
ہم جو باتیں کرنے جا رہے ہیں، اُنہیں بہتر طریقے سے سمجھنے کے لیے قدرت کے ایک اہم اصول کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے، ہیٹ انرجی ہمیشہ زیادہ درجہ حرارت والی چیز سے کم درجہ حرارت والی چیز کی طرف جاتی ہے اور دونوں کے درجہ حرارت میں جتنا زیادہ فرق ہوگا، ہیٹ اتنی ہی تیزی سے منتقل ہوگی۔
اب سوال یہ ہے کہ ٹھنڈے موسم میں جب ہوا بھی چل رہی ہو تو ہمیں ٹھنڈک زیادہ کیوں محسوس ہوتی ہے؟ بہت سرد علاقوں میں یہ احساس ونڈ چل فیکٹر کہلاتا ہے۔ اگر ہوا کا درجہ حرارت 10 ڈگری سینٹی گریڈ ہو تو اس کی رفتار کے مطابق سائنس دان یہ طے کرتے ہیں کہ ہمیں وہ 10 ڈگری کیسی محسوس ہوگی، ممکن ہے 5 ڈگری کی طرح۔
انسانی جسم کا نارمل درجہ حرارت تقریباً 37 ڈگری سینٹی گریڈ (یا 97 ڈگری فارن ہائیٹ) ہوتا ہے۔ جب ہمارے جسم کا درجہ حرارت 37 ڈگری ہو اور ماحول کا 10 ڈگری، تو ہیٹ انرجی ہماری جلد سے باہر کی طرف جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ٹھنڈک محسوس کرتے ہیں۔
اب اگر ہوا بالکل رکی ہوئی ہو تو ہماری جلد کے ساتھ لگی ہوا کے مالیکیول کچھ ہی دیر میں ہماری جسمانی حرارت سے کچھ گرم ہو جاتے ہیں—مثلاً وہ 10 سے بڑھ کر 13 یا 14 ڈگری پر آ جاتے ہیں۔ اس سے ہیٹ کا بہاؤ کچھ کم ہو جاتا ہے اور ہمیں نسبتاً کم ٹھنڈ لگتی ہے۔
لیکن اگر ہوا مسلسل چل رہی ہو تو پرانی ہوا کے مالیکیول جلد سے ہٹ کر فوراً نئی ٹھنڈی ہوا آ جاتی ہے، جو بار بار جلد کی حرارت جذب کرتی ہے۔ جتنی تیز ہوا ہوگی، اتنی ہی تیزی سے ہیٹ انرجی کا اخراج ہوگا، اور ہم کو زیادہ ٹھنڈ لگے گی۔ یہی وجہ ہے کہ سائنسدان ونڈ چل فیکٹر کے ذریعے بتاتے ہیں کہ چلتی ہوا کا ٹمپریچر ہمیں اصل سے زیادہ سرد کیوں محسوس ہوتا ہے۔
مثلاً اگر ہوا کا درجہ حرارت 10 ڈگری ہو اور رفتار 40 کلومیٹر فی گھنٹہ، تو اس کا اثر ویسا ہوگا جیسا کہ رکی ہوئی 5 ڈگری کی ہوا۔
اب ایک اور سوال: اگر پانی اور ہوا دونوں کا درجہ حرارت 10 ڈگری ہو، تو پانی ہمیں زیادہ ٹھنڈا کیوں لگتا ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ پانی کی کثافت (ڈینسٹی ) ہوا کے مقابلے میں تقریباً ہزار گنا زیادہ ہوتی ہے۔ مطلب یہ کہ پانی میں ہمارے جسم سے زیادہ ہیٹ انرجی نکلتی ہے کیونکہ زیادہ مالیکیول جلد کے رابطے میں آتے ہیں۔ اسی لیے ہم پانی کو ہوا کے مقابلے زیادہ ٹھنڈا محسوس کرتے ہیں، چاہے دونوں کا درجہ حرارت ایک جیسا ہو۔
اسی اصول کے تحت اگر باہر کی ہوا زیرو ڈگری پر ہو تو ہم کچھ وقت باہر رہ سکتے ہیں لیکن اگر زیرو ڈگری والے پانی میں چلے جائیں تو جلد ہی جسم کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
یہی اصول ہم گھریلو تجربات میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔ مثلاً اگر آپ شربت کی بوتل جلدی ٹھنڈی کرنا چاہتے ہیں تو اسے فریج میں رکھنے کے بجائے برف اور پانی کے آمیزے والے جگ میں رکھیں۔ پانی کی کثافت اور برف کی ٹھنڈک کی وجہ سے ٹھنڈا ہونے کا عمل تیز ہو جائے گا۔
اسی اصول پر آئس کریم بنانے والی مشین کام کرتی ہے۔ اس میں برتن کے ارد گرد برف اور نمک کا آمیزہ ڈالا جاتا ہے۔ برف کا درجہ حرارت تقریباً -10 ڈگری سینٹی گریڈ ہوتا ہے۔ نمک شامل ہونے سے برف تیزی سے پگھلتی ہے مگر درجہ حرارت وہی رہتا ہے۔ جب آئس کریم والا مائع اس ٹھنڈے آمیزے سے گھمایا جاتا ہے تو زیادہ ٹھنڈے پانی کے مالیکیول اس سے ہیٹ انرجی کھینچ لیتے ہیں اور مائع جلد جم جاتا ہے۔
موسم کی ٹھنڈک، ہوا کی رفتار، پانی کی کثافت اور جسمانی حرارت—یہ تمام عناصر ایک ساتھ مل کر ہمارے احساسِ سردی کو متعین کرتے ہیں۔ آئندہ شمارے میں ہم مزید دلچسپ سائنسی مشاہدات پر بات کریں گے۔