[ad_1]
امریکا کے صدارتی الیکشن میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد مشرق وسطیٰ کے حالات کیا رخ اختیار کریں گے، اس کے بارے میں فی الحال تو کچھ نہیں کہا جا سکتا البتہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی انتظامیہ میں جو نام شامل کر رہے ہیں، ان کا پس منظر دیکھتے ہوئے یہی لگتا ہے کہ اسرائیل کے حوالے سے امریکا کی ریاستی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی بلکہ عین ممکن ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ صدر جوبائیڈن کی انتظامیہ سے بڑھ کر اسرائیل کی حمایت کرے۔
اسرائیل کی نیتن یاہو حکومت کی پالیسی میں بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی اور وہ مسلسل جارحانہ حکمت عملی اختیار کیے ہوئے ہے۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق اسرائیلی کارروائیاں غزہ سے بڑھ کر لبنان اور شام تک وسیع ہو چکی ہیں اور ان میں کوئی کمی آنے کے بجائے شدت آ رہی ہے۔
گزشتہ روز کی میڈیا اطلاعات کے مطابق اسرائیلی فوج نے غزہ، لبنان اور شام میں جارحیت جاری رکھی، ان حملوں میں 62 افراد کے مارے جانے کی اطلاعات ہیں۔ غزہ کی پٹی پر اسرائیلی جارحیت کو 406 روز ہو گئے ہیں۔
اس روز اسرائیلی فوج کی پوری غزہ کی پٹی میں بمباری اور گولہ باری جاری رہی۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق تازہ حملوں میں مزید 24 فلسطینی شہید ہوئے ہیں جب کہ 112 زخمی ہوئے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق جب سے جنگ شروع ہوئی ہے، غزہ میں شہدا کی تعداد 43736 ہوگئی ہے۔
لبنان میں شہری دفاع کے دو مراکز پر اسرائیلی بمباری میں 18افراد مارے گئے ہیں۔ لبنان کی وزارت صحت کے مطابق النبطیہ میں چار پیرامیڈکس سمیت چھ افراد شہید ہوئے جب کہ بعلبک کے قریب ایک اور مرکز پر ہونے والے دوسرے حملے میں 12 امدادی کارکن مارے گئے۔
لبنان میں اب تک 3386افراد مارے جا چکے ہیں۔ جنوبی لبنان کے علاقے صیدا میں لبنانی خاتون صحافی سقینہ منصور کوثرانی شہید ہوگئیں۔ لبنانی رکن پارلیمنٹ تیمور جمبلاط نے کہا ہے کہ حزب اللہ کی قیادت کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اس کا کوئی بھی فوجی اور سیاسی کارکن نقل مکانی کرنے والے مقامات پر نہ جائے کیونکہ خدشہ ہے کہ اسرائیل انھیں نشانہ بنائے گا۔
ذرائع کے مطابق لبنان میں حزب اللہ کو جنگ بندی کی تجویز کا مسودہ سپرد کیا گیا جس کا وہ مطالعہ کر رہی ہے۔ ادھر اسرائیل نے بیروت کے جنوبی مضافاتی علاقوں پر جارحیت تیز کردی ہے۔ اسرائیلی فورسز نے جنوبی لبنان اور لبنان کے مشرق میں بھی حملے کیے۔
اسرائیلی فوج نے شام کے دارالحکومت دمشق پر بھی بمباری کی اور اس کے حملوں میں 20افراد جاں بحق ہوگئے ہیں۔ دمشق کے مغرب میں المزہ کالونی اور قدسیا میں واقع متعدد عمارتوں پر بمباری کی ہے ۔ اسرائیلی آرمی ریڈیو نے کہا کہ اہداف میں فلسطینی اسلامی جہاد موومنٹ کا ہیڈکوارٹرز اور دیگر اثاثے شامل تھے۔
ان سارے واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل لبنان اور شام میں جارحیت ایک حکمت عملی کے تحت کر رہا ہے۔ اسرائیل حماس اور حزب اللہ کے سربراہوں کو نشانہ بنا چکا ہے۔
اسرائیلی فورسز نے ایرانی اہم شخصیات پر بھی حملے کیے ہیں۔ ادھر امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں اپنے مقاصد حاصل کر لیے ہیں اور اب جنگ ختم کرنے کا وقت ہے۔
یہ وقت ہے کہ اسرائیل غزہ میں جاری جنگ کو ختم کرنے کی جانب بڑھے۔ طویل عرصے کے لیے حقیقی طور پر جنگ میں وقفہ کیا جائے تاکہ متاثر ہونے والی آبادی تک بنیادی اور فوری امداد پہنچائی جا سکے۔
امریکا کے موجودہ صدر اور جوبائیڈن اور ان کی انتظامیہ موجودہ حالات میں کوئی فیصلہ کن اقدام نہیں کر سکتی۔ امریکی وزیر خارجہ نے جو بیان جاری کیا ہے، اس کی بھی بہت زیادہ اہمیت نہیں ہے کیونکہ سب کی نظریں ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ پر ہیں۔
جیسے ہی وہ حلف اٹھائیں گے، تب ہی پتہ چلے گا کہ امریکا کی اسرائیل اور فلسطینیوں کے حوالے سے اور مجموعی طور پر مشرق وسطی کے لیے کیا پالیسی ہے۔ متحدہ عرب امارات نے ’’متحدہ عرب امارات لبنان کے ساتھ کھڑا ہے‘‘ نامی مہم کے تحت لبنان میں خواتین کے لیے 80 ٹن ضروری اشیاء پرمشتمل امدادی سامان سے لدھے 2 طیارے بھیج دیے۔
اقوام متحدہ کی امن فوج کے سربراہ نے کہا ہے کہ اسرائیل لبنان سرحد پر لبنانی فورسز کی دوبارہ تعیناتی حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان ایک سال سے زیادہ عرصے سے جاری جھڑپوں کے کسی بھی حل کی جانب ایک اہم قدم ہے۔
امن سے متعلق کارروائیوں کے لیے اقوام متحدہ کے انڈر سیکریٹری جین پیئر لاکرویکس نے اپنے تین روزہ دورے کے اختتام پر بیروت میں ایک بریفنگ کے دوران صحافیوں کو بتایا کہ کسی بھی پائیدار حل کے لیے لبنانی مسلح افواج کی دوبارہ تعیناتی مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔
دو ہفتے قبل عالمی اور ملکی میڈیا نے خبر دی تھی کہ اسرائیلی سرکاری میڈیا نے جنگ بندی تجویز کا مسودہ نشرکیا ہے۔ اسی دوران نگران لبنانی وزیراعظم نجیب مکاتی کا بیان بھی سامنے آیا جس میں انھوں نے امید ظاہرکی کہ چند گھنٹے میں جنگ بندی ہوجائے گی البتہ جنگ بندی کی خبروں پر وائٹ ہاؤس نے رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل لبنان جنگ بندی سے متعلق رپورٹس اور مسودے زیرگردش ہیں مگر یہ مذاکرات کی عکاسی نہیں کرتے۔
اب حماس کے حوالے سے بھی ذرایع ابلاغ میں خبر آئی ہے کہ حماس بھی جنگ بندی کے لیے آمادہ ہے۔ ایسی خبریں پہلے بھی آتی رہی ہیں، لیکن اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ یہ خبریں عملی جامہ کب پہنتی ہیں۔ فی الحال تو جنگ جاری ہے۔ گزشتہ سال اکتوبر سے اسرائیل کے غزہ پر حملے مسلسل جاری ہیں۔
حزب اللہ نے غزہ کے فلسطینیوں کی حمایت کے طور پر شمالی اسرائیل پر حملوں کا آغازکیا اور راکٹس فائرکرنا شروع کیے جس کے جواب میں اسرائیل نے بھی سرحد کے قریب واقع لبنانی علاقوں پر بمباری کا آغازکیا جس کے بعد دونوں ممالک کے ہزاروں افراد بے گھر ہوگئے۔
اسرائیلی حملوں میں حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل اور سربراہ حسن نصراللہ سمیت بہت سے سینئرکمانڈرز شہید ہوچکے ہیں۔ لبنانی وزارت صحت کے مطابق ایک ہزار سے زائد لبنانی شہید اور 6 ہزار سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ تنازعے میں لبنانی فوج کا کوئی کردار ہے؟ اس کا جواب ہے نہیں، لبنانی فوج کی ایک بڑی تعداد ملک کے جنوبی حصے میں موجود ہے۔ اس سے یہی لگتا ہے کہ لبنان بحیثیت ریاست اس جنگ کا حصہ نہیں ہے لیکن یہ بھی سوال ہے کہ لبنان کی فوج کب تک اس جنگ میں خاموش رہے گی؟ دوسری جانب غزہ میں عرصہ ایک سال سے اسرائیلی کارروائیاں جاری ہیں۔
اس معاملے پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادیں بھی منظورکی گئی تھیں، لیکن ان پر عمل درآمد سے اجتناب کر کے بڑی طاقتوں نے اپنے مفادات کا کھیل کھیلا ہے۔
غزہ اور دیگر فلسطینی بستیوں میں بیشتر مکان، اسکول، تجارتی مراکز، دفاتر، اسپتال اور مساجد دن رات کی بمباری سے مسمار کرکے ملبے کے ڈھیروں میں تبدیل کر دی گئی ہیں۔ امریکا مسلسل اسرائیل کی سرپرستی کررہا ہے اور نیتن یاہوکسی جنگ بندی سے قبل اپنے اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کی شرط تسلیم کرنے پر ہی زور دیتا ہے۔
بصورت دیگر انھیں کوئی جنگ بندی قبول نہیں ہے۔ یہ بہت المناک صورت حال ہے۔ یورپی ممالک امریکا، ایشیاء، افریقہ اور دیگر ملکوں میں کئی بار احتجاجی مظاہرے کر کے اسرائیلی حکومت سے فوری جنگ بندی کی بار بار اپیلیں کی گئیں لیکن تادم تحریر وہاں کے وزیر اعظم نے سب احتجاجی اپیلوں کو یکسر مسترد کر کے یہ تاثر دیا ہے کہ وہ کسی کی نہیں سنتا اور نہ ہی مانتا ہے۔
امریکا نے چند بار ویٹو کا اختیار استعمال کر کے جنگ بندی کی کئی قراردادوں کو ناکام کیا ہے۔ امریکا کی پیش کی گئی ایک قرارداد کئی ہفتے قبل سلامتی کونسل کے 14 رکن ممالک کی حمایت اور بغیر کسی مخالفت کے منظور کی گئی لیکن اب تک عمل درآمد کے کوئی سنجیدہ آثار اور حالات نظر نہیں آتے۔
اسرائیل کی عربوں اور فلسطینیوں سے کوئی بھی جنگ اتنی طویل نہیں ہوئی جتنی موجودہ جنگ ہے۔ ایک سال گزرنے کے بعد بھی یہ نہ صرف جاری ہے بلکہ علاقے میں پھیل کر عالمی جنگ کے خطرے میں تبدیل ہوچکی ہے۔
لبنان، اور ایران اس لڑائی کے الگ الگ محاذ بن چکے ہیں۔ یہ پھیلاؤ حماس کے مقاصد کو پورا کرتا ہے۔ اسرائیل کا اپنے متعدد دشمنوں کے ساتھ الجھ جانا اور اس کی طاقت کمزور تر ہوجانا، حماس کے لیے سود مند ہے۔
دنیا کے اسٹیج پر مسئلہ فلسطین کا ایک بڑے عالمی تنازع کی صورت میں نمودار ہونا بھی فلسطینیوں کی کامیابیوں میں سے ایک ہے۔ بہرحال ٹرمپ انتظامیہ پر اس وقت خاصا دباؤ ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں اپنے تمام اتحادیوں کو ساتھ لے کر چلے۔ اس مقصد کے لیے اسے اسرائیل کو مجبور کرنا ہو گا کہ وہ غزہ میں نہ صرف جنگ بندی کرے بلکہ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے بھی تیار ہو جائے۔
[ad_2]
Source link