
لوک سبھا انتخابات 2024 میں گرتے پڑتے کسی طرح کامیابی حاصل کرنے کے بعد ایک بار پھر منظر عام پر آنے والی بی جے پی زیر قیادت مرکزی حکومت کے دعووں اور وعدوں سے ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ شاید موجودہ حکمرانوں نے انتخابات میں عوامی رد عمل سے سبق لیا ہے اور مسلم دشمنی سے توبہ کر کے ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ضروری اقدامات کریں گے۔ مگر ماہرینِ سیاست کے تمام اندازوں اور اشاروں کو پاؤں تلے روندتے ہوئے اقتدار حاصل کرنے والے عوامی نمائندوں نے پھر وہی طرزِ عمل اختیار کیا جو ہندوستان کا مہذب سماج کسی بھی قیمت پر برداشت نہیں کرتا۔ موجودہ حالات میں ایسا لگ رہا ہے کہ ملک کی اقلیت اور اکثریت کو ایک دوسرے کو مارنے کاٹنے پر آمادہ کیا جا رہا ہے۔
اس ناگفتہ بہ صورتِ حال کے لیے مقتدرہ سے زیادہ وہ لوگ گنہگار ہیں جنہیں سماج نے سر آنکھوں پر بٹھا کر عزت اور شہرت سے نوازا ہے۔ ایسے لوگوں نے اپنے پیروکاروں اور مقلدین کو حیوانیت کے ریگستان میں در در کی ٹھوکریں کھانے اور مرنے کے لیے چھوڑ دیا ہے۔ حد تو یہ ہو گئی ہے کہ آج وہ لوگ جنہیں مسلمانوں کی حمایت حاصل ہونے کی وجہ سے ایوانِ اقتدار میں معزز مہمان کا درجہ دیا جاتا تھا، حکومت کے تلوے چاٹ رہے ہیں اور گمراہ کن بیانیوں اور پروپیگنڈے سے مسلمانوں کو ہی بدنام کر رہے ہیں۔ حالانکہ ایسے افراد کی لیاقت اور صلاحیت سے ہر کوئی واقف ہے اور یہ بھی جانتے ہیں کہ اس کا کوئی اثر ہونے والا نہیں، مگر اس سے مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کرنے والوں کو حوصلہ مل رہا ہے۔