[ad_1]
انتخابی بساط پر سبھی پارٹیاں اپنی اپنی چال چل رہی ہیں، کانٹے کے مقابلے میں اونٹ کسی بھی کروٹ بیٹھ سکتا ہے۔
یہ لوگ اتنا پیسہ کہاں سے حاصل کرتے ہیں؟ مہاراشٹر میں ایک ٹی وی ناظر کا رد عمل کچھ ایسا ہی تھا جب وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے کے لیے ایک ہی اشتہار کو 5 منٹ کے پروگرام میں 4 مرتبہ دکھایا گیا۔
ممبئی کے سیاسی مباحث میں ایسی مزیدار باتیں سامنے آتی رہتی ہیں۔ تازہ بحث یہ چل رہی ہے کہ شندے نے سبھی 288 سیٹوں پر این ڈی اے کی تشہیر کے لیے پیسے دینے کی پیشکش کی تھی جسے مہایوتی کے ایک سینئر شراکت دار نے نامنظور کر دیا۔ دوسری بحث ایک یوٹیوب چینل پر صحافی اشوک وانکھیڑے کے اس دعوے کو لے کر رہی جس میں انھوں نے کہا کہ انتخاب میں دھاندلی کے لیے گجرات سے مہاراشٹر تک 3400 کروڑ روپے پہنچے ہیں۔ یہ دعوے غیر مصدقہ ہیں، لیکن یہ تو واضح ہے کہ بڑی رقم کا کھیل چل رہا ہے۔ فنانشیل سنٹرس کے عالمی انڈیکس میں ممبئی دوسرے مقام پر کھسک چکا ہے اور گجرات انٹرنیشنل فائنانس ٹیک سٹی (گفٹ سٹی) پہلے مقام پر پہنچ گیا ہے۔ ایسے میں فطری طور سے داؤ پہلے سے کہیں زیادہ بڑے ہیں۔
مہایوتی، خصوصاً بی جے پی اور شندے پر ممبئی کو اڈانی گروپ کو فروخت کرنے کا الزام ہے، جس نے دھارای ری ڈیولپمنٹ پروجیکٹ کے دائرے سے کہیں زیادہ زمین ہتھیا لی ہے۔ مہاوکاس اگھاڑی نے وعدہ کیا ہے کہ اقتدار میں آنے پر اس معاہدہ کو رد کر دیا جائے گا۔ سیبی سے جڑے تنازعات میں پہلے سے ہی الجھا اڈانی گروپ مہاراشٹر میں حکومت کے ساتھ کسی دشمنی میں جانے کا جوکھم اٹھانے کی حالت میں نہیں لگتا۔
سیاسی تجزیہ نگار راجو پارولیکر کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ 10 کابینہ میٹنگوں میں سے ہر ایک میں اڈانی گروپ اور دیگر کرونی کیپٹلسٹ کو کچھ نہ کچھ ان کے مطابق رعایتیں دی گئی ہیں۔ مبینہ طور پر ضلع کلکٹرس کو حکومت کے ذریعہ ’لاڈکی بہن‘ منصوبہ کے تحت دستاویزات کی جانچ کے بغیر رقم ٹرانسفر کی ہدایت دی گئی ہے۔ ہر خاتون کو ہر مہینے 1500 روپے مل رہے ہیں۔ اگر کسی کنبہ میں 4 اہل خواتین ہیں تو اس فیملی کو ہر مہینے 6000 روپے مل رہے ہیں۔ ممبئی کے ایک صحافی کا کہنا ہے کہ ’’یہ تقریباً طے ہے کہ اس معاملے میں آڈٹ کے اعتراضات اٹھائے جائیں گے۔‘‘ بجٹ سے متعلق امداد طویل مدت تک اس منصوبہ کو بنائے رکھنے میں اہل نہیں ہوگا۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ مہنگائی کے سبب اس طرح کا کوئی بھی فائدہ بے اثر ہو گیا ہے۔ شیوسینا (یو بی ٹی) لیڈر آدتیہ ٹھاکرے کہتے ہیں ’’ہاں، یہ مددگار ہے لیکن خواتین کی دوسری فکریں بھی ہیں۔ انھیں احساس ہے کہ یہ ووٹ حاصل کرنے کا ایک ہتھکنڈا محض ہے۔‘‘ اگر ایسا نہیں ہے تو انتخاب سے تین مہینے پہلے انھیں اچانک خواتین کی ضرورتوں کا احساس کیوں ہوا؟
انتخابی تشہیر میں پیسوں کا غلط استعمال روکنے میں الیکشن کمیشن ایک بار پھر بے بس ثابت ہوا ہے۔ نقدی کے ناجائز لین دین کو لے کر پرائیویٹ گاڑیوں اور پبلک بسوں کی مستقل چیکنگ کی جا رہی ہے۔ کچھ لوگوں نے کمیشن کو پولیس گاڑیوں اور ایمبولنس کی بھی جانچ کرنے پر غور کرنے کا مشورہ دیا ہے۔
تینوں سینائیں اور پوری ریاست داؤ پر
دونوں شیوسینا، مہاراشٹر نو نرمان سینا اور شرد پوار و اجیت پوار کی قیادت والی این سی پی کا مستقبل اس انتخاب پر منحصر ہے۔ سابق وزیر نواب ملک نے ایک انٹرویو میں کہا کہ اس بار 25-20 اراکین اسمبلی والی کوئی بھی پارٹی کنگ میکر کی شکل میں ابھر سکتی ہے اور اجیت ’دادا‘ پوار پر نظر رکھنی ہوگی۔ ایک انٹرویو کرنے والے سے اجیت پوار کا کہنا رہا ہے کہ مہاراشٹر میں ہر کوئی اقتدار چاہتا ہے۔ نظریات کے لیے یہاں کوئی جگہ نہیں رہ گئی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا رہا ہے کہ انتخاب کے بعد پارٹیوں کا نئے سرے سے اتحاد ہو سکتا ہے۔
لیڈروں کے سلوک کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ ناممکن لگتا ہے کہ سینائیں (دونوں شیوسینا اور مہاراشٹر نونرمان سینا) ایک ساتھ آ جائیں۔ بی جے پی کی بی ٹیم مانی جانے والی ایم این ایس نے 100 امیدوار اتارے ہیں، لیکن راج ٹھاکرے کو اب سینا کی وراثت کے جانشیں کی شکل میں نہیں دیکھا جاتا ہے۔ بی جے پی سے اتحاد کر کے، دیویندر فڑنویس کی تعریف کر کے اور یہ پیشین گوئی کر کے کہ نتائج مہایوتی کے حق میں آئے تو اگلا وزیر اعلیٰ بی جے پی سے ہوگا، وہ نئے حکومتی نظام میں حصہ داری کے لیے کوشش کرتے محسوس ہو رہے ہیں۔ بی جے پی کے ذریعہ شیوسینا میں تقسیم کی سازش تیار کرنے کے سبب شیو سینکوں کا بی جے پی کے تئیں بھروسہ کم ہوا ہے۔
راج ٹھاکرے اور شندے کے درمیان بھی سب کچھ ٹھیک نہیں چل رہا ہے۔ جب شندے نے بی جے پی کی اپیل کو نظر انداز کیا اور راج ٹھاکرے کے بیٹے کے حق میں ماہم سے اپنا امیدوار واپس لینے سے انکار کر دیا تو راج نے شندے کی شیوسینا کے خلاف ایم این ایس کے امیدوار کو اتار دیا۔ اس جھگڑے سے ’مراٹھی مانوس‘ ووٹ تقسیم ہو سکتا ہے۔ اسے افسوسناک ہی کہا جائے گا اگر اس سے بی جے پی کو فائدہ ملتا ہے جس نے سرمایہ کاری کو ہائی جیک کر کے اور نئے صنعتی ڈیولپمنٹ کو گجرات لے جا کر ووٹرس کو ناراض کر دیا ہے۔
دونوں شیوسینا 49 سیٹوں پر آمنے سامنے ہیں۔ ان میں سے 3 سیٹیں بہت اہم ہیں۔ ٹھانے میں کوپری سیٹ پر ادھو کی شیوسینا نے آنجہانی آنند دیگھے کے بھتیجے کیدار دیگھے کو شندے کی شیوسینا کے خلاف اتارا ہے۔ ٹھانے حقیقی شیوسینا کا قلعہ اور ایکناتھ شندے کا آبائی حلقہ ہے۔ شندے یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ دیگھے کے شاگرد رہے ہیں جنھیں ’دھرم ویر‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ہاں، فلم شندے کی تشہیر کا حصہ ہے (چاہیں تو اسے سروگیٹ اشتہار کہہ سکتے ہیں)۔ شیوسینا کے ایک دیگر مضبوط قلعہ ماہم میں راج کے بیٹے امت کا مقابلہ شیوسینا (یو بی ٹی) اور شیوسینا (شندے) کے ساتھ ہے، جبکہ وَرلی میں آدتیہ ٹھاکرے کا مقابلہ شیوسینا (شندے) کے ملند دیوڑا اور ایم این ایس کے سندیپ دیش پانڈے سے ہے۔
پیاز کے بارے میں کون نہیں جانتا؟
زرعی پیداوار اور قیمت کی تقرری پر بی جے پی کے اقدام مایوس کن رہے ہیں۔ 2024 کے لوک سبھا انتخاب سے پہلے مرکزی حکومت نے پیاز کی برآمد پر پابندی لگا دی تھی۔ اسے تبھی ہٹایا گیا جب کسانوں کے غصے کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں رہ گیا۔ اب اسمبلی انتخاب سے پہلے پام آئل اور کپاس کی درآمدات کی اجازت دینے اور دونوں پر درآمدات ٹیکس کم کرنے سے سویابین اور کپاس کی قیمتیں گر گئیں۔ تین سال پہلے سویابین 10 ہزار روپے فی کوئنٹل فروخت ہوتا تھا۔ آج کسان 4200-3800 روپے پر فروخت کرنے کو مجبور ہیں۔ کپاس کے لیے ایم ایس پی 7500 روپے فی کوئنٹل ہے، لیکن اس کی قیمت 6000 روپے سے بھی کم ہے۔
شمالی مہاراشٹر کے جامنیر میں ماحول ناخوشگوار ہے۔ بہت ساری کپڑا ملیں بند ہو چکی ہیں۔ یہ علاقہ کبھی بہت زیادہ ڈیری پروڈکشن کے لیے مشہور تھا، لیکن اب یہاں کی بیشتر ڈیریاں بند ہو چکی ہیں۔ نوجوانوں کے لیے روزگار نہیں ہے۔ سابق رکن پارلیمنٹ اور سوابھمانی شیتکاری سنگٹھن کے بانی راجو شیٹی اس بحران کے لیے سویابین کی خرید میں سرکاری تاخیر کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔
راہل گاندھی نے اس کا تذکرہ کیا ہے کہ کسانوں کو ایم ایس پی (4892 روپے) سے 600 سے 800 روپے کم قیمت پر سویابین فروخت کرنے کے لیے مجبور ہونا پڑ رہا ہے، جبکہ انھیں بازار سے اونچی قیمتوں پر سویابین تیل کی خریداری کرنی پڑ رہی ہے۔ بلڈھانہ کے سویابین کسان گجانن لاندھے نے 2 ایکڑ اراضی پر اگائی گئی سویابین کو موجودہ شرحوں پر فروخت کرنے سے انکار کر دیا۔ کم قیمتوں اور آسان درآمدات نے کسانوں کی کمر توڑ دی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
[ad_2]
Source link