جیسے ہی محرم الحرام کا مبارک مہینہ جلوہ گر ہوتا ہے ویسے ہی کچھ بدمعاش و بدقماش لوگ غریبوں سے محرم کی سبیل، تعزیہ داری نیز جنوبی ہندوستان میں علم اور الاوہ کے نام پر چندہ جمع کرتے ہیں۔ چندہ جمع کرنے کے بعد ایسے اوباش قسم کے لاپرواہ، بے نمازی اور فقط نامی مسلمان گوناگوں خرافات میں لگے رہتے ہیں۔ شمالی ہندوستان میں تعزیہ داری کے نام پر بت بناکر اس پر منت، نذر ونیاز اور چڑھاوے چڑائے جاتے ہیں۔ کچھ یوں ہی جنوبی ہندوستان میں علم نما مورت کہہ لیجیے یا صورت بناکر اس پر ہرا کپڑا لپیٹ کر گل پوشی وغیرہ کرکے کسی جگہ نصب کر دیا جاتا ہے پھر کیا، عوام کا تانتا بندھ جاتا ہے۔ اس کے سامنے سجدہ کرنا، منت ماننا، دعا کرنا، گریہ وزاری کرنا، چڑھاوے چڑَانا، الغرض ایسے ان گنت خرافات اور ناجائز رسومات کو محبت اہل بیت اور حسینیت کا نام دیا جاتا ہے اگر کوئی روکے تو اس پر جان لیوا حملے کیے جاتے ہیں۔ جس دین کے لیے امام عالی مقام نے اپنی جان کی قربانی دے کر حفاظت کی تھی آج اسی دین کو یہ نام نہاد بدمعاش لوگ برباد کرنے میں تلے ہوئے ہیں۔ دین وشریعت مطہرہ کو بازیچۂ اطفال سمجھ بیٹھے ہیں۔ سر عام چوراہے پر دین اور اہل بیت اطہار کی قربانیوں اور شہادتوں کا مزاق اڑاکر کربلا کے پیغام کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔
تعزیہ داری کے نام پر بت پرستی عام ہوتی جارہی ہے۔ تعزیہ داری اگر تعزیہ تک محدود رہتی تو کوئی حرج نہیں تھا مگر ستم بالائے ستم یہ کہ تعزیہ کے نام پر بت بناکر لوگ اسے پوج رہے ہیں۔ اس پر چڑھاوے چڑائے جارہے ہیں۔ اور نہ جانے کیا کیا کیا جارہا ہے، اگر کوئی مخلص روکے تو اس پر کچھ بدچلن دنیا پرست اور ملت فروش نام نہاد مولوی فتویٰ لیپنے لگتے ہیں کہ فلاں بزرگ تعزیہ نکالتے تھے۔ فلاں خانقاہ سے صدیوں سے یہ بڑے تزک واحتشام سے نکالا جارہا تھا۔ فلاں مفتی نے جواز کا فتویٰ دیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ کچھ نام نہاد پیٹ پالو لنگڑے پیر بھی تعزیہ داری اور اس بت پرستی کی حمایت کرتے تھکتے نہیں۔ اگر میری بات ہضم نہیں ہورہی ہے تو اس بار دس محرم الحرام میں نکالے گئے تعزیوں کی تصاویر گوگل کرکے مشاہدہ کرلیجیے، بات سمجھ میں آجائے گی۔ افسوس اس بات کا کہ یہ سب اہل سنت، محبت اہل بیت اطہار اور حسینیت کے نام پر ہورہا ہے۔ اگر یہی ناجائز رسومات یزیدیت کے نام پر ہوتی تو کوئی بات ہی نہیں تھی۔ انہیں وجوہات کی بناء پر علمائے اسلام نے اس تعزیہ داری کو حرام قرار دیا تھا۔ تعزیہ صرف نہیں دس محرم الحرام کو تعزیہ لے جاتے وقت ڈھول بجا بجا کر نوجوان ناچتے ہیں۔ کچھ بدقماش نوجوان شراب نوشی کرکے نشے میں رقص کرتے ہیں۔ ناجائز تعزیہ داری، حرام ڈھول باجا، حرام رقص وسرود اور ڈانس کرتے کرتے ان مہنگے تعزیوں کو پانی میں بہادینا یہ سب کہاں کا اسلام ہے؟ اس وقت میرے ذہن میں علامہ اقبال کے یہ اشعار گردش کر رہے ہیں۔
ہر کوئی مست مئے ذوقِ تن آسانی ہے
تم مسلمان ہو؟ یہ اندازِ مسلمانی ہے؟
حیدری فقر ہے، نہ دولت عثمانی ہے
تم کو اسلاف سے کیا نسبتِ روحانی ہے
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک ِ قرآں ہو کر
محرم الحرام میں تعزیہ اور علم اٹھاکر گشت لگانے والوں سے ہماری دردمندانہ اپیل ہے کہ اگر تمہارے اندر اہل بیت اطہار سے اتنی ہی محبت ہے تو نماز قائم کرو، قرآن سے رشتہ مضبوط کرو، دین کے خاطر ہر خسیس ونفیس کو لٹانے کے لیے آمادہ ہوجاؤ تو ہم آپ کو سلامی پیش کریں گے۔ تب دنیا سمجھے گی کہ آپ حقیقی معنوں میں حسینی ہیں۔ امام عالی مقام علیہ السلام کے حقیقی جانشین ہیں۔ آپ جو بھی حسینیت کے نام پہ کر رہے ہیں وہ معمولات ورسوم سب بدعت کے دائرے میں آتے ہیں۔ شریعت مطہرہ سے اسے اعمال کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ ہمارا خود کا تجربہ ہے کہ محرم الحرام میں یہ تعزیہ اٹھانے والے اور حضرت عباس علمبردار کے نام سے منسوب علم اٹھانے والے اذان ہوتی رہتی ہے مسجدوں سے دامن جھاڑ کر گزر جاتے ہیں۔ نماز پڑھنے کی توفیق تک نہیں ہوتی۔ تماشہ تو یہ کہ یہ علم اٹھانے والے اس علم کو غیروں کی عبادت گاہوں میں لے جاتے ہیں اور اس کے قریب ڈائنس کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حضرت امام عالی مقام کی سواری آئی ہے اور اس سیاہ کرتوت کو ہمارے یہاں حاضری کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ پتہ نہیں یہ حاضری اور یہ ناجائز رسومات ان گنواروں کو کہاں سے ملا۔ان تمام خرافاتوں کو یہ جاہل ان پڑھ گنوار اہل سنت کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔
حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ اُمّت روایات میں کھو گئی
آئیے موجودہ مروجہ تعزیہ داری اور غیر شرعی رسومات کے تعلق سے بعض اکابرین اہل سنت کے اقوال و افکار جانیں جس سے یہ بات اظہر من الشمس وابین من الامس ہوجائے گی کہ آج کا یہ مروجہ تعزیہ اور یہ من گھڑت علم ناجائز اور حرام سخت حرام ہے۔ سب سے پہلے ہم سرکار اعلی حضرت کا قول مبارک پیش کرتے ہیں-
امام اہل سنت اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ والرضوان تحریر فرماتے ہیں کہ: تعزیہ کی اصل اس قدرتھی کہ روضہ امام حسین کی صحیح نقل بناکر بنیت تبرک مکان میں رکھنا اس میں کوئی خرابی نہ تھی جہاں بے خرد نے اس اصل جائز کو نیست ونابود کرکے صدہا خرافات تراشیں کے شریعت مطہرہ سے الاماں الاماں کی صدائیں آنے لگی ۔ اول تو نفس تعزیہ میں روضہ مبارک کی نقل ملحوظ نہ رہی ہر جگہ نئی تراش کہیں علاقانہ نسبت وغیرہ پھر کوچہ بکوچہ گلی گلی اشاعت غم کے لئے پھرانا ان کے گرد ماتم زنی کرنا اس سے منتیں مانگنا اس کوئی چیز چڑھانا اور راتوں میں ڈھول باجے کے ساتھ طرح طرح کے کھیل کرنا وغیرہ وغیرہ۔اب جبکہ تعزیہ داری اس طریقہ نامرضیہ کا نام ہے جو قطعاً بدعت ناجائز وحرام ہے (فتاویٰ رضویہ جلد ۲۴ صفحہ ۵۱۳)-
اب ذرا تفصیل سے محرم اور تعزیہ کے ناجائز رسومات کے متعلق سرکار اعلیٰ حضرت کا فرمان پڑھیں- آپ رقم طراز ہیں کہ تعزیہ رائجہ ناجائز و بدعت ہے اور اس کا بنانا گناہ و معصیت اور اس پر شیرینی وغیرہ چڑھانا محض جہالت اور اس کی تعظیم بدعت و جہالت ہے-
آگے فرماتے ہے: علم، تعزیے، مہندی، ان “کی” منت، گشت، چڑھاوا، ڈھول، تاشے، مجیرے، مرثیے، ماتم، مصنوعی کربلا کو جانا، عورتوں کا تعزیہ دیکھنے کو نکلنا یہ سب باتیں حرام وگناہ وناجائز و منع ہیں، فاتحہ جائز ہے روٹی شیرینی شربت جس چیز پر بھی ہو مگر تعزیہ پر رکھ کر یا اس کے سامنے ہونا جہالت ہے اور اس پر چڑھانے کے سبب تبرک سمجھنا حماقت ہے ہاں تعزیہ سے جدا جو خالص سچی نیت سے حضرات شہدائے کرام رضی اللہ تعالی عنہم کی نیاز ہو وہ ضرور تبرک ہے، وہابی خبیث کہ اسے خبیث کہتا ہے خود خبیث ہے- مزید فرماتے ہیں کہ عاشورہ کا میلہ لغو ولہو و ممنوع ہے، یونہی تعزیوں کا دفن جس طور پر ہوتا ہے نیت باطلہ پر مبنی اور تعظیم بدعت ہے تعزیہ پر فاتحہ جہل و حمق و بے معنی ہے (فتاویٰ رضویہ جدید ج ٢٤ص ٤٩٨ ٥٠٠-(
اب ذرا سراج المحدثین علامہ عبد العزیز دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان بھی پڑھتے چلیں – آپ تحریر فرماتے ہیں کہ: یہ تعزیہ جو بنایا جاتا ہے زیارت کےقابل نہیں بلکہ اس قابل ہے کہ اسے نیست و نابود کیا جائے ( فتاوی عزیزیہ جلد ۱ صفحہ ٧٥)-
اب ذرا حضور مفتی اعظم ہند کا فرمان بھی پڑھ لیجیے- آپ فرماتے ہیں: کہ مروجہ تعزیہ داری شرعا ناجائز وحرام ہے (فتاویٰ مصطفویہ صفحہ ۵۳۴)-
مزید مفتئ اعظمِ ھند رضی المولیٰ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: تعزیہ داری جو شرعاً نا جائز ہے اس کے لیے جبراً چندہ لینا کس قدر شنیع بات ہے (فتاویٰ مصطفویہ ص ۵۳۵)-
حضور شیر بیشۂ اہل سنت مناظر اسلام سیدی سرکار علامہ حشمت علی خان بریلوی علیہ الرحمہ کا ارشاد بھی پڑھیے اور آپ کے جانشینوں کی زبوں حالی پر آنسو بہائے آپ فرماتے ہیں: تعزیے بنانا، انہیں باجے تاشے کے ساتھ دھوم دھام سے اٹھانا، ان کی زیارت کرنا، ان کا ادب اور تعظیم کرنا، انہیں سلام کرنا، انہیں چومنا، ان کے آگے جھکنا اور آنکھوں سے لگانا، بچوں کو ہرے کپڑے پہنانا ، گھر گھر بھیک منگوانا شرعاً ناجائز و گناہ ہیں (شمعِ ہدایت ج ۳ ص ۳۰)-
اب ہم ان بزرگان دین سلف صالحین کے اقوال زریں پر اکتفا کرتے ہیں۔ مزید کسی کو ان خرافات کے بارے میں تفصیل معلوم کرنا ہو تو وہ سرکار اعلیٰ حضرت کی کتاب “إِعالی الإفادۃ فی تعزیۃ الھند و بیان الشّھادۃ”، غازئ ملت سید ہاشمی میاں کی “رسومات محرم اور تعزیہ” اور مفتی معراج الحق مصباحی کی “مروجہ تعزیہ داری کا شرعی حکم” مطالعہ کریں اور ان خرافات سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں۔ اللہ تبارک وتعالی سے دعا ہے کہ ہمیں صحیح معنوں میں حسینی بننے کی توفیق عطا فرمائے اور پیغام کربلا پر عمل کرنے والا بنائے آمین۔