جب 11 ستمبر 1948ء ہوئی، تو ناقدین نے جس ریاست کے ’خاتمے‘ کی مدت چھے ماہ بتائی تھی، اب اس کے قیام کو ایک سال بہ حُسن وخوبی بیت چُکا تھا۔۔۔
دھرتی کے سینے پر کھینچی گئی ’ریڈ کلف کمیشن‘ کی سرحد تو گویا ’بانی پاکستان‘ کے اِس عزم ہی کی ’تکمیل‘ بن گئی تھی کہ اگر مجھے بہت چھوٹا سا پاکستان بھی ملے تو میں وہ بھی قبول کرلوں گا۔۔۔ کیوں کہ انھیں خطرہ تھا کہ اگر ایسا نہ کیا، تو پھر برصغیر کے مسلمانوں کے لیے الگ ملک کا قیام کھنڈت میں پڑ جائے گا۔۔۔ ریڈ کلف نے جانب داری برتی اور بہت سے ایسے اہم علاقے ہندوستان میں شامل کر دیے، جو پاکستان کا حصہ بننے والے تھے۔۔۔ یوں ناکافی بنیادی ریاستی ڈھانچے کی حامل ریاست کے لیے مشکلات میں مزید اضافہ ہوا۔
ابتدا ہی میں اکتوبر 1947ء میں کشمیر کا محاذ گرم ہوگیا، اور مسلم اکثریتی ریاست سرحدیں ملنے کے باوجود بھی ہندوستان کے قبضے میں چلی گئی۔ ساتھ ہی مسلم اقلیت والی ریاست جونا گڑھ بھی ہندوستان کے زیرنگیں ہوگئی۔۔۔
ایک طرف یہ حالات تھے، تو دوسری طرف ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں پر بھی اُفتاد ٹوٹنے لگی تھی۔ بٹوارے کے ہنگام میں بہار اورپنجاب میں ہونے والے فسادات اب ہندوستان کے دیگر علاقوں تک پھیلنے لگے تھے۔ آزادی کے پہلے ہی ماہ ستمبر 1947ء میں دلی کی تاریخی فتح پوری مسجد میں جمعے کے اجتماع کے دوران شرپسندوں کی جانب سے بم پھینکے جانے کے بعد دلی کی زمین مسلمانوں پر تنگ کردی گئی۔۔۔ بلوے شروع ہوئے اور مسلم لیگ کے ترجمان اخبار ’ڈان‘ کے دفتر کو نذرآتش کردیا گیا، جس کے بعد قائداعظم کی پکار پر آنے والے تعلیم یافتہ افراد، ماہرین اور ہنرمندوں کے ساتھ ساتھ حالات کے ستائے لوگوں نے بھی کس مپرسی میں اِس نئے ملک کا رخ کرنا شروع کردیا۔۔۔ یہ سب حالات نئے ملک کے لیے خاصے تکلیف دہ اور پریشان کُن تھے۔ یہاں مسلم اقلیتی صوبوں سے آنے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد ایک عرصے تک کھلے آسمان تلے اور جھگیوں میں پڑی رہی، ریاست کے پاس تو اپنے خرچے کے لیے پیسے نہ تھے وہ ان کی آبادکاری کے لیے بھلا کیا کر سکتی تھی!
اس ریاست کی پہلی سال گرہ سے پہلے ایک اچھی بات یہ ہوئی کہ 1947ء ہی میں کلکتے میں قائد کے ساتھی ابوالحسن اصفہانی نے نومولود ریاست کو پہلا ہوائی ادارہ ’اورینٹ‘ پیش کردیا، جو بعد میں ’پی آئی اے‘ کہلایا۔ قیام پاکستان کے چھ ماہ بعد ہی ’مشرقی پاکستان‘ میں بنگلا زبان کے حوالے سے بے چینی پیدا ہوئی تو محمد علی جناح نے بھرپور قائدانہ کردار ادا کیا اور وہاں جا کر قومی زبان اردو کے حوالے سے تحریک پاکستان کے موقف کا اِعادہ کیا، اس پر بہت سے لوگ آج انھیں تنقید کا نشانہ بھی بناتے ہیں۔۔۔ جس کا کوئی منطقی جواز ہے اور نہ تاریخی! اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ قائداعظم کے مارچ 1948ء کے بیان کو بھی ادھورا پیش کیا جاتا ہے کہ انھوں نے ڈھاکا جا کر بنگالیوں سے کہا کہ ’آپ کی زبان اردو، اردو اور صرف اردو ہوگی!‘ اس سے ایسا لگتا ہے کہ قائد نے اِن سے ان کی مادری زبان ’بنگلا‘ چھین کر ان پر اردو مسلط کردی تھی، جب کہ اصل اور مکمل بات یہ ہے کہ انھوں نے اپنی اسی تقریر میں یہ بھی کہا تھا کہ ’صوبے اگر چاہیں تو اردو کے ساتھ اپنی کوئی ایک زبان بھی رکھ سکتے ہیں۔۔۔!‘ اب آپ خود بتائیے کہ اس کا کیا مطلب تھا۔۔۔؟ کیا انھوں نے مشرقی پاکستان کے شہریوں سے ان کی مادری زبان چھین لی تھی۔۔۔؟ یا انھیں صرف یہ یاد دلایا تھا کہ اردو پاکستان کی بنیاد میں شامل ہے، یہی وہ زبان تھی کہ اسلام کے بعد جس کی بنیاد پر پوری تحریک پاکستان کھڑی ہوئی تھی۔ ہندوستان بھر کے مسلمانوں نے اسی نظریے اور منشور کی بنیاد پر ہی پاکستان کے قیام کے لیے ووٹ دیا، اس لیے اب اس ملک کے بننے کے بعد اس سے اردو کے مقام اور مرتبے کو بے دخل کردینا ان کروڑوں مسلمانوں کو دھوکا دینے کے مترادف ہے، جنھوں نے تحریک پاکستان کے لیے اپنے جان ومال وار دیا تھا۔ رہی بات یہ کہ اگر اردو کے ساتھ بنگلا زبان کو بھی قومی زبان کا درجہ دے دیا جاتا، تو حرج ہی کیا تھا؟ اس بات کا جواب یہ ہے کہ پھر ملک کی دیگر زبانیں بھی ملک کی ’قومی زبان‘ کا درجہ پانے کا مطالبہ کرتیں، قائداعظم نے اپنی فہم وفراست کے لحاظ سے بالکل درست کہا کہ صوبے اگر چاہیں تو اردو کے ساتھ ساتھ اپنی زبانوں کو صوبے کی سطح پر ضرور اختیار کرسکتے ہیں، لیکن ریاستی سطح پر ایک مشترکہ زبان ہونا ضروری ہے، جو صرف اردو ہی ہوسکتی ہے۔ قائداعظم کے اردو کے حوالے سے اس بیان پر تنقید کرنے والوں کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ جب مسلمانانِ برصغیر نے اپنا الگ ملک پاکستان بنایا، تو اس کی لسانی شناخت کا مرتبہ بھی تو اردو کے لیے خاص رہنا ضروری تھا، ورنہ اگر اس حوالے سے بھی غیرمنطقی طور پر دنیا کے دیگر ممالک کو ’مثال‘ بنا کر پیش کیا جائے، تو ہر دوسرا ناقد یہی کہتا ہے کہ فلانے ملک میں بھی تو اتنی زبانیں ’قومی‘ ہیں! تو دنیا کے ہر ملک کا اپنا نظریاتی اور تاریخی پس منظر اور بنیادی نظریہ ہوتا ہے، سو پاکستان کا بھی ہے، اس لیے اس حوالے سے دنیا کے کسی اور ملک کی مثال منطبق نہیں کی جا سکتی۔
کراچی کو پاکستان کا دارالحکومت بنانا بھی قائداعظم کا ایک دوراندیشی پر مبنی فیصلہ تھا، کہ جہاں ابھی ریاست کے بنیادی امور کے لیے بہت سے وسائل اور سہولتیں موجود ہی نہ تھیں، لیکن انھیں اپنے رفقا پر بھروسا تھا کہ وہ کراچی جیسے چھوٹے سے شہر کو اپنی محنت اور قابلیت سے پوری ریاست کا بہترین درالحکومت بنا کر دکھا دیں گے۔۔۔ تبھی ابوبکرحلیم (اے بی حلیم) نے قائد کی خصوصی ہدایت پر ہندوستان سے یہاں آکر ’جامعہ سندھ‘ کی داغ بیل ڈالی، جو پھر 1951ء میں کراچی سے جام شورو منتقل کی گئی اور یہاں موجودہ سول اسپتال کے عقب کی مختلف عمارتوں میں ’جامعہ کراچی‘ کی بنیاد رکھی گئی، جو 1960ء کے زمانے تک یہیں موجود رہی، پھر موجودہ وسیع وعریض جگہ پر منتقل ہوئی۔ یہی نہیں کراچی کی تعلیمی آب یاری کے نشانات آج بھی اے ایم قریشی کے اسلامیہ کالج اور الحاج مولوی ریاض الدین احمد کی جناح یونیورسٹی برائے خواتین کی صورت میں نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔ یہ شخصیات بھی محمد علی جناح کی فوج کے صف اول کی سپاہی تھیں۔۔۔
ایسے ہی اُس وقت کا اہم ترین سرکاری ’اِبلاغ عامہ‘ کا ذریعہ ’ریڈیو پاکستان‘ بھی کراچی میں موجود نہ تھا، ڈھاکا اور لاہور کے علاوہ تیسرا اسٹیشن پشاور میں قائم تھا، لیکن دارالحکومت قائم ہوتے ہی اگلے برس سے یہاں ’ریڈیو پاکستان‘ کی نشریات شروع ہوئیں، جس کے متعلق بتایا جاتا ہے کہ شروعات میں اس کے دفاتر اور ’اسٹوڈیو‘ خیموں میں قائم کیے گئے تھے!
پھر ہندوستان بھر سے مسلمان بینکار، ماہرینِ تعلیم اور صنعت وحرفت سے وابستہ مشاہیر نے بڑے پیمانے پر کراچی ہجرت کی، جو معاش کے میدان میں سر آدم جی حاجی داؤد سے لے کر سیٹھ احمد داؤد اور قمر الدین ولی بھائی (ولیکا مِل) تک دراز دکھائی دیتے ہیں، تو کبھی باوانی گروپ اور حبیب بینک لمیٹڈ کی صورت میں روشن ہوتے ہیں۔۔۔
جناح کی پُکار پر ہندوستان کے طوُل وارض سے مسلم ماہرین اور سرکاری ملازمین جوق در جوق نئی مملکت کا رخ کر رہے تھے، ہندوستانی مسلمانوں کو اپنی زمین مل گئی تھی اور وہ اس کی تعمیر کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کر رہے تھے۔۔۔ اور یکم جولائی 1948ء کو سابق شیخ الجامعہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی زاہد حسین جیسے معاشی ماہر نے نامساعد معاشی حالات کے باوجود نومولود پاکستان کا ’اسٹیٹ بینک‘ بنا کر دنیا کو حیران کردیا تھا۔۔۔ اور یہی قائد کی فعال زندگی کے آخری ایام کی ایک بڑی کام یابی تھی اور پھر مملکت خداد کی پہلی سال گرہ کے بعد ان کی صحت بہ تدریج گرتی چلی گئی اور 11 ستمبر 1948ء کو وہ اپنی قوم کی نیّا پار لگا کر اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔۔۔!
اگر غور کیجیے تو ’بانی پاکستان‘ نے قیام پاکستان کے لیے سخت جدوجہد ہی نہیں کی، بلکہ قیام پاکستان کے بعد بھی ان کی صحت ملک کے وجود کو برقرار رکھنے کی جدوجہد میں بہت زیادہ متاثر ہوتی رہی اور سال بھر میں قائد اور ان کے مخلص رفقا ملک کو کم از کم اس لائق بناگئے کہ پھر اس کی سانسوں کی ڈور ٹوٹنے کے فوری خطرات دور ہوتے گئے۔
بانی پاکستان کی موجودگی کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ 11 ستمبر1948 ء کو قائداعظم کی آنکھ بند ہوتے ہی 13 ستمبر کو پاکستان کی معاشی کفالت میں اہم کردار ادا کرکے ہندوستان کے وجود میں گھری ہوئی آزاد ریاست حیدرآباد، دکن عتاب کا نشانہ بنی اور لشکرکشی کے ذریعے 17 ستمبر 1948ء کو اس کا خودمختار وجود ہندوستان میں ضم کردیا گیا۔۔۔! دوسری طرف ملک کے داخلی مسائل بھی سر اٹھانے لگے، جسے قائد ملت نے حتٰی الامکان حل کرنے کی سعی کی، یہاں تک کہ ان محلاتی سازشوں کے بعد 1951ء میں اپنی جان تک وار دی۔۔۔ اس کے بعد تو گویا آخری رکاوٹ بھی ہٹ گئی اور سیاسی معاملات میں افسرشاہی کا اثر رسوخ بڑھتا ہی چلا گیا۔۔۔ جس کے سنگین اور دوررَس نتائج مرتب ہوئے، بلکہ آج تک اثرات دکھارہے ہیں۔۔۔
1952ء میں مشرقی پاکستان میں بنگلا زبان کی تحریک اٹھی، اب اردو زبان کے لیے استدلال کرنے والے محمد علی جناح تو کیا لیاقت علی بھی موجود نہ تھے، سو 21 فروری 1952ء کو وہاں بنگلا زبان کے حوالے سے احتجاج کے دوران گولیاں چل گئیں اور چار طلبا جان سے گئے۔۔۔! پھر 1953ء میں مذہبی مسئلے پر لاہور شہر میں مارشل لا نافذ کرنا پڑا۔۔۔ اب مملکتی امور میں غیرسیاسی اور غیرجمہوری عناصر کا غلبہ بڑھنے لگا اور 1951ء میں فوج کے کمانڈر انچیف بننے والے جنرل ایوب خان کو ’وزیرِدفاع‘ بنا کر وفاقی کابینہ میں لابٹھایا۔۔۔ اور پھر 24 اکتوبر 1955ء کو پہلی دستور ساز اسمبلی برخاست کرکے ملکی سیاست میں خرابیوں کو دوام بخشنے کی بنیاد رکھ دی گئی۔۔۔ جس کے بعد خداخدا کرکے 1956ء میں ملک کا پہلا دستور بنایا گیا، لیکن اس میں قائداعظم کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اردو کے ساتھ ساتھ بنگلا کو بھی ’قومی زبان‘ قرار دیا گیا اور پھر 1962ء کے جنرل ایوب خان کے آئین میں بھی یہی صورت حال رہی، لیکن اس کے باوجود بھی 1971ء میں مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہوا۔۔۔! یہاں اس بات کا جواب بھی مل جاتا ہے کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ قائداعظم کی جانب سے اردو کو واحد قومی زبان رکھنے کی وجہ سے پاکستان ٹوٹا! جب کہ تاریخی حقیقت ہے کہ بنگلا کو قومی زبان مان لینے کے باوجود یہ سانحہ ہوا۔ اردو زبان پر ’سقوط ڈھاکا‘ کا سارا ملبا ڈالنے والے دراصل ناانصافی اور استحصال کی اصل وجوہات پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔۔۔ جن میں سے ایک وجہ قائداعظم کا دارالحکومت کراچی سے اٹھا کر اسلام آباد بنانا بھی تھا۔۔۔! اس امر نے بھی بنگالی بھائیوں کا ریاست پر سے اعتماد کم کیا، کیوں کہ کراچی جیسا ساحلی شہر ان کے لیے قریب بھی تھا اور قدرے اپنائیت بھی رکھتا تھا، لیکن آمرِاول جنرل ایوب خان نے 1958ء میں جہاں سیاسی اور جمہوری نظام کو پائمال کیا، وہیں قائداعظم کے حکم پر بنائے گئے دارالحکومت کو بھی اپنے آبائی گاؤں ’ریحانہ‘ کے قریب ایک ویرانے میں لاکر آباد کیا اور اس کے بعد سے پاکستان کے سیاسی معاملات کا گویا قبلہ ہی یک سر بدل گیا اور غیرجمہوری رویوں اور غیرجمہوری قوتوں کو خوب راہ ملی اور بنگالی شہریوں میں یہ احساس ہوا کہ اسلام آباد ان کے وسائل غصب کر کے تعمیر کیا گیا ہے۔
آج بھی بہت سے عاقبت نااندیش لوگ اہم قومی امور میں قائداعظم کی کھینچی گئی واضح لکیر پر اپنی اپنی بقراطیت جھاڑتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور ایسی قوتوں کے مفادات کی تکمیل کرتے ہیں، جو ہمارے ضمیر ، ظرف اور مفادات کے یک سر خلاف ہیں، اس میں بالخصوص قابض ریاست اسرائیل کے حوالے سے پالیسی کی تبدیلی بھی ہے، جس کے وجود کو قائداعظم نے عربوں کے سینے میں خنجر سے تعبیر کیا تھا۔ آج بعض عناصر ’نئے حالات‘ اور ’وقت کے تقاضے‘ کے نام پر بانی پاکستان کی دی گئی اس پالیسی سے صرف نظر کرنا چاہتے ہیں، انھیں ذرا ہماری تاریخ دیکھ لینی چاہیے کہ جہاں جہاں قائداعظم کے فرمودات کی خلاف ورزی کی گئی، وہاں وہاں ہمیں کیسے کیسے ناقابل تلافی نقصان اٹھانے پڑے ہیں۔