اگر آپ سیاست کر رہے ہیں یا سیاست میں جانے کی سوچ رہے ہیں تو آپ کو ہندوستان کی تاریخ کے وہ طاقتور آندولن اور احتجاج دیکھنے کی ضرورت ہے جن کی وجہ سے حکومتی تختے الٹ گئے یا پھر حکومتوں کو ان احتجاجوں کے آگے جھکنا پڑا ہے۔بڑے بڑے جابر، تانا شاہ بھی عوامی احتجاج کے آگے بے بس نظر آئے ہیں، سیاست میں عوام کے سامنے جو جتنا جھکنے کی صلاحیت رکھے گا وہ اتنی ہی دیر تک سیاست کی باگ ڈور بھی تھامے رکھنے میں کامیاب رہے گا۔سیاست نہ محبت چاہتی ہے اور نہ ہی عقیدت۔سیاست میں نہ رشتے ناطے کوئی اہمیت رکھتے ہیں، نہ ہی سالوں پر محیط خدمت، ہم سیاست میں باپ کو بیٹے کا ، بیٹے کو باپ کا ، بھائی کو بھائی کا ، ماں کو بیٹی کا اور بیٹی کو ماں اور بھائی کو بہن کا قتل کرتے ہوئے بارہا دیکھ چکے ہیں۔سیاست میں آپ اسی وقت تک اپنی پکڑ اور دبدبہ بنائے رکھ سکتے ہیں جب تک آپ سیاسی طاقت رکھتے ہیں۔جس دن آپ کی طاقت کم ہونے کا احساس آپ کے قریبی لوگوں کو ہوگا اسی دن وہ کوئی اور در تلاش لیں گے، بعض ایسے بھی ہونگے جو “گھر کے بھیدی بن کر آپ کی سیاسی لنکا کو ڈھانے کا کام کریں گے” سیاست ٹھیک اس مقولے کے الٹ ہے کہ “یک در گیر محکم گیر” یعنی ایک در مضبوطی سے تھامے رہو، یہاں مقولہ یوں ہو جاتا ہے “آں در گیر چو قوت گیر” وہ در پکڑو جو طاقت ور دیکھو۔
ماضی ہو یا حال، سیاسی “روشن مستقبل” کے لئے آپ کو اپنی طاقت اپنے اور بیگانے سبھی کو دکھاتے رہنے کی ضرورت ہے، ورنہ آپ کی صورت، آپ کی قوم، آپ کی خدمت، آپ کی طاقت، آپ کا دماغ، آپ کے تعلقات سیاسی لوگ استعمال تو خوب کریں گے، لیکن آپ اور آپ کی قوم کے حصے میں کچھ نہیں آئے گا، بظاہر وہ آپ کو اپنا ہیرو کہیں گے، بھروسے مند کہیں گے، ہر جگہ آپ کو لے کر جائیں گے اور آپ کو اتنے بوجھوں تلے دبا دیں گے کہ آپ خود ہی کہیں گے کہ ابھی کچھ مانگنے کے لئے مناسب وقت نہیں ہے۔
یادوں کے جھروکوں سے۔
میں آپ کو بہت پیچھے لے کر نہیں جاؤں گا کہ جو لکھا جائے اسے سمجھنے کے لیے سیاسی کتابیں خریدنے یا گوگل کرنے کی ضرورت ہو، اگر آپ کو سیاست سے لگاؤ ہے یا آپ ہر روز اخبار دیکھتے ہیں تو آپ کی یادوں کے جھروکوں میں یہ چیزیں پہلے سے ہی اسٹور ہوں گی، بس انھیں دماغ کی اسکرین پر پلے کرنے کی ضرورت ہے.
گجرات میں ہاردک پٹیل کا پاپٹیدار احتجاج، جگنیش میوانی کا” چلو اونا” احتجاج، اور دہلی کے رام لیلا میدان میں کانگریس کے خلاف” انّا ہزارے” کا احتجاج، دہلی ہی میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی (. J.N.U) میں فیس بڑھائے جانے کو لے کر طلبہ کا احتجاج، ہریانہ میں جاٹ ریزرویشن کا احتجاج، راجستھان میں گوجروں كا ریزرویشن احتجاج، دہلی میں سی اے اے، این آر سی کو لے کر مشترکہ احتجاج، فی الحال دہلی بارڈر پر کسانوں کا احتجاج جاری ہے، ان دھرنا پردرشنوں سے حکومت، ادارے کہیں جھکے ہیں اور کہیں بیک فٹ پر دیکھے گئے ہیں، کہیں انھیں احتجاج کی بنا پر حکومت چلی گئی تو کوئی کرسی پاگیا، مذکورہ احتجاجوں سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ حکومت عوامی طاقت کو ہی اہمیت دیتی ہے یہی وجہ ہے کہ ان احتجاجات سے ہم نے کئی لیڈر پائے ہیں جیسے اروند کیجریوال، ہاردک پٹیل، جگنیش میوانی، کنہیا کمار، چندر شیکھر آزاد وغیرہ وغیرہ___
احتجاج اچانک نہیں ہوتے، یہ کرائے جاتے ہیں یا کئے جاتے ہیں، کبھی حکومتیں کراتی ہیں تاکہ اغیار ان کی طاقت دیکھ سکیں، تو کبھی اپوزیشن سیاسی جماعتیں احتجاج کراتی ہیں کہ حکومت گرے اور ہم تخت نشیں ہوں، کبھی سیاسی جماعتیں نئے لیڈر تلاشنے، اور اپنی سیاسی زمین بچانے کے لیے بھی احتجاج کا سہارا لیتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ احتجاجوں کی صدارت کرنے والے یا ان کی پہچان بننے والے افراد کو سیاسی پارٹیاں اپنی جماعت میں شامل کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتی ہیں، جیسے ہاردک پٹیل ،کنہیا کمار، جگنیش میوانی وغیرہ….
طاقت ہے تو کیش کرنا سیکھئے.
کہتے ہیں کل کس نے دیکھا ہے اور سیاست میں تو کسی نے پَل بھی نہیں دیکھا، ہر لمحہ نئی بساط بچھائی جاتی ہے اور ہر لمحہ شہ مات کا کھیل جاری رہتا ہے، چند منٹ پہلے وزیر کچھ نہیں ہوتا اور چند لمحوں بعد ہی “شاہ” مات کھا جاتا ہے، صحیح معنوں میں سیاست نپی تلی نظر رکھنے کے ساتھ بروقت حملہ کرنے ہی کا نام ہے، جو یہ سیکھ گیا وہ سیاست سیکھ گیا…. خیر آمدم برسر مطلب اگر آپ کے پاس سیاسی طاقت ہے تو پھر کیش کرنا ضروری ہے کیونکہ سیاست میں کب کیا ہوجائے بھروسہ نہیں، ایسے لوگ ہمیشہ فائدے میں رہتے ہیں جو اپنی طاقت کا استعمال کرتے رہتے ہیں ویسے تو بہت لیڈر ہوے ہیں لیکن ایک لیڈر جسے دنیا “رام ولاس پاسوان”( بانی لوک جن شکتی پارٹی) کے نام جانتی ہے، اس لیڈر کے پاس اتنی طاقت تو نہیں تھی کہ اکیلے اپنی قوم کی بنا پر حکومت بنا سکے، لیکن اس نے اپنی طاقت کو ہمیشہ کھرے داموں میں کیش کیا تھا،(آج وہ نہیں ہیں لیکن انکی سیاسی ہوشیاری کے سبھی قائل ہیں) حکومت کسی کی بنے، لیکن اپنی طاقت کی بنا پر وہ سب حاصل کیا جو کوئی سیاسی آدمی چاہتا ہے، کیونکہ اس آدمی نے نہ کسی سے عقیدت دکھائی اور نہ ہی کسی سے محبت، جب موقع دیکھا چوکا ہی نہیں چھکا بھی ماردیا، اب ان لیڈروں کی بات کرتے ہیں جو وفاداری کی پُڑیا لیے گھومتے رہے اور آج “جیلوں” میں گھوم رہے ہیں یا پھر حاشیے پر ہیں اور اب کہیں جا بھی نہیں سکتے.
_سب سے پہلے ہم کشمیر سے” غلام نبی آزاد” کو لیتے ہیں جناب پہلے کانگریسی ہوے، پھر محنت کرکے پنجاب، بنگال جیسے علاقوں میں کانگریس کو پہنچایا، پارٹی ترقی کرتی گئی اور کشمیر تنزلی کا شکار ہوتا رہا، فیک انکاؤنٹر ہوتے رہے، کشمیری عوام خون کے آنسو روتی رہی اور آپ وفاداری ہی کرتے رہے، آرٹیکل 370 نافذ ہوگیا،موصوف کو کشمیر نہیں جانے دیا گیا ، محبوبہ مفتی، فاروق عبد اللہ جیل میں سڑتے رہے اور مسلم حمایتی سمجھی جانے والی پارٹی صحیح سے آواز بھی نہ اٹھا سکیں، سب بالاے طاق رکھتے ہوئے پارٹی کی ترقی کے لئے وفاداری کا جوش پھر چڑھا اور کانگریس صدر سونیا گاندھی کو خط لکھ ڈالا، کہ کچھ بدلاؤ ہونا چاہیے ورنہ اپوزیشن میں زندگی بھر بیٹھے رہیں گے، یہ پارٹی کو ہضم نہ ہوا اور اب پارٹی نے سائڈ لائن دکھا دی ہے __اسے ہی کہتے ہیں” گھر کا نہ گھاٹ کا” …
_انڈین سیاست میں فی الحال سب سے زیادہ سرخیوں میں اتر پردیش کے سماجوادی لیڈر اعظم خان ہیں، اعظم خان وہ لیڈر ہیں جن کے کندھوں پر سوار ہوکر سماجوادی پارٹی کئی مرتبہ وزیر اعلیٰ کی کرسی پر پہنچی، دو چار ہزار اردو کی نوکریاں یا چار سو مدرسوں کو گرانٹ دینے کے علاوہ مسلمانوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوا، اعظم خان صاحب کی ساری زندگی کی محنت یا بدلہ کہیں تو وہ جوہر یونیورسٹی ہے جسے اب سرکاری” تانڈَو” جھیلنا پڑ رہا ہے، اگر یہ چاہتے تو اپنی پارٹی بھی کھڑی کر سکتے تھے، اپنی طاقت کا احساس کراتے تو نائب وزیر اعلیٰ بھی بن سکتے تھے، اعظم خان اتنے طاقت ور تھے کہ کبھی بھی سماجوادی پارٹی کی سرکار گرا سکتے تھے، مگر ایسا نہیں ہوا اور نو بار کے ودھایک،ایک بار راجیہ سبھا ممبر اور فی الحال لوک سبھا کے ممبر ہونے کے باوجود آج ایک سال سے جیل میں ہیں، جو کیس لگائے گئے ہیں، وہ اس بڑے لیڈر کی کھلی بے عزتی ہے، جیسے بکری چوری، مرغی چوری، بھینس چوری وغیرہ وغیرہ…. اور سماجوادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو خبر بھی نہیں لے رہے ہیں، اب جب اویسی صاحب کی ملاقات کی خبر عام ہوئی تو وہی کانگریس جس نے اسی یونیورسٹی کی منظوری کو سالوں لٹکائے رکھا اور منظوری دینے والے گورنر صاحب کو اپنا عہدہ گنوانا پڑا، آج اظہار عقیدت کر رہی ہے، اور یہی سماجوادی پارٹی بھی کر رہی ہے،یعنی دونوں پارٹیاں اپنا الو سیدھا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں، اے کاش! خان صاحب اپنی طاقت دکھاتے یا دکھا دیں تو سماجوادیوں کا وزیر اعلیٰ بننے کا خواب خواب خرگوش ہو سکتا ہے…..
__ سماجوادی پارٹی ہی ایک اور نیتا عتیق احمد الہ آبادی بھی سالوں سے جیل میں ہیں اور بی ایس پی سپریمو مایاوتی جن مختار انصاری کے کندھوں پر سوار ہوکر فرش سے عرش پر پہنچیں، آج وہ بھی کئی سالوں سے جیل میں ہیں، مایاوتی ہی کے دست راست کہے جانے والے “نسیم الدین صدیقی” جنھوں نے پارٹی اور مایاوتی کی عقیدت کے چلتے اپنی بیٹی کی تدفین تک میں شرکت نہ کی، آج وہ بھی سلاخوں میں ہیں، سیوان، بہار سے شہاب الدین کے کندھوں پر سوار ہوکر لالو پرساد یادو “ستّا سُکھ” بھوگ چکے ہیں، وہ شہاب الدین بھی سالوں سے جیل کی ہوا کھارہے ہیں، گجرات کے احسان جعفری، اور گجرات ہی سے کانگریس کے” چانکیہ” کہے جانے والے احمد پٹیل، قوم کو کچھ نہ دے سکے، ان سبھی لیڈروں نے اگر بے جا وفاداری نہ دکھائی ہوتی اپنا اور قوم کا بھلا کیا ہوتا تو آج ہر دل عزیز ہوتے، اور رام ولاس پاسوان کی طرح ہی مزے میں ہوتے، عام آدمی پارٹی کے امانت اللہ خان کی برطرفی اور دہلی دنگوں کو بیلنس کرنے کے لیے انکی واپسی بھی اسی کیٹیگری میں رکھئے،لسٹ تو بڑی لمبی ہے لیکن سمجھنے کے لیے یہی نام کافی ہوں گے ……
بھارتی سیاست میں ہم نے کانگریس، شو سینا، جدیو اور بی جے پی، سماجوادی اور بی جے پی، جنتا دل اور بی جے پی، کانگریس اور بی جے پی، بی ایس پی اور بی جے پی جیسے اتحاد دیکھے ہیں، اور یہ سب اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے ہوے، لیکن مسلم لیڈران پارٹیوں کے ہر فیصلے پر اپنی پارٹیوں کے ساتھ کھڑے رہے اور مسلمانوں کی جلتی لاشیں، لٹتی عزتیں، راکھ میں تبدیل ہوتے مکانات، تباہ ہوتی جائدادیں، گرتی ہوئی مسجدیں، لٹتے ہوے کارواں دیکھتے رہے مگر بے جا وفاداری پر آنچ نہیں آنے دی!
پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں!
خلاصہ
میرا ماننا ہے کہ اگر آپ کسی پارٹی، سیاسی لیڈر سے وابستہ ہیں اور زمینی کام نہیں کرنا چاہتے، اور آپ کی ذات سے پارٹی کو بہت فائدہ نہیں ہے، آپ انکے ساتھ کام سے روزی کمانا چاہتے ہیں تو کوئی بات نہیں، لیکن اگر پارٹی، سیاسی لیڈر کو آپ سے بہت فائدہ ہے تو آپ کا ایک پَیر ہمیشہ پاجامے میں رہنا چاہیے، جب آپ کو محسوس ہو کہ پارٹی ہماری محنت کے مطابق عہدہ، یا صلہ نہیں دے رہی ہے فوراً انھیں احساس کرائیے کہ آپ سے فائدہ تبھی ممکن ہے جب ہمارا یا ہمارے سماج کا فائدہ ہو، ورنہ دوسرا در بھی ہے، سیاسی لوگ اپنے لوگوں کے سامنے اتنی پریشانیاں سناتے ہیں کہ بندہ خود کچھ نہ کہے، ایسی صورت میں ان ہوشیار لوگوں کو غور سے دیکھیں اگر انکے اور انکی قوم کے کام ہو رہے ہیں تو آپ اپنا مطالبہ بھی رکھ دیں، نہ سننے، یا سمجھانے کی صورت میں آپشن B پر عمل کریں، یا ایسے وقت پر پالا بدلیں کہ آپ کو بے وقوف بنانے کی قیمت سود سمیت موصوف کو ادا کرنا پڑے…..
سیاسی لوگوں کا ایک حربہ اور ہوتا ہے کہ وہ اپنے اقتدار کے زمانے میں آپ کو مطلوبہ عہدہ یا شئے نہیں دیتے، جب ایک ڈیڑھ سال کا اقتدار بچتا ہے تب وہ آپ کو مطلوبہ چیز دے دیتے ہیں اور پھر سرکاری کام، آپ جانتے ہی ہیں…. تو یہ ایک ڈیڑھ سال کا زمانہ اپروول یا سرکاری دفاتر کے چکر لگانے میں ہی نکل جاتا ہے، اب آپ اس لیے ساتھ دیتے ہیں کہ حکومت آئی یا یہ بندہ کامیاب ہوا تو ہمارا رکا ہوا کام پورا ہوجائے گا، لیکن کون جانتا ہے کہ کل کیا ہوگا؟ اور آپ رہ جاتے ہیں، خوش قسمتی سے آپ کی پارٹی یا لیڈر کامیاب بھی ہوجاتا ہے تو آپ کو اپنا پچھلا کام کراتے ہوے اقتدار کا آدھا زمانہ گزر جاتا ہے، ظاہر ہے آپ تب تک خاموش رہیں گے، اور اگر دوسرا کام چاہیں گے تو کہہ دیا جائے گا بھئی ایک تو پورا کرو، پھر آنا، اور پھر جب آپ جائیں گے تو کہیں گے ارے رکیے صاحب! سارے کام تو ہمارے نہیں ہوتے اور آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے سارے کام ہوجائیں، ہر چیز تھوڑی ہو سکتی ہے، چلئے پھر دیکھیں گے، نیتا جی کے اتنا کہنے کے بعد آپ خود ہی انکے پاس نہیں جائیں گے، اور پھر اخیر وقت میں آپ کو بلاکر پوچھیں گے اچھا وہ آپ نے ایک کام کے لیے کہا تھا، اب اسے دیکھ لیتے ہیں اور پھر وہی ڈرامہ شروع ہوجاتا ہے….
اس لیے سیاست میں آپ کو صرف فائدہ دیکھنا ہے کہ کیسے ملتا ہے، یہ آپ پر منحصر ہے موقع دیکھتے ہی چوکا مارنا جانتے ہیں تو پھر سیاست کریے، ورنہ صرف غلامی ہوگی سیاست نہیں، ہاں! آپ اسے “نام” جو چاہیں دے سکتے ہیں.
محمد زاہد علی مرکزی (کالپی شریف)
رکن :روشن مستقبل دہلی
چئیرمین تحریک علمائے بندیل کھنڈ