[ad_1]
تمام تعریفیں اور ساری خوبی اس ذات پاک کے لیے ہے جس نے لفظ کن سے کائنات کی تخلیق فرمائی اور ہمیں امت محمدیہ میں پیدا فرما کر ہمارے سروں پر ،،لقد کرمنا بنی آدم،، کا زریں تاج رکھا اگر ہم اس ذات پاک کا شکر تا زندگی کرتے رہیں تو حق ادا نہ ہوگا- اس رب کائنات کی نوازشات، عنایات اور اس کی نعمتوں کے جلوے دیکھنا ہوں تو ذہن و فکر ششدر ہوکر رہ جاتے ہیں-
الله رب العزت کی نعمتوں میں سے افضل ترین نعمت علم ہے- آج کائنات گیتی پر بے شمار ادیان و ملل پائے جاتے ہیں لیکن یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ جس قدر مذہبِ اسلام نے علم پر زور دیا ہے دوسرے مذاہب اس معاملے میں مذہبِ اسلام کے گرد راہ کو بھی نہ پاسکے-
علم ایسا نور ہے جسے الله رب العزت نے انسان کے قلب میں پیدا فرمایا ہے کہ اس سے جس چیز کا تعلق ہوتا ہے وہ منکشف ہو جایا کرتی ہے جیسے آنکھ میں دیکھنے کی قوت ہے-
علم کی دو قسمیں ہیں ایک علم ظاہر اور ایک علم باطن، علم ظاہر میں علم شریعت، تفسیر، حدیث، فقہ، علم صرف، علم نحو، لغت، بیان شامل ہیں- پھر علم باطن کی دو قسمیں ہیں، علم معاملہ جس میں دل اور نفس کو پاک و صاف بنانا اخلاق بد محرمات سے اجتناب کرنا، اخلاق حسنہ زہد و تقویٰ اختیار کرنا ہے- دوسرا علم مکاشفہ ہے جو تزکیہ نفس کے بعد من جانب الله عطا ہوتا ہے- علم مکاشفہ ہی سے حضورِ اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ذات و صفات کی حقیقت واضح ہوتی ہے-
مذہبِ اسلام میں تعلیم کی اہمیت و افادیت پر بہت زور دیا گیا ہے اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ قرآن مجید میں اترنے والی آیت کا سب سے پہلا لفظ اقرا سے شروع ہوا ہے- ایک مفکر نے لکھا ہے کہ دنیا کی کسی قوم کے پاس اس کی آسمانی کتاب میں علم کی اولین اہمیت کی سمت نشان دہی کرنے والی کوئی آیت موجود نہیں، میں مسلمانوں کو مبارکباد دیتا ہوں کہ قرآن کریم میں اس سلسلے میں سب سے پہلا لفظ اقرا ہے- علم کی اہمیت کا پتہ اس سے بھی چلتا ہے کہ مذہبِ اسلام نے جو زمانے کی تقسیم کی ہے اس میں مذہبِ اسلام سے پہلے کے دور کو عہد جاہلیت قرار دیا گیا ہے گویا مذہبِ اسلام اور جاہلیت میں کوئی مطابقت ہی نہیں اور یہ بات حقیقت بر مبنی ہے کہ مذہبِ اسلام نور علی نور ہے اور جاہلیت سر تا پا تاریکی ہے-
علم سے متعلق قرآن مجید میں الله رب العزت ارشاد فرماتا ہے:
ترجمہ:- اے محبوب آپ فرما دیجئے کیا برابر ہیں جاننے والے اور انجان
دوسری آیتِ کریمہ میں ہے:
ترجمہ:- سکھا دیا جو تم نہیں جانتے تھے اور تم پر الله کا بڑا فضل ہے
اور بھی قرآن مجید میں علم سے متعلق بے شمار آیتیں موجود ہیں جس کی یہاں گنجائش نہیں قرآن مجید کی مذکورہ آیات سے پتہ چلتا ہے کہ الله رب العزت نے اپنے محبوب صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کو پوری کائنات کے علوم عطا فرمائے اور کتاب وحکمت کے اسرار آپ پر روشن کئے-
علم کی فضیلت پر احادیثِ کثیرہ شاہد عدل ہیں اور اس کے نا حاصل کرنے پر سخت وعیدیں بھی احادیثِ مبارکہ میں آئی ہیں- الله کے حبیب صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کا ارشادِ مبارک ہے: کہ علم دین کا حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے- دوسری حدیثِ پاک اس ضمن میں آئی ہے کہ: علم دین حاصل کرو گرچہ چین جانا پڑے- مذکورہ احادیثِ مبارکہ سے علم کی فضیلت اور اس کے حصول کی فرضیت ثابت ہوتی ہے جس پر عمل کرنا دنیا کے سارے مسلمانوں پر لازم و ضروری ہوتا ہے-
ابو داؤد شریف کی حدیث ہے کہ حضرتِ ابو ہریرہ رضی الله تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص علم حاصل کرے، ایسا علم جس سے حاصل کی جاتی ہے الله کی رضا نہیں حاصل کیا اس علم کو مگر اس واسطے کہ حاصل کرے اس سے دنیا کی دولت ایسا شخص قیامت کے روز نہیں پائے گا جنت کی خوشبو-
ترمذی شریف کی حدیث ہے جس کو نقل کیا ہے صاحبِ مشکوٰۃ نے حضرتِ کعب بن مالک رضی الله تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ الله کے رسول صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص علم حاصل کرے اس لیے کی فخر کرے اس علم کے سبب علما پر اور جھگڑے اس کے سبب بے وقوفوں سے اور چہرہ پھیرے اس کے سبب لوگوں سے ایسے شخص کو الله رب العزت داخل کرے گا جہنم میں، ان ارشاداتِ رسول سے پتہ چلا کہ علم فقط دین کی تبلیغ واشاعت اور مخلوقِ خدا کی ہدایت و رہنمائی کے لیے حاصل کرنا چاہیے-
علم ایک ایسی عظیم ترین دولت ہے جو زندگی کے تمام شعبے میں انسانی رہنمائی کے فرائض انجام دیتی ہے- ایک جگہ یوں فرمایا گیا ہے کہ جس شخص کے پاس علم نہیں وہ انسان ہی نہیں، جس علم کے حصول پر اتنی تاکیدیں آئی ہوں اگر انسان اس کے حصول میں کوتاہی سے کام لے تو اسے بہت کم نصیبی پر محمول کیا جائے گا- علم کے ذریعے انسان خدا کا قرب حاصل کرتا ہے، علم سے انسان نبوت و رسالت کے مقام و منصب کو سمجھتا ہے، علم سے انسان اپنی زندگی کے نشیب و فراز کو جانتا ہے، علم سے انسان خیر و شر کے درمیان تمیز کرتا ہے، علم شیطانی مکر و فریب سے بچنے کے لیے بہترین ہتھیار ہے، علم ہی انسان کے اندر انسانیت، شرافت، حقانیت، صداقت، اخوت، مساوات جود و کرم کے چشمے جاری فرماتا ہے علم سے انسان پر والدین پڑوسی اپنے اور بے گانے احباب و متعلقین کے حقوق منکشف ہوا کرتے ہیں، علم سے انسان اپنے مقصد وجود کو سمجھتا ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ علم موجب رضائے الٰہی ہے –
تاریخ شاہد ہے کہ جس قوم میں علم نہیں ہوتا وہ قوم تباہ و برباد ہو جایا کرتی ہے اس کے جائز حقوق اس سے چھین لیے جاتے ہیں اس میں انسانیت، شرافت، تہذیب، تمدن اور دوسری اخلاقی خوبیوں کا فقدان ہوتا ہے- عدل و انصاف سے وہ قوم عاری ہوتی ہے، فحش کاریاں اس میں عام ہوتی ہیں، بالآخر یہ کہ زمانے کی دوسری تمام برائیاں اس قوم میں سمٹ آتی ہیں-
عرب قوم کی تاریخ میں یہ چیزیں ملیں گی کہ ظلم و تشدد ان کی فطرت ثانیہ بن چکی تھی، انسانی زندگی جانوروں جیسی تھی وحشت و بربریت کی سرگرمی عام تھی جنگلوں، صحراؤں، غاروں اور بھٹوں میں انسانی زندگی کے شب و روز گزارے جارہے تھے- شراب کا استعمال وحشتوں کی تسکین کے لیے ہوا کرتا تھا، غلاموں اور عورتوں کو زندہ جلاکر لطف اندوز ہونے کی رسمیں اس قوم میں عام تھیں، آدم کے بیٹے آدمیت سے خالی ہوچکے تھے، بت پرستی ان کے دل ودماغ میں اس طرح غالب ہوچکی تھی کہ ایک نہیں انیک خداؤں کی پرستش کرتے، چاند سورج ستارے دریا پہاڑ اسی طرح کے اور بھی بہت سارے معبودانِ باطل کے سامنے پیشانی کو جھکانا اپنی زندگی کی معراج تصور کرتے یہاں تک کہ خدا کی عظمت و کبریائی کو فراموش کر بیٹھے تھے-
جس وقت اسلام کا ظہور عرب و حجاز میں ہوا اس وقت پوری دنیا علم سے ناآشنا تھی مذہبِ اسلام نے علم کو اپنی سرپرستی میں لیا اور کائنات کے گوشے گوشے میں اس کی تشہیر کی صحابہ کرام رضوان الله تعالیٰ علیہم اجمعین نے ملک ملک شہر شہر جا کر مخلوقِ خدا کے ذہن و فکر پر علم کی فضیلت اور اس کی اہمیت کو روشن کیا اور انہیں حصولِ علم کی جانب مائل کیا- اسلام کے دلائل جس طرح علم پر مبنی ہیں اسی طرح اس نے دوسرے مذاہب سے مطالبہ بھی کیا ہے کہ وہ اپنے علم کو ثابت کریں-
قرآن مجید میں آیا ہے:
ترجمہ:- اے محبوب تم ان سے پوچھو کہ تمہارے پاس بھی کچھ علم ہے تو اسے ہمارے سامنے پیش کرو-
دوسری جگہ آیا ہے:
ترجمہ:- اگر تم سچے ہو تو مجھے کسی علم سے بتاؤ-
اس کے علاوہ بھی بہت ساری جگہوں پر علم کی فضیلت اور اس کی اہمیت کی طرف واضح طور پر نشان دہی کی گئی ہے-
مذہبِ اسلام نے علم کی فضیلت جس طرح انسانوں پر روشن کی ہے ماضی کا تاریخی ریکارڈ بول رہا ہے کہ وہ قومیں اس سے قطعاً ناواقف تھیں- علم کی برتری و فضیلت اس سے بھی ثابت ہوتی ہے کہ حضرتِ ابرہیم علیہ السلام نے الله رب العزت کی بارگاہ میں دعا کی کہ اے میرے پروردگار! مجھے بخش دے اور ایسی سلطنت عطا فرما جو میرے بعد کسی کو نصیب نہ ہو- حضرتِ زکریا علیہ السلام نے دعا کی اے میرے رب! مجھے پاکیزہ بچہ عطا فرما، لیکن آقائے دوعالم صلی الله تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے دعا کی اے میرے مالک و مولا مجھے علم میں زیادتی عطا فرما-
اگر آج دنیا میں مذہبِ اسلام کا ظہور نہ ہوتا تو پوری کائنات جہالت و بربریت کے غار میں محبوس ہوتی، اس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ خود بھی اور اپنے بچوں کو بھی علم دین کی صحیح تعلیم دیں- دور حاضر میں مسلمانوں پر مغربی رنگ غالب ہوتا جارہا ہے- موجود سیکولر نظام تعلیم کے تحت نئی نسلوں کے ذہن و فکر جس مخصوص سانچے میں ڈھل رہے ہیں اور خیالات و نظریات جس تیزی کے ساتھ اسلام اور تعلیم اسلام کی اہمیت سے دور ہوتے جارہے ہیں اسے دیکھنے کے بعد مستقبل کی تباہی اور ملت کی زبوں حالی کے متعلق کسی قسم کا شبہ کرنا بھی حقیقت کا مذاق اُڑانا ہے، آج غیروں کو کوسنے کے بجائے آج کی تہذیب وتمدن خیالات و نظریات کا ماتم کیجیے جو آج کے نوجوانوں کل کے نمائندوں اور مستقبل کے سرپرستوں کو اس تاریک ترین وادی کی طرف انتہائی تیزی کے ساتھ ہانکتی لے جارہی ہے جس سے زیادہ تاریک وادی کا تصور ایک درد مند اور ملت نواز مسلمان کسی طرح اور کسی حال میں کر ہی نہیں سکتا-
صورتحال جب ایسی ہے اور یقیناً ایسی ہی ہے تو مجھے ان ذمہ داروں سے نہایت ہی ادب واحترام سے سوال کرنے دیا جائے کہ آخر وہ کونسی کشش ہے جو نئی نسل کو الحاد و مادہ پرستی کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھانے پر مجبور کررہی ہے، میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ اگر ابتدائی چند سال دینی تعلیم کے لیے مخصوص کر لیے جائیں اور آج کے نونہالوں کو دین کی بنیادی تعلیم اور اسلام کی اہم اخلاقی کوششوں سے مکمل طور پر روشناس کرانے کا انتظام کیا جائے تو ایک صحت مند اسلامی فضا قائم ہوسکتی ہے جس سے ملت نسلاً بعد نسل اور قرنا بعد قرن سیراب ہوتی رہے گی-
کریم گنج،پورن پور،پیلی بھیت،مغربی اتر پردیش
iftikharahmadquadri@gmail.com
[ad_2]
Source link