[ad_1]
مجھے ہے حکمِ اذاں
کئ کتابی حضرات نئ بحث چھیڑ بیٹھے ہیں کہ ہم جمہوری ملک میں رہتے ہیں وہاں یہ نعرہ “گستاخِ رسول کی ایک سزا سر تن سے جدا” لگانا اسلام کی شبیہ کو بگاڑنے اور اسلام کو ایک انتہا پسند مذہب ظاہر کرنے کے مترادف ہے. بلکہ گستاخ کے خلاف ہندوستان کے دستوری حق کو استعمال کر کے قانونی سزا کا مطالبہ کرنا چاہیے.
ہماری ان امن زدہ حضرات سے گزارش ہے کہ اولاً یہ بات اچھی طرح ذہن نشیں کر لیں :
قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
اسلام کا یہ دو ٹوک موقف ہے کہ شاتمِ رسول واجب القتل ہے اگرچہ توبہ بھی کر لے تو اسے بطور حد قتل کیا جائے گا.
اب جمہوری ملک میں شاتمِ رسول کی سزا پر آتے ہیں کہ فی الحال ہندوستان کے آئین و قانون میں شاتمِ رسول کی سزا قتل ہے ہی نہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ اس کی زبان بندی یا مدتِ معینہ کے لیے جیل ہے وہ بھی بطور سزائے اہانتِ رسول نہیں بلکہ مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے اور امن بین المذاہب کو خراب کرنے کی پاداش میں.
ہندوستان میں گستاخئ ختم مرتبت صلی اللہ علیہ وسلم کے مرتکبین کی فہرست بڑی طویل ہے. ہمیں ایسا ایک بھی واقعہ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں نہ ملا جس میں کسی کو گستاخئ رسول کی پاداش میں عدالت سے حکمِ قتل یا حکمِ تعزیر ہوا ہو اور اگر ہم لوگ اپنی ایف آئی آر اور میمورینڈم کے زور پر گستاخ کو جیل بھی کروا دیں تو کیا اسلام کی تجویز کردہ سزائے شاتمِ رسول کا نفاذ ہو جاتا ہے ؟
بقول امام اہل سنت بریلوی ہندوستان دار الاسلام ہے۔ دار الاسلام میں گستاخِ رسول کی سزا میں رعایت کرنے کا حق کیسے حاصل ہو گیا ؟ جس کو اسلام نے بطور حد قتل کرنے کو کہا اسے آپ بطور تعزیر جیل خانہ بھیجنا چاہتے ہیں. ہم جتنا زور گستاخ کو جیل بھیجنے میں لگاتے ہیں اس کا آدھا بھی گستاخ کو قتل کرنے پر لگائیں تو شاید دوبارہ گستاخی کرنے سے پہلے گستاخوں کی روحیں کانپیں.
برائے عبرت ایک واقعہ کی طرف اشارہ کروں گا کرناٹک کے شہر بنگلور میں ایک سیاستدان کے قریبی نے فیس بک پر حضور کی گستاخی کی. شہریوں نے اس کی گرفتاری کا مطالبہ کرنے کے لیے علاقائی تھانے کے روبرو زور دار احتجاج کیا. کسی طرح احتجاج اشتعال انگیزی کا شکار ہو گیا توڑ پھوڑ تک بات پہنچی اور اس جرم کے نتیجے میں مسلمانوں کی گرفتاریاں شروع ہوئیں. آج گستاخ آزاد گھوم رہا ہے لیکن گرفتار ہونے والے مسلمان جیل میں سلاخیں گن رہے ہیں اور ان پر دہشت گردی کے مقدمے چل رہے ہیں. اس بات کو چھ ماہ سے زیادہ کا عرصہ ہو رہا ہے.
لب لباب یہ ہے کہ ہندوستان میں ہندو اکثریت جمہوریت کے دام سے کب کی آزاد ہو چکی اب وہ اقلیتوں کے خلاف جمہوریت کو زنجیر کے طور پر استعمال کرتی ہے.
ایسے عالم میں ہمارے یہ نرے دانشور و سیاسی غلام مولوی جب جمہوریت کا راگ الاپتے ہیں تو روح کوفت محسوس کرنے لگتی ہے. خدارا اس جامِ نیند آور (جمہوریت) کو اپنے دینی احساسات پر حاوی نہ ہونے دیں بقول علامہ اقبال :
بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ہے
بہ مصطفےٰ برساں خویش را کہ دیں اوست
اگر بہ او نہ رسیدی تمام بو لہبی است
[ad_2]
Source link