[ad_1]
ہمارا ہندوستان جمہوری ملک ہے جہاں پر مختلف ادیان اور گوناگوں زبانیں اور رنگارنگ تہذیب و تمدن والے باشندے بستے ہیں۔ ہندوستان ہی وہ واحد ملک ہے جہاں ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی ؛ بھارت میں ہم سب بھائی بھائی کا نعرۂ مستانہ لگایا جاتا ہے۔ جمہوریت کا معنیٰ ہی کچھ یوں ہے کہ ہر مذہب کے ماننے والے کو اس کے مذہب کے رسم و رواج کے مطابق زندگی بسر کرنے کا پورا پورا حق حاصل ہو۔ 2014 ء کے بعد سے اس بھائی چارہ والے ہندوستان میں کسی ایک طبقے کو فروغ دیا جارہا ہے تو اقلیتی قوموں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اسی نشانہ کی ایک کڑی ہے “سوریہ نمسکار”۔ سوریہ نمسکار یعنی “salute to sun” یہ لفظ در حقیقت سنسکرت سے لیا گیا ہے جس کے معنی ہیں سورج کی بندگی و عبادت اور اس کے سامنے آداب بجا لانا۔(فیروز اللغات)
سوریہ نمسکار در حقیقت یو گا کے دوران انجام دیا جانے والا ایک اہم عمل ہے گویا کہ سوریہ نمسکار یوگا کا ایک اہم عنصر و محور ہے۔ جس میں یوگا کرنے والا مشرق کی جانب آنکھیں بند کر کے دونوں ہاتھوں کو جوڑ کر سورج کو پرانام کرتا ہے اور سورج کو سلامی پیش کرتا ہے۔ گویا ہندو دھرم کے مطابق یہ ایک طرح کی عبادت ہے اور یہ اس لئے کیا جاتا ہے کہ ہندو دھرم کے ماننے والوں کا یہ وشواس ہے کہ سنسار کا پالن اور یوشن سورج کرتا ہے۔ جیسا کہ “ٹائم آف انڈیا” کی ایک رپورٹ میں کسی نے اس کی حقیقت واضح کرتے ہوئے لکھا تھا :
“Surya namaskar means expressing gratitude of the Sun for sustaining life on the planet”.
یعنی سوریہ نمسکار کا معنی سورج کو شکریہ ادا کرنا، اس لئے کہ وہ زمین پر زندگی کو برقرار رکھنے کا ضامن ہے۔ خلاصۂ کلام یہ ہوا کہ سوریہ نمسکار ہندو دھرم یعنی ہندوستان کے اکثریتی طبقے کی مذہبی روایت ہے، اور ایک طرح کی عبادت بھی۔ اور اسلام اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت کی قطعی اجازت نہیں دیتا۔ اسی لئے مسلم پرسنل لا بورڈ نے کل پریس کانفرنس میں یہ بیان جاری کیا کہ حکومت سوریہ نمسکار کے متعلق حکومتی گائیڈ لائن کو واپس لے۔
ہندوستان ایک جمہوری ملک ہونے کی حیثیت سے حکومت کو چاہیے کہ ارباب حکومت سیکولر اقدام کا احترام کریں؛ کیوں کہ ہمارا دیش کثیر المذہبی کثیر ثقافتی ملک ہے۔ ہمارا دستور جس کو بابا صاحب نے ترتیب دیا انہی اصولوں کی بنیاد پر اس آئین کے دفعات متعین کئے۔ آئین ہند کے مطابق ہر مذہب کو اس کے روایتی اصول کے ساتھ یہاں پر زندگی گزارنے کی پوری پوری آزادی حاصل ہے۔ کسی کو کسی پر جبرا و قہرا کسی روایت کو مسلط کرنے کی اجازت نہیں۔ تو سوریہ نمسکار ہندو دھرم کی ایک روایت ہے گویا حکومت اکثریتی طبقے کی اس مذہبی روایت کو ملک کے تمام دیگر طبقات پر بھی لاگو کرنے کی ناکام کوشش کر رہی ہے جو بھگواکرن کی پیداوار ہے اس سے حکومت اور اربابِ حکومت کو بھی گریز کرنے کی اشد ضرورت ہے ؛ ورنہ ملک کی ہمہ جہت بھائی چارہ کو بھی کافی نقصان ہو سکتا ہے۔
دراصل یو . جی . سی یعنی یونیورسٹی گرانٹ کمیشن نے 29 دسمبر کو ایک سرکلر جاری کیا تھا جس میں حکومت ہند نے 75 ویں یوم آزادی کے موقع پر 30 ریاستوں میں سوریہ نمسکار کا ایک پروگرام چلانے کا فیصلہ کیا ہے جس میں پہلے مرحلے میں 30 ہزار اسکولوں کا احاطہ کیا جائے گا۔ یکم جنوری 2022 سے 7 جنوری 2022 تک اس پروگرام کے انعقاد کی تجویزات بھی پیش کی جائیں گی اور 26 جنوری کو سوریہ نمسکار کو عملی جامہ پہنایا جائے گا۔
حکومت طلبہ سے یہ بھی مطالبہ کر رہی ہے کہ ہندوستان کے 75 ویں آزادی کے موقع پر امرت مہوتسو کی تقریبات میں ایک حصے کے طور پر ترنگے کے سامنے طلبہ سوریہ نمسکار بھی کریں۔ حکومت کے بے جا مطالبات سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہندو دھرم کے سنسکار کو دیگر سماج کے افراد پر مسلط کرکے ہندو ووٹ بینک کو مضبوط کرنے کی ناکام کوشش و کاوش ہے۔ اسی وجہ سے آج کل ہندو دھرم کے کچھ سوامی سنت بھی اشتعال انگیز بیان کرتے نظر آرہے ہیں؛ تاکہ دھرم کے نام پر یہاں خون خرابہ ہو اور ارباب حکومت اپنی اپنی کرسی کے حفاظت کر لیں۔ گویا انتخابات کی اس مہم کے دوران سوریہ نمسکار بھی ہندو مسلم کو لڑانے کی ایک سازش ہے۔ مسلمان اس خفیہ سازش سے چوکنا رہیں اور اس کی سخت مخالفت کریں اور اگر کسی اسکول یا کالج میں سوریہ نمسکار ہو رہا ہے تو اپنے بچوں کو اس دن اسکول، کالج نہ بھیجیں اور گاؤں گاؤں، شہر شہر، قریہ قریہ اس کے خلاف احتجاج کریں۔ اور اس وقت تک اس کی مخالفت کرتے رہیں کہ حکومت اس سوریہ نمسکار والی گائیڈ لائن کو واپس لینے پر مجبور ہوجائے جیسے زرعی قانون کو مودی حکومت نے واپس لیا۔ اس احتجاج میں مسلمان فرقہ واریت اور مسلکی تعصب سے دور رہ کر صرف اور صرف اس سوریہ نمسکار کی مخالفت کریں جو اسلامی تعلیمات کے عین مخالف اور توحید کے متضاد ہے۔
[ad_2]
Source link