تحفظِ ناموسِ رسالت ﷺ : ہماری جانیں اور ہمارا سب کچھ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی آبرو پر قربان ہے
زوال اُس وقت شروع ہوتا ہے جب رسول اللہ ﷺ کی توہین و بے ادبی سرِ راہ کی جا رہی ہو اور ہماری حمیّت و غیرت مَر چکی ہو۔ کیا بھول گئے وہ لمحہ! جب ڈنمارک اور مغربی ملکوں میں کارٹون بنا کر رسول اللہ ﷺ کی توہین کی راہیں ہموار کی جا رہی تھیں! اُس وقت ہم بیدار تھے۔ سراپا احتجاج تھے۔ پُر امن جدوجہد کی اجازت تو ہمارا آئین بھی دیتا ہے۔ دستوری حق ہے۔ فرانس میں توہینِ رسالت کی جرأت کی گئی؛ تب بھی ہم گستاخ کے خلاف بیدار تھے۔ رُشدی و تسلیمہ نسرین کے فتنے اُٹھے، پادریوں، مذہبی پیشواؤں نے بے ادبی کی جسارت کی ہم نے شدت سے مخالفت کی۔ اپنی زندگی کا ثبوت دیا۔ زندہ قوم ہونے کا مظاہرہ کیا۔ دنیا کو یہ باور کرایا کہ ہم سب کچھ برداشت کر سکتے ہیں؛ رسول اللہ ﷺ کی بے ادبی برداشت نہیں کر سکتے۔ ہمارے ایمانی مزاج کی توضیح تاج الشریعہ کے اس شعر سے ہوتی ہے؎
نبی ﷺ سے جو ہو بیگانہ اُسے دل سے جُدا کر دیں
پدر، مادر، برادر، مال و جاں ان پر فِدا کر دیں
ہماری کوششیں، جدوجہد، قربانیاں، اصلاحی دعوے، فلاحی و علمی کام سب اُس وقت تک نتیجہ خیز، اثر انگیز نہیں ہو سکتے جب تک کہ رسول اللہ ﷺ کی عزت کے لیے ہم بیدار نہ ہوں۔ میٹھی نرم شیریں باتیں کیا معنیٰ رکھتی ہیں جب کہ رسول اللہ ﷺ کی سرِ راہ بے ادبی کی جا رہی ہو اور ہم آرام کدوں میں براجمان ہوں۔ اپنے روز مرہ کے معمولات میں مشغول ہوں! چکنی چپڑی باتوں سے لوگوں کے دل بہلا رہے ہوں!
آج توہین کا بازار یورپ ہی نہیں ہند میں بھی برپا ہے! جرأتیں اِتنی بڑھ گئیں کہ سرِ راہ تری پورہ میں جلوس نکال کر رسول اللہ ﷺ کی توہین کی گئی!! جمہوریت اور قانون کے رکھوالے اِس دہشت گردانہ اقدام پر خاموش ہیں! گویا پشت پناہ بنے ہوئے ہیں! سیکولرازم کی دعوے دار جماعتیں بھی خاموش ہیں۔ مسلمانوں کی مساجد، مکانات برباد کیے جا رہے ہیں! املاک جلائی جا رہی ہیں۔ جانوں سے کھلواڑ کیا جا رہا ہے۔ دہشت گردی کی انتہا یہ کر دی گئی کہ پیغمبر اسلام ﷺ کی توہین پر مشتمل نعرے سرِ راہ لگائے گئے۔ مشرکین کی ان حرکتوں پر قانون کی دوہائی دینے والے بھی خاموش! انسانی حقوق کی باتیں کرنے والے بھی منھ سِلے بیٹھے ہیں۔ اِس مقام پر غیرت و حمیّتِ دینی کو آواز دیجیے۔ بیدار قوم ہونے کا مظاہرہ کیجیے۔
فکرِ علامہ قمرالزماں اعظمی سے استفادہ کرتے ہوئے چند نکات جزوی ترمیم کے ساتھ (افادات از ’’مقالاتِ خطیب اعظم‘‘) پیش ہیں، نواے سحر کو گرہ میں باندھ لیں اور ہوش کی بزم میں تشریف لائیں:
[۱] اظہار اور تحریر کی ایسی آزادی جو دوسروں کی کردار کشی اور توہین کے مترادف ہو، دُنیا کے کسی بھی شائستہ معاشرے میں قابلِ قبول نہیں ہے۔
[۲] دُنیا کے ہر انسان کو اختلاف راے اور آزادیِ تحریر وتقریر کا حق حاصل ہے۔ خود اسلام اس حق کو تسلیم کرتا ہے، مگر اس آزادیِ تحریر وتقریر کے ذریعے اگر کوئی شخص کسی کی کردار کشی کرے تو اسے دُنیا کا کوئی قانون برداشت نہیں کرے گا۔(چہ جاے کہ سب سے عظیم مخلوق رسول اعظم ﷺ کی توہین کی جائے!)
[۳]کیا آزادیِ اظہار کے نام پر کسی ایک فرد کو یہ حق دیا جاسکتا ہے کہ وہ ایک ارب افراد پر مشتمل پوری قوم کے قتل کا ارتکاب کرے۔ (یعنی پوری امتِ مسلمہ کے قلب و روح کو مجروح کرے!)
[۴] حقوقِ انسانی کے مسلّمہ منشور میں دُنیا کے تمام افراد کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ اپنی ذاتی زندگی کا تحفظ کریں، اور دُنیا کے کسی انسان کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی فرد کی ذاتی زندگی کو بلاوجہ تنقید کا نشانہ بنائے۔ ایک عام آدمی کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ اگر کوئی شخص اس کی عزت و وقار کے منافی کوئی اقدام کرے تو وہ اس پر ہتکِ عزت کا مقدمہ دائر کرے۔ پھر آپ خیال فرمائیں! کہ وہ رُسواے زمانہ انسان، جس نے پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار کو مسنح کرنے کی کوشش کی ہے، اس نے بالواسطہ دُنیا کے ایک ارب مسلمانوں کی توہین کی ہے۔
[۵] ہماری جانیں اور ہمارا سب کچھ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی آبرو پر قربان ہے۔
بہر کیف! یقیں کے ساتھ آگے بڑھیں۔ بچوں کے دلوں میں محبت رسول ﷺ کا جذبہ راسخ کریں۔ ہماری تمام نسبتیں اسی وقت کام دیں گی جب کہ رسول اللہ ﷺ کی عزت و عظمت پر قربان ہونے کا جذبہ ہوگا۔ قوم کے جسم میں حرارتِ ایمانی باقی رہے گی تو قوم بچے گی ورنہ جہاں موت کا سا سناٹا طاری ہو؛ وہاں اگر لہو کی ہولی کھیل لی جائے جیسا کہ مشرکین کر رہے ہیں؛ تو یوں ہی ہمارے خاتمہ اور زندہ درگور کا سلسلہ جاری رہے گا۔ ہم نے اگر پوری قوت کے ساتھ اپنے پیغمبر اسلام ﷺ کی عزت کے لیے جدوجہد کی، گستاخوں کو جیل تک کی راہ دکھائی۔ کورٹوں میں ان پر سخت دفعات کے تحت مقدمہ چلوایا۔ ان کے خلاف جمہوری و دستوری آواز قوت کے ساتھ بلند کی تو یقیناً ان کی سازشیں کم زور ہوں گی اور شوکتِ قوم کا اظہار بھی ہوگا۔ تری پورہ کا قضیہ ہمارے لیے بیداری کے اظہار کا موقع ہے۔ ہمیں شرعی دائرے میں گستاخ کے خلاف اقدامات کا جو موقع ملے؛ وہ کر گزرنا چاہیے۔ حالیہ گستاخیوں کے خلاف اب بیداری کا عمل نقطۂ آغاز ثابت ہونا چاہیے!کاش قوم احساسِ ذمہ داری پیدا کرے۔
٭ ٭ ٭