[ad_1]
کراچی:
سرکاری و نجی جامعات میں بیچلر پروگرام کے داخلوں کے آغاز کے باوجود کراچی میں انٹر میڈیٹ سال دوم کامرس گروپ کے سالانہ امتحانات 2024 کے نتائج تاخیر کا شکار ہیں اور اعلی ثانوی تعلیمی بورڈ کراچی کامرس ریگولر کے امتحانات کے اختتام کے تقریبا ساڑھے 3 ماہ بعد بھی نتائج کے اجراء میں ناکام ہے جس سے ہزاروں طلبہ کو جامعات میں داخلوں کے سلسلے میں دشواری کا سامنا ہے۔
یاد رہے کہ کامرس گروپ (ریگولر) بورڈ کی سب سے بڑی فیکلٹی ہے جس میں مجموعی طور پر سال اول و دوم میں 50 ہزار کے قریب طلبہ نے امتحانات دیے تھے اور ہزاروں طلبہ کامرس گروپ (ریگولر) کے امتحانی نتائج کے منتظر ہیں لیکن ان کے امتحانی نتائج ساڑھے 3 ماہ بعد بھی تیاری کے مراحل میں ہی ہیں۔
واضح رہے کہ کئی نجی جامعات کے علاوہ جامعہ کراچی اور اردو یونیورسٹی بی ایس پروگرام کے داخلوں کا آغاز کرچکی ہے، جامعہ کراچی میں داخلہ ٹیسٹ کی بنیاد پر داخلوں کا سلسلہ جاری ہے اور اتوار 17 نومبر کو امیدوار داخلہ ٹیسٹ میں شریک ہورہے ہیں جبکہ اوپن میرٹ پر داخلے بھی آئندہ چند روز میں شروع ہونے ہیں۔
انٹر کامرس ریگولر کے نتائج کا اجرا نہ ہونے کے سبب جامعہ کراچی کی انتظامیہ نے طلبہ کو انٹر سال اول کے نتائج کی بنیاد پر داخلہ ٹیسٹ میں شرکت کی اجازت تو دے دی ہے تاہم ٹیسٹ پاس کرنے کی صورت میں ان کا داخلہ انٹر سال دوم کامرس گروپ کے نتائج کے اجرا سے ہی مشروط ہوگا اور اگر نتائج کے اجرا میں یوں ہی تاخیر ہوتی رہی تو یہ داخلے بھی التوا میں جاتے رہیں گے۔
واضح رہے کہ اتوار کو ہونے والے جامعہ کراچی کے داخلہ ٹیسٹ میں ساڑھے 3 سو کے قریب انٹر کامرس کے ایسے طلبہ شریک ہورہے ہیں جو تاحال اپنے نتائج سے ناواقف ہیں جبکہ اس سے قبل گزشتہ اتوار کو شعبہ وژول اسٹیڈیز کے ٹیسٹ میں بھی نتائج کے منتظر طلبہ شریک ہوئے تھے جبکہ جامعہ کراچی میں کچھ روز بعد شروع ہونے والے اوپن میرٹ کے داخلوں میں کامرس کے ہزاروں طلبہ کو داخلے کی درخواستوں دینی ہیں۔
ایک طالب علم کا کہنا تھا کہ اس نے ساڑھے 4 ہزار روپے کے عوض ٹیسٹ میں شرکت کے لیے اپنا داخلہ فارم تو جمع کردیا ہے تاہم اگر نتائج کے اجرا کے بعد وہ کسی ایک پرچے میں بھی فیل ہوگیا تو اس کی یہ رقم ضایع ہوجائے گی اگر بورڈ نتائج کے اجرا میں اتنی تاخیر نہ کرے تو وہ نتائج کی بنیاد پر ہی داخلوں کے لیے اپنی درخواست جمع کرائیں۔
علاوہ ازیں ادھر’’ایکسپریس ‘‘ کو معلوم ہوا ہے کہ انٹر بورڈ کی انتظامیہ نے نتائج کی تیاری اعر امتحانی کاپیوں کی اسسمنٹ کے سلسلے میں انکوائری کمیٹی کی سفارشات کو بھی نظر انداز کردیا ہے۔ واضح رہے کہ جس سہ رکنی انکوائری کمیٹی کی سفارشات پر انٹر سال اول پری انجینئرنگ/پری میڈیکل کے امتحانی نتائج میں طلبہ کو گریس مارکس دیے گئے تھے اسی سہ رکنی کمیٹی نے اپنی سفارشات کے ضمن میں یہ تجویز کیا تھا کہ اسسمنٹ سینٹرز کی تعداد کم از کم 10 رکھی جائے تاہم بورڈ کے ذرائع بتارہے ہیں کہ اسسمنٹ سینٹرز کی تعداد 4 ہے۔
اسی طرح کمیٹی کی سفارشات میں کہا گیا تھا کہ ہیڈ ایگزامنر،ڈپٹی ہیڈ ایکزامنر ،فیکٹوٹم اور انویجیلیٹرز کی in house training کرائی جائے تاہم امتحانات سے قبل کسی ایسی ٹریننگ کے اطلاعات بھی موصول نہیں ہوئیں۔ ادھر انٹر بورڈ کراچی کی انتظامیہ اس معاملے پر موقف دینے سے گریز کرتی رہی ۔
کامرس ریگولر کے نتائج میں تاخیر اور اسسمنٹ سینٹرز کے سلسلے میں انکوائری کمیٹی کی سفارشات پر عملدرآمد نہ کیے جانے پر ’’ ایکسپریس ‘‘ نے انٹر میڈیٹ بورڈ کراچی کے قائم مقام سیکریٹری امیر حسین قادری جن کے پاس چیئرمین بورڈ کا چارج بھی ہے ان سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر ان کے بجائے کنٹرولر آف ایگزامینیشن سے دریافت کریں۔
قائم مقام ناظم امتحانات زرینہ راشد سے جب اس سلسلے میں پوچھنے کے لیے رابطہ کیا گیا تو ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ یاد رہے کہ این ای ڈی کے وائس چانسلر ڈاکٹر سروش لودھی کی سربراہی میں قائم انکوائری کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں واضح لکھا تھا کہ ڈپٹی کنٹرولر زرینہ راشد دوران تحقیقات دفتر سے مسلسل غائب رہیں تھیں، یاد رہے کہ یہ کمیٹی سابق نگراں وزیر اعلی سندھ جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر کی جانب سے بنائی گئی تھی۔
[ad_2]
Source link