اس وقت ملک کرونا سنکٹ سے جوجھ رہا ہے۔ اب تک تقریباً ڈیڑھ کروڑ افراد کرونا سے متاثر ہوچکے ہیں، جن میں پونے دو لاکھ کی موت ہوچکی ہے۔ ہسپتالوں میں بیڈ نہیں، سمسانوں اور قبرستانوں میں جگہ نہیں۔ کچھ لوگ کرونا سے مر رہے ہیں تو کچھ کرونا کے خوف سے بھاگتے ہوئے بھوک اور پیاس سے مر رہے ہیں۔ ایسے حالات میں بھی فسطائی اور فرقہ پرست طاقتیں کرونا سے تحفظ کے بجائے کرونا پر سیاست کر رہی ہیں۔ کچھ ان سے بھی خطرناک وائرس ہیں جو اس نازک وقت میں بھی ہندو مسلم منافرت کا زہر گھول رہے ہیں۔ گذشتہ دنوں اس سیاق میں ایک فسطائی نام نرسنگھانند کا سامنے آیا، جس نے اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ کے خلاف زہر افشانی اور گستاخانہ باتیں کرکے ملک کے امن و امان کو بگاڑنے کا کام کیا۔
میں نے کہا کہ اس قسم کے لوگ کرونا سے بھی زیادہ خطرناک وائرس ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کرونا سے انسان مر رہے ہیں اور ایسے لوگوں کی بدزبانی سے ملک میں انسانیت مر رہی ہے۔ کرونا ایک ایسی مصیبت ہے جو ذات اور دھرم دیکھ کر نہیں آتی۔ اس کی وجہ سے سب کے اندر ایک دوسرے کے ساتھ ہم دردی اور رواداری کےجذبات پیدا ہورہے ہیں۔ اس کے برخلاف نرسنگھا نند جیسے زہریلے لوگ ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب میں زہر گھول رہے ہیں اور دونوں طرف کے جذباتی لوگوں کو مشتعل کر رہے ہیں۔ اس قسم کے لوگ بظاہر اسلام اور مسلمانوں کے دشمن ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ اس سے زیادہ کہیں ملک اورآئین کے دشمن ہیں۔ ان کی وجہ سے اہل وطن کی توجہ ملک میں قائم جہالت،غربت،بے کاری، بیماری اور سب سے بڑھ کر کرونا سے مڑکر ہندو مسلم منافرت کی طرف مبذول ہو رہی ہے۔ اس سے چند لوگوں کو وقتی طور پر ووٹ کا تو فائدہ ہوسکتا ہے، لیکن یہ عمل ملک کی تعلیم و ترقی، تجارت و معیشت اور امن و سکون کوکس قدر نقصان پہنچا رہا ہے، اس کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
نرسنگھا نند کون؟
نرسنگھا نند کا تعلق راج پوت فیملی سے ہے۔ بہ زبان خود روس سے انجینیرنگ کی تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد روس اور انگلینڈ میں کئی سالوں تک ملازمت کی۔ نرسنگھا کے والد کانگریس سے وابستہ رہے۔ سیاست کا شوق ہوا تو یہ صاحب بھی ہندوستان واپس ہوئے۔کچھ دنوں تک سماج وادی پارٹی سے وابستہ رہے اور جب یہاں بھی دال نہیں گلی تو مندر پکڑلیا اور مہنت جی بن بیٹھے۔ اس سے بھی کام نہیں چلا تو اب اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے میں موجود ہیں۔ یہ مشغلہ اب ہندوستان میں بھی ایک کامیاب تجارت کا روپ دھار تا جا رہا ہے، کیوں کہ کچھ شاطر دماغوں نےناخواندہ اور جذباتی ہندؤوں کی ایک بڑی تعداد کوایسا اندھ بھکت بنا دیا ہے کہ انہیں مسلمانوں کے خلاف شرانگیزی اور زہر افشانی، روزی روٹی اور تعلیم و تجارت سے بھی کہیں زیادہ بھلی معلوم لگنے لگی ہے۔
پس پردہ
نرسنگھا نند جیسے بے لگام لوگ بے تکان بولتے ہیں اور بغیر سوچے سمجھے منہ میں جو کچھ آتا ہے، بولتے چلے جاتے ہیں۔ یہ مسلمانوں اور ملک کی دیگر اقلیتوں؛ سکھ، عیسائی، ہریجن اور دوسر سیکولر مزاج اور امن پسند لوگوں کے جذبات کو مجروح کرتے ہیں اور انہیں مشتعل کرتے ہیں۔ اس قسم کے زہریلےسانپ وقت وقت سے یکے بعد دیگر نکلتے رہتے ہیں اور ہندوستان کی مختلف اقلیتوں کے جذبات مجروح کرتے رہتے ہیں۔ وقتی طور پر اور فطری طور پر کچھ لوگ مشتعل ہوکر غیر قانونی یا جذباتی زبان بول بھی جاتے ہیں، جسے یہ لوگ اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔
معاملہ یہ ہے کہ ملک کی بعض سیاسی اور بعض نیم سیاسی پارٹیوں کا وجود ہی فرقہ وارانہ منافرت پر قائم ہے۔وہ دن ان کی موت کا دن ہوگا جس دن اہل وطن کا محبتوں بھرا ماضی لوٹ آیا یا ملک کے عام شہریوں کی نظر ملک کے اصل مسائل کی طرف متوجہ ہوگئی۔ اس لیے محبت اور عمل کی دشمن یہ پارٹیاں گاہے بگاہے ایسے افراد کوبےلگام چھوڑ دیا کرتی ہیں، تاکہ ان کی پسند کا کھیل جاری رہے۔ ملک کنگال ہو ، لیکن مٹھی بھر صنعت کاروں کے سپورٹ سے اور ملک کے بھولے بھالے عوام کی ووٹ سے وہ اپنی کرسی اقتدار کو تھامے رہیں۔
کرنے کے کام
یہ وقت ملت اسلامیہ کے لیے اور خصوصاً وطن عزیز کے لیے انتہائی نازک وقت ہے۔ ایسے وقت میں جوش کے بجائے ہوش اور جذبات سے زیادہ تدبیر و تفکیر پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ملک کے اعلیٰ اور روشن دماغوں کو دو قسم کی منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔ایک قلیل مدتی منصوبہ بندی(short term planning) اوردوسری طویل مدتی منصوبہ بندی(long term planning) ۔
قلیل مدتی منصوبہ بندی کے طور پر ہمیں حسب ذیل چند امور پر توجہ دینی چاہیے:
۱-اس قسم کے جب بھی واقعات رونما ہوں تو اس کے رد عمل میں اشتعال اور جذبات سے بچا جائے۔زبان قانونی استعمال کی جائے اور جو کچھ بھی کیا جائے،قانون کے دائرے میں رہ کر کیا جائے۔ ۲-اس قسم کے جب بھی واقعات ہوں تو ان کو اپنے حسن تدبر سے ہندو مسلم کیس بننے سے روکا جائے۔
۳-ایسے مواقع پر فوری طور پر جو بیانات آئیں تو بیانات دیتے وقت مختلف المسالک، مختلف المذاہب اور مختلف الافکار لوگوں کو ساتھ رکھا جائے۔
۴-احتجاج ضرور کیا جائے، آواز اٹھائی جائے اور حسب ضرورت روڈ پر بھی آیا جائے۔ لیکن اس کے ساتھ حسب موقع ایف آئی آر درج کرای جائے، ضلع اور ریاست کی انتظامیہ تک اپنی بات پہنچائی جائے۔ ان تمام باتوں کے نتائج دیر یا سویر ضرور آتے ہیں۔
۵-ایسے مواقع پر آپس میں نہ الجھا جائے، مسلک مسلک یا مذہب مذہب کی راگ نہ الاپی جائے، نام زد طور پر اپنے لوگوں پر تنقیدات اور ان سے مطالبات نہ کیے جائیں، نہ یہ کوشش کی جائے کہ ہر مسئلے میں پوری ملت شامل ہوجائے۔ حسب توفیق کچھ لوگ میدان میں آئیں اور کام کریں اور حسب ضرورت دوسرے لوگ سامنے سے یا پس پشت تائید و حمایت کریں۔
طویل مدتی منصوبہ بندی کے طور پر حسب ذیل امور اہم ہیں:
۱-ملی اور قومی سطح پر اعلیٰ تعلیم کا نظم ہماری سب سے بڑی ضرورت اور ملک و ملت کے مسائل کا سب سے بڑا حل ہے۔ مسلمانوں نے گذشتہ ڈیڑھ سو سالوں سے ہندوستان میں حکومت سے آزاد رہ کر مدارس کا غیر معمولی نیٹ ورک قائم رکھا۔ اس نیٹ ورک نے دینی علوم اور دینی جذبات کو ملت میں زندہ رکھا۔ اب ایسی ہی گرم جوشی اور منصوبہ بندی اسکولنگ کے حوالے سے کرنی ہوگی۔ اگر مسلمان اور دوسری اقلیتیں یہ کام اپنے طور پر کم منافع کے ساتھ ہر جگہ شروع کرتی ہیں تو اس سے تعلیم، ترقی، ملی وقومی شعور اور اعتدال و بصیرت جیسے جواہر قوم میں پیدا ہوں گے۔ نفرت انگیز فسطائیت کا سب سے بڑا جواب یہی ہے۔
۲-تجارت اور تعلیم کے ماہرین ایک بار پھر گاندھی جی کے معاشی نظریات کے احیا و فروغ کی طرف متوجہ ہوں۔ ملک کی معیشت مٹھی بھر صنعت کاروں کی مٹھی میں قید ہوتی جارہی ہے۔ اس سے افلاس اور مہنگائی دونوں غیر معمولی طور پر بڑھنے لگی ہے۔ یہ صورت حال وطن اور اہل وطن کے حق میں لاکھ مضر سہی، فسطائیت پرستوں کے لیے بہت مفید ہے۔فسطائیوں کی کمر توڑنے اور ملک و ملت کی تعمیر نو کے لیے یہ نکتہ بہت اہم ہے۔ مسلمانوں کو بھی بطور خاص ملازمت کے بجائے چھوٹی چھوٹی صنعتوں اور تجارتوں کی طرف آنا چاہیے۔
۳-جمہوری ریاستوں کی ایک بڑی کمزوری یہ ہوتی ہے کہ برسراقتدار جماعتیں عام طور پر جمہوریت کے چاروں ستون؛ انتظامیہ، عدلیہ، مقننہ اور میڈیا کا استعمال اپنے حسب منشا شروع کردیتی ہیں۔لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ جمہوریت کے یہ چاروں ستون کلیۃً یرغمال ہوچکے ہوں، جیسا کہ آج کل ایسا کہا اور بولا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت کا بنیادی اسٹریکچر سیکولر ہوتا ہے، اس لیے اس کا اسٹریکچر ہی خود ایسا ہوتا ہے کہ اسے کلیۃً یرغمال نہیں بنایا جاسکتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان اداروں پر اور خصوصاً عدلیہ پر اپنا اعتماد قائم رکھنا چاہیے۔ یہ صحیح ہے کہ عدالتوں کے بہت سے غیر منصفانہ فیصلے برسر اقتدار پارٹیوں کے دباؤ میں ہوجاتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی درست ہے کہ بہت سے غیر منصفانہ فیصلے اس لیے سامنے آتے ہیں کہ ان کے لیے ایف آئی آر فائل کرتے ہوئے قانونی نزاکتوں سے بے پروائی برتی گئی ہوتی ہے، یا صحیح طریقے پر ان مقدمات کی پیروی نہیں کی گئی ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی صحیح ہے کہ ابتر ایام میں بھی تبلیغی جماعت کو کلین چٹ، ناحق مسلم قیدیوں کی رہائی اوراس طرح کے متعدد ایشوز میں عدالتی فیصلے منصفانہ اور فسطائیوں کا سر شرم سے جھکادینے والے بھی آتے ہیں۔ اس لیے عدالت پر اعتماد،ایف آئی آر کی درستگی اور مقدمے کی مناسب پیروی پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔اس پہلو کی ایک اہم بات یہ ہے کہ جو لوگ ملک کی جمہوری قدروں کو قائم دائم رکھنا چاہتے ہیں، ان کے لیے بطور خاص ضروری ہے کہ قانون اور بیوروکریسی کی تعلیم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔
۴-ملک کی سیاست انتہائی ابتر اور پر خطر حالات سے دوچار ہے۔ فسطائی طاقتوں کا زور بڑھتا جارہا ہے اور رام راج کے نام پر ملک بہت تیزی کے ساتھ راون راج کی طرف بڑھتا نظر آرہا ہے۔ بہت سے مسلم و غیر مسلم دانشور اس بات کا کھل کر اظہار کرنے لگے ہیں کہ ملک کی جمہوریت خطرے میں ہے۔ دوسری طرف مسلموں، دلتوں، یادؤں ، کمیونسٹوں اور دیگر طبقات کے بیچ ایک غیر یقینی فضا قائم ہے۔ کسی کو کسی پر اعتماد نہیں ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں سیکولرزم کی نمائندہ جماعت یا جماعتیں سامنے آئیں، جو مسجد اور مندر کے جھگڑوں سے اوپراٹھ کر ، تعلیم، صحت اور روزگار کو اپنے منشور میں اولیت دیں۔ ابھی فسطائیت کے لیے میدان خالی ہے اور جب تک کوئی مقابل سامنے نہیں آتا، یہ جن بوتل میں نہیں جانے والا۔ اس لیے یہ وقت ہے کہ کانگریس یا دوسری علاقائی پارٹیاں پارٹی بچاؤ کی نفسیات سے نکل کر دیس بچاؤ کی نفسیات کی طرف آئیں اور ایثار و قربانی اور جدوجہد کا مظاہرہ کریں۔ سیاست میں مسلمانوں کو بھی اب تیزی سے بڑھنا چاہے، لیکن ان کے لیے بھی یہی فارمولا ہے کہ ان کا منشور مسلمان بچاؤ کا نہ ہو، بلکہ دیس بچاؤ کا ہو۔ یہ بہت ہی حساس اور سنجیدہ موضوع ہے۔
۵-قومی اور ملی اتحاد کو ہر قیمت پر یقینی بنایا جائے۔ ہم کسی ہندو کی بدتمیزی پر مطلقاً ہندؤوں کے خلاف محاذ کھول دیتے ہیں، اسی طرح کسی وہابی یا دیوبندی کے غیر سنجیدہ بیان و اسلوب کے سبب اس پورے مسلک کے خلاف سینہ سپر ہوجاتے ہیں۔ در اصل فرقہ پرست عناصر ہم سے یہی چاہتے ہیں اور ہم اپنے جذبات سے بے قابو ہوکر غیر شعوری طور پر انہی کے منصوبے پر کام کرنے لگتے ہیں۔ لکم دینکم ولی دین کا اصول، صوفیانہ رواداری، مشترکہ قومی و ملی مجالس کے ذریعے ہم بڑی حد تک اس زہر کا تریاق تلاش کرسکتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ملک کی اکثریت اس وقت بھی رواداری، محبت اور بھائی چارے کی قائل ہے، یہ چند فرقہ پرست عناصر ہیں جو کبھی بھی ہمیں قومی اور ملی سطح پر جمع نہیں ہونے دیتے۔ قومی اور ملی اتحاد کے ذریعے بہر صورت ہمیں ان کی سازش کو ناکام بنانا ہوگا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ مختلف مذاہب اورمسالک کے وابستگان اپنے اپنے مذہب ومسلک پر قائم رہتے ہوئے، قوم اورملت کا احترام کرنا سیکھیں، فکری و نظریاتی اختلافات کے باوجود مشترکات پر بے باکانہ اور مخلصانہ جمع ہوں۔چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے کے خلاف آستینیں چڑھانا چھوڑیں اور قومی و ملی ہر دو سطح پر لا اکراہ فی الدین اور لکم دینکم ولی دین کو اپنا شعار بنا لیں۔
ان نکات پر غور کیا جائے اور انہیں رو بہ عمل لایا جائے تو فسطائیت کا جن شاید بوتل میں بند ہوجائے یا اس کا شر کچھ کم ہوجائےاور ملک و ملت کرونا سے بھی زیادہ خطرناک وائرسز سے سلامت رہیں۔