
[ad_1]
اسلاموفوبیا کے خلاف عالمی دن کے موقع پر اقوام متحدہ نے حکومتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سماجی ہم آہنگی کو فروغ دیں، مذہبی آزادی کا تحفظ کریں اور آن لائن نفرت و ایذا رسانی کو روکیں۔

تصویر سوشل میڈیا
اقوام متحدہ کے سربراہ نے ہر انسان کو اسلاموفوبیا کے خلاف لڑنے کی ترغیب دیتے ہوئے کہا ہے کہ نسلی پروفائلنگ اور امتیازی پالیسیاں انسانی حقوق اور وقار کی خلاف ورزی کرتی ہیں، اور افراد اور عبادت گاہوں کے خلاف تشدد کا باعث بنتی ہیں۔15 مارچ کو اسلامو فوبیا کے خلاف عالمی دن کے موقع پر، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹریس نے کہا کہ یہ عدم برداشت، انتہاپسند نظریات، اور مذہبی گروپوں اور کمزور آبادیوں پر حملوں کی ایک وسیع لعنت کا حصہ ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ جب ایک گروہ پر حملہ ہوتا ہے تو سب کے حقوق اور آزادیوں کو خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ انہوں نے دنیا بھر کے لوگوں سے تعصب کو مسترد کرنے اور امتیاز کے خلاف آواز اٹھانے کی درخواست کی۔ انہوں نے حکومتوں پر زور دیا کہ وہ سماجی ہم آہنگی کو فروغ دیں، مذہبی آزادی کا تحفظ کریں اور آن لائن پلیٹ فارمز پر نفرت انگیز تقاریر اور ایذارسانی کو روکیں۔ گوٹریس نے کہا کہ ’’اسلامو فوبیا سے نمٹنے کے عالمی دن پر، آئیے ہم سب مل کر مساوات، انسانی حقوق اور وقار کا احترام کریں اور ایسے جامع معاشروں کی تشکیل کریں جہاں ہر شخص، اپنے عقیدے سے قطع نظر، امن اور ہم آہنگی کے ساتھ رہ سکے۔‘‘
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اقوام متحدہ کے سربراہ نے گزشتہ دنوں مسلمانوں کے مقدس مہینے رمضان میں میانمار کے روہنگیا پناہ گزینوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے بنگلہ دیش کا دورہ کیا ۔ 14 مارچ کو جنوبی کاکس بازار میں انہوں نے ان پناہ گزینوں سے ملاقات کی اور ان کے ساتھ افطار کیا۔ گوٹریس نے کہا کہ رمضان ہمدردی، خدا ترسی اور فیاضی کی اقدار یاد دلاتا ہے جو انسانیت کو آپس میں جوڑتی ہیں۔ بنگلہ دیش ان اقدار کی ترجمانی کرتا ہے جس نے 10 لاکھ سے زیادہ روہنگیا پناہ گزینوں کو تحفظ فراہم کیا ہے۔ انہوں نے روہنگیا پناہ گزینوں کی مدد جاری رکھنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ بنگلہ دیش نے بھاری سماجی، ماحولیاتی اور معاشی قیمت چکاتے ہوئے ان لوگوں کے حوالے سے یکجہتی اور انسانی وقار کا مظاہرہ کیا ہے۔ تاہم، امدادی وسائل میں آنے والی کمی کے باعث پناہ گزینوں کا بحران مزید بگڑ سکتا ہے۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر ایسی صورتحال پیدا ہوئی تو لوگوں کی تکالیف میں اضافے اور اموات کا خدشہ ہے۔
روہنگیا پناہ گزین بنگلہ دیش کے ہمسایہ ملک میانمار میں تشدد سے فرار ہو کر آئے تھے۔ 2017 میں میانمار کی سیکورٹی فورسز کے وحشیانہ حملوں کے بعد سب سے بڑا اخراج اور واقعات کا ایک سلسلہ ہے جسے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے اس وقت کے ہائی کمشنر زید رعد الحسین نے ’نسلی صفائی کی درسی کتاب کی مثال‘ قرار دیا تھا۔
دریں اثنا، 15 مارچ کو اقوام متحدہ کے رکن ممالک مسلم مخلاف جذبات میں تشویشناک اضافے کی طرف توجہ دلانے کے لیےجنرل اسمبلی میں ایک تقریب میں شامل ہوئے۔اس موقع پر اپنے خطاب میں جنرل اسمبلی کے صدر فیلیمن یانگ نے نفرت کو بھڑکانے میں انتہاپسند نظریات کے کردار پر توجہ دی۔ انہوں نے کہا، “ہم اسلام کو بدنیتی پر مبنی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے” یانگ نے مذہب سے وابستہ تشدد کے بیانیے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اسلامو فوبیا کوئی الگ تھلگ مسئلہ نہیں ہےبلکہ اس کا تعلق زینو فوبیا، عدم برداشت، نسل پرستی، جنس پرستی اور نفرت انگیز تقاریر کے بے تحاشہ پھیلاؤ سے جڑا ہوا ہے۔انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اسلامو فوبیا کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک وسیع تر عزم کی ضرورت ہے، خاص طور پر مسلم خواتین کی تصویر کشی کے حوالے سے۔ مسلم خواتین کو اضافی دشمنی کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ ان کے مذہب کی وجہ سے ان کی انتہائی غیر منصفانہ تصویر کشی کی جاتی ہے اور انہیں مظلوم کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ انہوں نے ایسی جامع پالیسیوں کی ضرورت پر زور دیا جو تنوع کا جشن منائیں اور سب کے لیے مساوی حقوق کو یقینی بنائیں۔
اسلامو فوبیا کا مقابلہ کرنے کی وسیع تر اپیل کرتے ہوئے ’تہذیبوں کے اتحاد‘ کے لیے اقوام متحدہ کے اعلیٰ نمائندے میگوئل اینجل موراتینوس نے اتحاد اور باہمی افہام و تفہیم کی اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ ہم سب کو ہر قسم کی نفرت اور امتیاز کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے۔ حکومتوں کو چاہیے کہ وہ ایسا ماحول پیدا کریں جس میں پرامن مکالمے کو فروغ ملے اور تمام مذاہب اور معاشروں میں ایک دوسرے کے لیے احترام کے جذبات تقویت پائیں۔
واضح رہے کہ عالمی ادارے نے 2022 میں اسلامو فوبیا کے خلاف عالمی دن کا آغاز کیا تھا، متفقہ طور پر ایک قرارداد کے ذریعے اس دن کو منظور کیا گیا، جس میں انسانی حقوق کے احترام اور مختلف مذاہب اور عقائد کے تنوع کی بنیاد پر ہر سطح پر رواداری اور امن کے کلچر کو فروغ دینے کے لیے بین الاقوامی کوششوں کو مضبوط کرنے پر زور دیا تھا۔اس میں مذہب یا عقیدے کی بنیاد پر لوگوں کے خلاف تشدد کی تمام کارروائیوں اور عبادت گاہوں پر حملوں کی شدید مذمت بھی کی گئی تھی۔
[ad_2]
Source link