فلسطین وعزرائیل بحران کاحل قتل وغارت گری ہرگزنہیں
محسن انسانیت پیغمبر اسلام جناب محمد رسول اللہ ﷺپر غار حرا میں جب پہلی بار وحی نازل ہوئی، تو اُس کے باعث آپ ﷺکچھ گھبرائے اور اپنے ساتھ پیش آنے والی جملہ چیزوں کو اپنی شریک حیات اُم المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے ساجھا کیا اور اپنی گھبراہٹ کا اظہار بھی کیا۔ اس موقع پر سیدہ خدیجہ نے جو نپی تلی باتیں کہی تھیں وہ یہ کہ آپ کوبالکل نہیں گھبراناچاہیے۔ کیوں کہ آپ تو مظلوموں اور محتاجوں کی امداد کرتے ہیں۔بےکسوں اور بے سہاروں کا سہارا بنتے ہیں۔ بھوکوں کو کھانا کھلاتےہیں۔ احباب و اقارب کے ساتھ صلہ رحمی کرتے ہیں۔انسانی جان ومال اور عزت وآبرو کی حفاظت کرتے ہیں اور جب قدرتی آفات و بلیات آتی ہیں تو بلاتفریق متاثرین کی حاجتیں بھی پوری کرتے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ اَیسا کرنے والے کو اللہ، کبھی رسوا نہیں فرمائےگا، کبھی ہلاک نہیں فرمائےگا۔ چناں چہ اِس کا نتیجہ بالکل ویسا ہی نکلا جیساکہ سیدہ خدیجہ نے آپ ﷺ سے کہا تھا۔ آپ کو اِعلان نبوت کا حکم ہوا۔ آپ نے حکم ربانی کی تعمیل فرمائی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے آپ ﷺ پوری کائنات پر اِنسان کامل کی حیثیت سے چھا گئے اور اِسی بس نہیں ہوا، بلکہ کائنات میں پائے جانے والے تمام مذاہب وملل کے سربراہان وسرداران نے آپ ﷺ کے اعلی اخلاق و کردار کا اقرار کیا اور تسلیم بھی کیا۔ البتہ! جن کی تقدیر میں ہدایت تھی وہ ہدایت پاگئے اور جن کی تقدیر میں ہدایت نہیں تھی وہ محروم رہ گئے۔
قطع نظر اِس سےکہ کون ہدایت یافتہ کہلایا اور کون نہیں، اس سلسلے میں قابل غور پہلو یہ ہے کہ سیدہ خدیجہ نے آپ ﷺ کے اخلاق و کردار سے متعلق جو بھی باتیں کہی تھیں وہ صدفیصد درست ثابت ہوئیں۔ مزید یہ کہ آپ ﷺ کے متذکرہ اخلاق و کردار محض وقتی نہیں تھے اور ایسا بھی نہیں ہوا کہ آپ ﷺ نے اعلان نبوت تک ہی اپنے اخلاق وکردار محدود کر رکھے ہوں۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ مہد سے لحد تک آپ ﷺ اپنے اخلاق و کردار پر قائم و دائم رہے اور اپنے اصحاب کو بھی ان پر قائم و دائم رہنے کی تلقین و تحکیم فرماتے رہے۔ یہاں تک کہ آپ ﷺ کے یہ حسن معاملات اور یہ مکارم اخلاق عام زندگی سے لے کر جنگ و جدال کے میدان تک نمایاں نظر آتے ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب آپ ﷺ کی افواج مقابلہ آرائی کے لیے نکلتیں تو اُنھیں یہ سخت تاکید کی جاتی تھی کہ خبردار! عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو قتل نہ کیا جائے۔ بلکہ اگر اُن میں سے کوئی مقابلہ آرائی پر آمادہ بھی نظر آئے تو اُسے نظر اَنداز کردیا جائے۔ مظلوموں، بےکسوں اور کمزوروں کی مدد کی جائے۔ باغات اور ہریالیوں کو تباہ نہ کیا جائے۔ کھیت کھلیان کو آگ نہ لگایا جائے۔ اشیائے خوردنی کو نقصان نہ پہنچایا جائے۔لیکن موجودہ ترقی یافتہ اورتعلیم یافتہ عہد کو دیکھ لیا جائےکہ انسانوں کے ساتھ کس قدر حیوانیت کا مظاہرہ کیا جارہا ہے اور کس قدر اِنسانی جان ومال اور عزت وآبرو کا ضیاع ہورہا ہے۔چناں چہ ایسے وحشت ناک مواقع پر محسن انسانیت جناب محمد رسول ﷺ کی تعلیمات سے رہنمائی حاصل کرنےکی ضرورت ہے۔ کیوںکہ اہل دنیاآج لاکھ جدید علوم و فنون سے مزین ہو جائیں اور جدید ترین ٹیکنالوجی سے مسلح ہو جائیں، لیکن جب تک جنگی معاملات کے حل تلاش کرتے وقت تعلیمات نبوی کا پاس ولحاظ نہیں رکھا جائے اُس وقت تک کامیابی کا حصول انتہائی مشکل ہے۔
خیال رہے کہ جب سے عزرائیل نے فلسطین کی سر زمین پر قدم رکھا اور خود کو کچھ مستحکم کرلیا تبھی سے سرداری اور برتری کی یہ جنگ چھڑی ہوئی ہے۔ جدید ترین اسلحہ جات کے لحاظ سے عزرائیل کے بالمقابل، فلسطین دور دور تک کہیںنظر نہیں آتا۔ لیکن اِس کے باوجود عزرائیل، فلسطین کو قابو میں نہیں کرپا رہا ہے۔اِس لیے فلسطین پر یکطرفہ زور آزمائی کرنےسے بہترہے کہ سب سےپہلے اُس کے حقوق اُسے دیے جائیں اور اُس خطے میں بالخصوص ’’جیو اور جینے دو‘‘ جیسے فارمولے کو فروغ دیا جائے، تبھی کامیابی اور کامرانی ممکن ہے۔ خواہ ملکی سطح پرہو یا عالمی سطح پر ،اور سیاسی سطح پرہو یا سماجی سطح پر۔ اِس سلسلےمیںعزرائیل کو بالخصوص غوروفکر سے کام لیناچاہیے ۔بلکہ جس اولو العزم پیغمبر کو وہ اپنا مسیحا مانتا ہے اور جس پیغمبر کی یادگار(ہیکل سلیمانی) کو قائم رکھنے کی خاطر یہ اقدام کیے جارہا ہے پہلے اُس پیغمبر کی تعلیمات وافکار پر غوروفکر کرے ۔ اگر ایمانداری سے عزرائیل اپنے پیغمبران کی تعلیمات و افکار کو سمجھ لیتاہےاور اُسے اپنے قلب ونظر میں بسالیتا ہے تو وہ بھی اس صداقت سے آگاہ ہو جائےگا کہ جو مظلوموں کا خیال نہیں رکھتا۔ کمزوروں اور بےسہاروں کے ساتھ رحم وکرم کا معاملہ نہیں رکھتا،بیماروں کا لحاظ نہیں رکھتااور اِنسانوں کی جان ومال اور عزت وآبرو کی پرواہ نہیں کرتا، تو تمام تر قدرتوں اوروسائل رکھنے کے باوجود نامرادہی رَہتا ہے۔ لہٰذا گذشتہ تقریباً ستربرسوں کے احوال یہی بتاتے ہیں کہ موجودہ فلسطین وعزرائیل کے مابین مقابلہ آرائی کا حال بھی کچھ اِسی نوع کا ہے کہ عزرائیل کسی بھی صورت فلسطینیوں کو اُن کےحقوق دینے کے لیے تیار ہے اورنہ ہی بحیثیت انسان اُن پر رحم کرنے کے لیے راضی ہے اور حد تو یہ ہے کہ قصوروار کوئی اورہے اور اِنتقام کسی اور سے لیا جارہا ہے۔ابھی حالیہ اسپتالوںپر عزرائیلی حملہ سے یہی اندازہ ہوتا ہے۔
آج فلسطین وعزرائیل معاملے کے پردےمیں جس قدر اِنسانیت سوزی اور دہشت گردی مچائی جارہی ہے وہ کسی بھی صورت اور کسی کے لیے بھی ہرگز نیک فال نہیں ہوسکتا،خواہ فلسطین ہو،عزرائیل یا پھر دیگرعالمی ممالک ہوں۔ کیوںکہ انسانیت سوزی اور دہشت گردی ہرایک کے لیے انتہائی غیرمفیدہے، اور آج ہم سبھی لوگ اِس کا مشاہدہ بھی بخوبی کر رہے ہیںکہ آج فلسطین و عزرائیل کی جنگی پالیسیوں نے پوری دنیا کو اِپنی چپیٹ میں لے رکھا ہے۔یہاں تک کہ تمام تر سیاسی وسماجی، اقتصادی ومعاشی اور صنعت وحرفت کا معاملہ، فلسطین وعزرائیل کے سبب نشیب وفراز اور یقینی بےیقینی کی منزل میں مبتلاہوچکا ہے۔ چناں چہ عالمی طاقتیں آگے آئیں، اپنی منصفانہ آنکھیں کھولیں اور ظالم و غاصب اور مجرم و ملزم کسے باشد، اُنھیں قابو میں رکھنے کے لیے سخت ترین اقدام اُٹھائیں۔ تاکہ انسانیت سوزی، حیوانیت اور دہشت گردی کے خاتمے کے ساتھ ہرایک ملک وملت کی جان ومال اور عزت وآبرو محفوظ رہ سکے۔ ورنہ وہ دن دور نہیں کہ فلسطین وعزرائیل معاملے میں عالمی غفلت چاہے وہ جس نوع کی ہو، پوری دنیا کوجنگ در جنگ کے غار میں ڈھکیل سکتی ہےاور یہ بھی یاد رہے کہ فلسطین وعزرائیل بحران کا حل قتل و غارت گری میں ہرگز نہیں ہے۔