہ کھایا اور بہن سے پوچھا کہ کھانا کس نے بنایا ہے اس پر فاطمہ جناح نے جواب دیا کہ لائل پور ( فیصل آباد ) سے کک بلوائے ہیں اور اِن دونوں کو حکومت پاکستان نے آپ کی خدمت کے لیے بھیجا ہے اس پر اُنہوں نے خاموشی سے فوراً اخراجات کا تخمینہ لگوایا اور اپنی چیک بک سے سارے سرکاری اخراجات کا چیک کاٹا اور پھر اِن کک بھائیوں کو واپس بھیج دیا ۔
16 اکتوبر 1951 ء کو ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی کو شہید کر دیا گیا ، شہادت کے بعد اُن کی میت کو لایا گیا اور غسل سے پہلے کپڑے اُترے تو قمیض کی جیب سے پچیس روپے چار آنے برآمد ہوئے تھے اور بنیان بھی پھٹی ہوئی تھی جب کہ بینک بیلنس ڈیڑھ سو روپے سے زیادہ نہیں تھا وہ کرنال کی ریاست کے نوابزادے تھے یہ وہ وجوہات تھیں کہ پاکستان کی پہلے قومی بجٹ کے علاوہ 1970-71 تک کے تقریباً تمام قومی بجٹ خسارے کی بجائے بچت کے بجٹ تھے ۔ اخلاقی قدروں کے حوالے سے ذکر کرتا چلوں کہ جب ساٹھ کی دہائی میں ، میں بچہ تھا کوئٹہ ریلوے گارڈ کالو نی میں رہائش تھی ، اُس زمانے میں روڈ ٹرانسپورٹ آج کی طرح معیار ی نہیں تھی اور زیادہ تر سامان ریلوے گڈز ٹرینوں سے آتا جاتا تھا ، ہماری ریلوے کالونی میں دو گڈز کلرک بھی رہتے تھے۔
اِ ن میں سے ایک راشی تھا اِن کے گھر روپے کی ریل پیل تھی ان کے گھر میں اکثر پلاؤ ، بر یا نی اور دیگر اچھے پکوان بنتے ، وہ کالونی کے گھر وں میں بھجواتے ، اکثر گھر والے حرام کے یہ پکوان لے تو لیتے مگر یا تو فقیر کو دیتے یا پھر کتے ، بلی کے سامنے ڈال دیتے ۔ اِن کی ایک بڑی بہن تھی جو آزادی کے وقت اُن کے ساتھ پاکستان آئی تھیں اس راشی کلرک کے بچے ہی نہیں بلکہ ریلوے گارڈ کالونی کے سارے بچے بھی اُس بوڑھی خاتون کو پھوپی کہتے تھے وہ محلے کے تمام بچوں کو دو روپے فی بچہ ماہانہ فیس پر قرآن پڑھاتی تھیں ، ایک کمرے میں اکیلے رہتی اور اپنی حق حلال کی کمائی سے اپنا مہینے کا راشن خود خرید کر خود پکاتی اور کھاتی کیونکہ اس بزرگ خاتون کو یہ معلو م تھا کہ اُن کا بھائی رشوت لیتا ہے اور سرکاری خزانے کو نقصان پہنچاتا ہے ریلوے گارڈ کالونی میں رہنے والا دوسرا حلا ل خورگڈز کلر ک بہت چڑ چڑا تھا، اس کے بچے ہماری طرح روکھا سو کھا کھاتے تھے ۔
کہا جاتا ہے کہ اُسے بھی کو ئٹہ کے ایک سیٹھ اورتاجر رشوت دینے کی کوشش کرتے مگر وہ اِ ن کو ڈانٹتا اور ذلیل کرتا، ایک دن اس پر چھاپہ پڑا اُس کی میز کی دراز سے نشان زدہ اور دستخط شدہ کرنسی نوٹ برآمد ہوئے اب افسران نے اُس پر دباؤ ڈالا کہ وہ استعفیٰ دیدے تو پولیس کیس سے بچ جائے گا ورنہ مجبورًا اُسے پولیس کے حوالے کرنا پڑے گا، یوں اُسے نوکری کے جانے کے ساتھ ساتھ سزا بھی ہو گی ، پھر اُس نے ایسا ہی کیا۔ اب سارا محلہ افسوس کر رہا تھا کہ اب کیا ہو گا؟ ریلوے کالونی کا مکان خالی کرنا پڑے گا، چھ بچوں کے ساتھ کیسے گذارہ ہو گا ؟ شام کے وقت گھر میں ماتم تھا محلے والے تسلیاں دے تھے ،ایک ہندو سیٹھ کو پتہ چلا کہ اس نیک ایماندار گڈز کلرک کو سازش کے تحت پھنسایا گیا ہے تو وہ شام کو اِس مظلوم کلرک کے گھر آیا ، اور جب اُس گڈز کلرک کو پتہ چلا تو وہ اُسے غصے میں گالیاں دینے لگا کہ تم یہ تماشہ دیکھنے آئے ہو ۔ ہندو سیٹھ بولا ’’ تمھاری قدر میں جانتا ہوں ، تم کو ریلوے ڈھائی سو روپے تنخواہ دیتی تھی اور سازش کر کے تمیں نکال دیا گیا میں چھ سو رپے تنخواہ دونگا، مسجد روڈ پر ایک مکان تمھارے نام کروں گا ، تم ایماندار ہو ، سارا کاروبار اب تم دیکھو گے اور میر ی پریشانی ختم ہو جائے گی ۔
اسی زمانے میں ریلوے ڈویژن کوئٹہ میں ایک ٹکٹ کولیکٹر ،، ایس ٹی عبدالوحید ہوا کرتے تھے ، پوری ریلوے کالونی کے چھوٹے بڑے اُنہیں ’’ آلو گوشت‘‘ کہہ کر چھیڑتے تھے اُنہوں اپنے بھائی اور ماں کو بھی بلا ٹکٹ سفر کرتے ہوئے پکڑا اور اپنی جیب سے جرمانے کے ساتھ دونوں کا ٹکٹ خرید کر اُن کے حوالے کیا ، اسی کوئٹہ میں ایک اقبال نامی خزانہ افسر اسی کی دہا ئی تک سروس میں تھے وہ بھی عجیب شخصیت کے حامل تھے ، پہلی تاریخ کو تنخواہ لیتے تو اپنی ضرورت یعنی کھانے کے پیسے رکھ کر با قی غریبوں میں با نٹ دیتے ، دنیا اِدھر کی اُدھر ہو جا ئے وہ نہ تو کوئی غلط کام خود کرتے اور نہ ہی کسی کو کرنے دیتے، ذرا تصور کریں کہ اگر ہمارے تمام اعلیٰ افسران اُن سر کاری ملازمین کی طرح ایماندر ہوں تو ہمار ا ملک کتنی ترقی کرے ، اس لیے ضروری ہے کہ جو افسر جو کلرک ایماندار ہو اُس کی قدر کی جائے ، حکومت کو چاہیے کہ جہاں کرپشن کو ختم کرنے کے اقدامات کئے جا رہے ہیں ، وہاں ایسے ایماندار افراد جب سامنے آئیں تو اُن کی عزت افزائی ، حوصلہ افزائی کر یں ، ایسے لوگوں کو قومی ایوارڈز سے نوازیں۔
اب عالمی سطح کی کرپشن اور اخلاقی قدروں کے اعتبار سے بھی 2021 ء کے حقائق ملاحظہ ہوں ، دنیا کے 180 ممالک کی ایک فہرست کم سے کم کرپشن یا کرپشن کے نہ ہو نے والے ملکوںکے اعتبار سے ہے ، یوں اگر اس لسٹ کو قاعدے کے مطابق اُوپر سے نیچے پڑھیں تو ٹاپ ٹونٹی ایماندار ممالک ہیں اور اگر نیچے سے اُوپر کو پڑھیں تو دنیا کے کرپٹ ترین ممالک ہیں اگرچہ اس حوالے سے پاکستان دونوں طرح کے ٹاپ ٹونٹی میں شامل نہیں ہے مگر صرف ایک سال میں پاکستان کرپشن کے حوالے سے چار درجے اُوپر آیا ہے، اور فہرست میں ہمارا نمبر124 ہے ، اب آتے ہیں 9 دسمبر 2024 ء کے انٹرنیشنل انٹی کرپشن ڈے کی جانب اس بار اس کا تھیم Uniting With Youth Against Corruption : Shaping Tomorrow,s Integrity ہے اور واقعی اِس وقت دنیا بھر میں کرپشن سے سب سے زیادہ متاثر نوجوان ہو رہے ہیں۔
اِ س وقت دنیا میں نوجوانوں کی کل تعداد تقریباً 2 ارب ہے، واضح رہے کہ نوجوان اپنی آنکھوں میں سہانے اور خوبصورت مستقبل کے خواب رکھتے ہیں ، وہ جدوجہد کرتے ہیں کہ اِن خوابوں کی اچھی تعبیر حاصل کریں مگر کرپشن معاشرتی سماجی بنت کو کمزور کر دیتی اور خصوصاً ترقی پزیر ملکوں میں نوجوانوں کے لیے تعلیم و تحقیق کے راستے محدود ہو جا تے ہیں ، معیار تعلیم نہ صرف پست ہو جاتا ہے بلکہ ناہل افراد قومی تعمیر کے اداروں کے اہم عہدوں پر فا ئز ہو کر نہ صرف مزید کرپشن کو بڑھاتے ہیں بلکہ قومی صنعت ، زراعت سمیت تمام شعبوں کو تباہ کر دیتے ہیں اس کے ردعمل میں نوجوان مایوس ہو کر منفی راستہ اختیار کرتے اور معاشرہ خود کشی کرتے ہوئے برباد ہو جا تا ہے۔
اس بار یعنی 2024 ء مین انٹرنیشنل انٹی کرپشن ڈے کے موقع پر ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل اور دیگر عالمی اداروں ٹاپ ٹن ایماندار اور ٹاپ ٹن کرپٹ ملکوںکی فہرستیں جاری کی ہیں جن کے مطابق دنیا کے دس ایماندار ملکوں میں نمبر1 ، ڈنمارک ، نمبر 2 ۔ فن لیڈ نمبر3 ۔ نیوزی لینڈ نمبر4 ۔ ناروے نمبر 5 ۔ سنگا پور نمبر6 ۔ سوئڈ ن اور سوئزرلینڈ نمبر7۔ نیدر لینڈ نمبر8 ۔ جرمنی نمبر 9۔ لیکسمبرگ ۔ اور دنیا کے ٹاپ ٹن کرپٹ ملکوں میں نمبر1 صومالیہ نمبر2 ۔ وینزویلا نمبر3 ۔ شام نمبر4 ۔جنوبی سوڈان نمبر5 ۔ یمن نمبر6 ۔ نیکاراگوا نمبر7 ۔ ہیٹی نمبر 8 ۔ایکاٹوریال گیونیا نمبر9 ۔ ترکمانستان نمبر10 ۔ لیبیا ہے ۔
دو برس قبل کے اعداد و شمار کی بنیاد پر یہاں دو باتیں اہم ہیں نمبر ایک کرپشن سے پاک ٹاپ ٹونٹی ممالک میں ہی ٹاپ ٹونٹی غریب پسماندہ اور کرپٹ ملکوں سے لوٹی گئی دولت بھی محفوظ ہے اور اِ س قومی دولت کو چرانے والے بھی۔ نمبر دو اسی طرح گزشتہ دوسال پہلے کے اعداد وشمار کے مطابق دنیا کی کل دولت 418342 بلین ڈالر تھی اس دولت میں سے 84.3 فیصد دولت یعنی 360603 بلین ڈالر 15 ممالک کے پاس ہے جو دنیا میں کر پشن کے خلاف ہیں اور ایمانداری میں سرفہرست ہیں ۔ آخر میں بلوچستان کے درویش صفت شاعر عطا شاد کا ایک شعر۔
نبض میر ی چھُو آئے جن کے ہاتھ ہی سُن تھے
اور پھر ہو ا چر چا دل کے زخم بھر نے کا
[ad_2]
Source link