ایک پریشان حال شخص کسی بزرگ کے پاس گیا اور اپنی پریشانیوں کا رونا رونے لگا‘ بزرگ اندر گیا اور میلی کچیلی گندی پتیلی لے آیا اور اسے دے کر کہا ’’تم اسے دھو کر لاؤ تمہاری پریشانی ختم ہو جائے گی‘‘ وہ شخص نلکے کے نیچے بیٹھا اور پتیلی چمکا کر لے آیا‘ بزرگ نے برتن دیکھ کر پوچھا ’’تمہیں اسے باہر سے صاف کرنے میں زیادہ وقت لگا یا اندر سے؟‘‘ وہ شخص بولا ’’حضرت تمام کھانے برتنوں کے اندر پکتے ہیں‘یہ اندر سے زیادہ گندے ہوتے ہیں‘ مجھے پتیلی کو اندر سے دو تین مرتبہ رگڑنا پڑا ‘ باہر سے اسے صرف پانی میں گھما کر صاف کر لیا‘‘ بزرگ مسکرائے اور بولے ’’بیٹا انسان کو بھی برتن کی طرح خود کو اندر سے زیادہ رگڑنا پڑتا ہے مگر ہم اپنا باطن بدلنے کے بجائے ظاہرتبدیل کرنے میں مصروف رہتے ہیں چناں چہ ہم دنیا میں کوئی بدلاؤ نہیں لا سکتے‘ آپ بھی خود کو اندر سے صاف کرو باہر کی دنیا خودبخود چمک جائے گی‘‘۔
مجھے آج وہ شخص عمران خان محسوس ہورہا ہے‘ ایک ایسا عمران خان جو خود کو بدلنے کے بجائے پورے ملک‘ پوری دنیا کو تبدیل کرنا چاہتا ہے‘ عمران خان بے شک ملک کا مقبول ترین لیڈر ہے‘ اس کی پارٹی نے انتخابی نشان کے بغیر 8 فروری کا الیکشن جیت کر پوری دنیا کو حیران کر دیا‘ یہ ملک کے نوجوان طبقے کے ساتھ تمام لیڈروں کے مقابلے میں زیادہ رابطے میں ہے‘ یہ آج بھی کروڑوں لوگوں کی امید ہے اور عوام نے کے پی میں انتہائی افسوس ناک پرفارمنس کے باوجود اسے تیسری مرتبہ اقتدار دیا‘ عمران خان کے مقابلے میں تمام سیاسی جماعتیں اور قائدین کریڈیبلٹی اور عوامی حمایت کھو چکے ہیں‘ آج میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کہاں کھڑے ہیں اور ایم کیو ایم کی ساکھ کی کیا حالت ہے ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں لیکن اس کے باوجود عمران خان کہاں ہیں؟
یہ ایک صوبے میں دو تہائی اکثریتی حکومت‘ سب سے بڑے ووٹ بینک اور قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اکثریتی پارٹی کے باوجود بیگم صاحبہ سمیت جیل میں ہیں جب کہ علی امین گنڈا پور اقتدار کو انجوائے کر رہے ہیں‘ وزیراعلیٰ نے سات ماہ کے اقتدار میں صوبے میں تنکا دوہرا نہیں کیا لیکن یہ اس کے باوجود ماچو مین بن کر پھر رہے ہیں‘ حالت یہ ہے اتوار کو مالم جبہ میں دس یورپی سفیروں کے قافلے پر بم حملہ ہو گیا‘ پولیس اہلکار شہید اور چار زخمی ہو گئے لیکن وزیراعلیٰ پوری صوبائی حکومت کے ساتھ لاہور فتح کر رہے تھے۔
دوسری طرف گوہر خان اور عمر ایوب بھی قومی اسمبلی کے مزے لوٹ رہے ہیں اور عارف علوی اور اسد قیصر مولانا فضل الرحمن کی خدمت میں مصروف ہیں چناں چہ عمران خان کو ان سب کا کیا فائدہ ہوا؟ انھیں اس مقبولیت‘ ایک صوبے میں اقتدار اور قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اکثریت سے کیا ملا؟ کیا عمران خان کی جیل کا فائدہ مولانا فضل الرحمن نہیں اٹھا رہے؟ کیا ان کی بارگیننگ پوزیشن بہتر نہیں ہو رہی اورکیا اس کا فائدہ میاں شہباز شریف اور آصف علی زرداری نہیں اٹھا رہے؟ یہ اگر آج وزیراعظم اور صدر ہیں تو اس کی واحد وجہ عمران خان ہیں اگر عمران خان ضد نہ کرتے‘ یہ باغی نہ بنتے تو آج زرداری صاحب صدر ہوتے اور نہ شہباز شریف وزیراعظم‘ پیپلز پارٹی اور ن لیگ بھی دس دس سیٹوں تک محدود ہو چکی ہوتی چناں چہ سوال یہ ہے ان تمام کمالات کا عمران خان کو کیا فائدہ ہوا؟ ان کی سختیوں میں تو روز بروز اضافہ ہو رہاہے۔
عمران خان دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیں‘ کیا سیاست کا مقصد اقتدار میں آ کر اپنی پالیسیوں پر عمل کرنا نہیں ہوتا اور اگر یہ نہیں ہوتا تو پھر اس کا مقصد کیا ہے؟ آپ کو اگر اقتدار میں نہیں آنا‘ آپ نے اگر اپنی پالیسیوں پر عمل نہیں کرنا‘ آپ نے اگر عوام کی حالت نہیں بدلنی تو پھر آپ سیاست کیوں کر رہے ہیں؟ آپ نے اگر ورلڈ کپ یا ٹرافی نہیں لینی تو پھر آپ کھیل کیوں رہے ہیں؟آپ نے اگر جیل ہی میں رہنا ہے تو پھر سیاست کیوں کر رہے ہیں؟چھوڑ دیں اسے! میرا خیال ہے عمران خان کو اب ٹھنڈے دل ودماغ سے اپنے برتن باہر کے بجائے اندر سے دھونے چاہییں‘ اسے اب بیٹھ کر ٹھنڈے دل و دماغ سے اپنی حکمت عملی پر غور کرنا چاہیے‘ اسے اب جان لینا چاہیے‘ ریاست اور اسٹیبلشمنٹ ایک شخص اور ایک جماعت سے زیادہ مضبوط ہوتی ہے۔
آپ اسے جتنا پش کرتے جائیں یہ اتنی ہی مضبوط ہوتی جاتی ہے‘ آپ دیکھ لیں حکومت اگر اپنی آئینی ترامیم پارلیمنٹ سے منظور نہیں کرا سکی تو ریاست نے کیا کیا؟ ریاست نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں تبدیلی کر دی‘ کمیٹی میں اب چیف جسٹس اور سینئر ترین جج ہیں اور تیسرے ممبر کا فیصلہ چیف جسٹس کریں گے اور چیف جسٹس نے آدھ گھنٹے میں جسٹس منیب اختر کی جگہ جسٹس امین الدین کو کمیٹی میں شامل کرلیا جس کے بعد چیف جسٹس کے دو ووٹ ہو گئے اور جسٹس منصور علی شاہ اکیلے ہو گئے‘ دوسرا اب سپریم کورٹ پرانے کیسز کا فیصلہ پہلے کرے گی جس کے بعد آئینی ترامیم اور فارم 47 کے مقدمات کی باری 2032میں آئے گی‘ اسپیکر قومی اسمبلی نے بھی مخصوص سیٹیں دوبارہ پی ٹی آئی سے چھین لیں‘ اسپیکرکے حکم سے قومی اسمبلی میں ایک بار پھر سنی اتحاد کونسل واپس آچکی ہے چناں چہ گورنمنٹ نے دو تہائی اکثریت حاصل کر لی ہے۔
یہ اب ترامیم پاس کر لے گی جس کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو مزید تین سال مل جائیں گے‘ پی ٹی آئی ان ترامیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرے گی لیکن نئے قانون کے مطابق اس پٹیشن کی باری 58 ہزار زیرالتواء کیسز کے بعد آئے گی‘ کیا عمران خان اتنے سال جیل میں گزار لیں گے؟ دوسرا ملک کی معیشت بھی بہتر ہو رہی ہے‘ اسٹاک ایکسچینج ریکارڈ پر ریکارڈ قائم کر رہی ہے‘ مہنگائی دس فیصد سے نیچے آ گئی ہے‘ ڈالر مستحکم ہو گیا ہے‘ آئی ایم ایف کا نیا پلان بھی ستمبر میں شروع ہو جائے گا‘ غیر ملکی سرمایہ کاری کے امکانات بھی نظر آ رہے ہیں‘ مریم نواز بھی دھڑادھڑ کام کر رہی ہیں اور وفاقی حکومت بھی کم زور ٹانگوں کے باوجود مضبوط ہوتی چلی جا رہی ہے جب کہ عمران خان کہاں کھڑے ہیں؟ جیل میں! عمران خان کا خیال تھا عوام بجلی کے بل ادا نہیں کر سکیں گے‘ یہ باہر آ جائیں گے اور اس کا فائدہ انھیں جیل میں ہو گا مگر عوام بجلی کا جھٹکا بھی برداشت کر گئے۔
حکومت آئی پی پیز کے ساتھ مذاکرات کررہی ہے‘ لبرٹی پاورز کیپسٹی پے منٹس معاف کرنے کے لیے تیار ہے‘ حکومت کو امید ہے باقی آئی پی پیز بھی مان جائیں گے جس کے بعد بجلی سستی ہو جائے گی‘ عمران خان نے جیل سے عوام کو دو کالز دیں لیکن دونوں کالز ناکام رہیں‘ 8 ستمبر کا جلسہ گنڈا پورا کی گندی تقریر پر اختتام پذیر ہوا اور پولیس نے پہلی بار پارلیمنٹ ہاؤس میں گھس کر ایم این ایز کوگرفتار کر لیا اگر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور اسپیکر ایاز صادق مدد نہ کرتے تو پی ٹی آئی کے لیڈر زاس وقت بھی جیل میں ہوتے‘ دوسرا جلسہ 21 ستمبر کو لاہور میں تھا‘ یہ جلسہ آر یا پار تھا‘ اس میں پوری قوم نے کشتیاں جلا کر باہر نکلنا تھا لیکن پار ہو سکا اور نہ کوئی کشتی جلی‘ لاہوریے گھروں میں بیٹھ کر سری پائے کھاتے رہے اورپی ٹی آئی کے لیڈر جلسہ گاہ میں ان کا انتظار کرتے رہے‘ آپ جلسے کی کام یابی کا اندازہ اس سے لگا لیجیے‘ علی امین گنڈا پور اپنے قافلے کے ساتھ جلسے کے بعد لاہو پہنچے‘ اپوزیشن لیڈر عمر ایوب لاہور آئے ہی نہیں جب کہ حماد اظہر‘ میاں اسلم اقبال اور مراد سعید خود تہہ خانوں میں چھپ کر قوم کو باہر نکلنے کی دعوت دیتے رہے چناں چہ کیا نتیجہ نکلا؟ یہ جلسہ بھی ناکام ہو گیا‘ عمران خان نے اب کراچی کے جلسے سے امیدیں وابستہ کر لی ہیں جب کہ وہ جلسہ لاہور کے جلسے سے زیادہ ناکام ہو گا‘ کیوں؟ کیوں کہ پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ کی پارٹی ہے اور جب تک اسے اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ نہیں ملے گی اس وقت تک اس کا کوئی جلسہ کام یاب ہو گا اور نہ عوام باہر نکلیں گے۔
عمران خان کی دوسری امید ججز ہیں‘ عمران خان کا خیال ہے حکومت جوں ہی ترامیمی پیکیج پاس کرائے گی سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے آدھے ججز مستعفی ہو جائیں گے اور حکومت دنیا میں منہ چھپاتی پھرے گی‘ اس کا امکان موجود ہے‘ وقت کے ساتھ ساتھ ججز میں فرسٹرشن بڑھ رہی ہے‘ حکومت نے اگر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی مدت ملازمت میں اضافہ کر دیا‘ چیف جسٹس کی تقرری کا طریقہ بدل دیا اور ججز کی روٹیشن شروع کر دی تو شاید جج حضرات واقعی مستعفی ہو جائیں لیکن کیا فرق پڑے گا؟ حکومت فہرستیں تیار کر کے بیٹھی ہے‘ یہ نئے ججز مقرر کر دے گی اور پی ٹی آئی چند دن ججز بحالی تحریک چلائے گی اور پھر لوگ اسے بھی بھول کر پی ایس ایل کے میچ دیکھنے لگیں گے۔
عمران خان کو سمجھنا ہوگا قوم نے 1971کے سانحے سے سبق نہیں سیکھا تھا‘ ہم تو مشرقی پاکستان کو بھول گئے ہیں جب کہ یہ بحران کیا بحران ہیں لہٰذا عمران خان کو سیاسی خودکشی کے راستے سے پیچھے ہٹ کر حالات سے سمجھوتہ کرنا چاہیے‘ یہ بے شک ملک کو حقیقی آزادی دلائیں‘ یہ انقلاب بھی لے آئیں لیکن اس کے لیے زندہ رہنا اور اقتدار میں آنا ضروری ہے۔
مچھلی پانی سے باہر صرف تڑپ سکتی ہے ‘ آپ اگر جدوجہد کے درمیان جیل میں فوت ہو گئے یا آپ کی پارٹی کو ترامیم نگل گئیں تو پھر انقلاب کہاں سے آئے گا اور قوم حقیقی آزادی کیسے حاصل کرے گی؟ کھلاڑی جب کھیل ہی نہیں سکے گا تو پھر یہ مین آف دی میچ کیسے بنے گا لہٰذا عمران خان کو چاہیے یہ اب برتن کو باہر کے بجائے اندر سے دھوکر دیکھے‘ یہ دنیا کے بجائے اپنے آپ کو بدلنے کی کوشش کرے‘ حقیقی آزادی تب ملے گی‘ ملک پھر بدلے گا‘ خان کو یہ بھی جاننا ہوگا امیدوں کے جال میں پھنسے لوگ زیادہ دیر زندہ نہیں رہتے۔