کراچی: آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی جانب سے معروف شاعر احمد فراز کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے تقریب کا اہتمام کیا گیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق تقریب میں زہرہ نگاہ، پیرزادہ قاسم رضا صدیقی، مظہر عباس، غازی صلاح الدین، رضا صدیقی، عنبرین حسیب عنبر اور فاضل جمیلی نے اظہار خیال کیا جبکہ نظامت کے فرائض شکیل خان نے ادا کیے۔
زہرہ نگاہ نے صدارتی خطبے میں کہا کہ یہ اچھی بات ہے ہم ان عظیم لوگوں کو یاد کرتے ہیں جو ہمارے لیے ادبی خزانہ چھوڑ جاتے ہیں۔احمد فراز بھی ہمارے لیے نہایت خوبصورت اور دل آویز غزلوں کے تحفے چھوڑ گئے ہیں۔ بہت کم شاعر ہوتے ہیں جن کی قدروقیمت ان کی زندگی میں ہی ہو جاتی ہیں ۔ احمد فراز اس لحاظ سے خوش قسمت شاعر تھے کہ ان کی پذیرائی ان کی حیا ت میں ہی ہوگئی تھی۔
غازی صلاح الد ین نے کہا کہ احمد فراز کے الفاظ سادہ تھے لیکن دل پر گہرا اثر رکھتے تھے۔ مزاحمتی شاعری کرنا آسان نہیں ہوتا ۔ مزاحمتی شاعری اپنے ساتھ مخالفت لاتی ہے۔ احمد فراز نے تمام مخالفت کا بہادری سے سامنا کیا۔
پیر زادہ قاسم رضا صدیقی نے کہا کہ یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ ہم اتنے بڑے شاعر احمد فراز کو یاد کر رہے ہے۔ احمد فراز کی رومانوی اور مزاحمتی شاعری دونوں آج بھی کافی مقبول ہیں۔ انھوں نے میرا ہر قدم ساتھ دیا۔ احمد فراز کو شاعری کی زبان کی تمام ضرورتیں معلوم تھی۔ جب انسان کے اندر کا اضطراب اور معاشرے سے جھلکتا اضطراب ہم آہنگ ہوتا ہے تو ایک بہترین شاعر بنتا ہے۔
مظہر عباس نے کہا کہ احمد فراز ایک مزاحمتی شاعر کے طور پر سامنے آئے۔ انھوں نے اس دور میں اپنا لوہا منوایا جب فیض احمد فیض، جوش ملیح آبادی ، حبیب جالب جیسے نامور شاعر پہلے ہی موجود تھے۔ ان کی شاعری میں رومانی عنصر بھی حاوی تھا۔
عنبرین حسیب عنبر نے کہا کہ وہ اعلی ظرف انسان تھے ۔ ان کا مزاج غیر شائستہ نہیں تھا۔ اردو شاعری میں احمد فراز کو جو مقام حاصل ہوا وہ بہت کم شاعروں کو حاصل ہوا۔ احمد فراز کو ان کی زندگی میں ہی لوگوں نے تسلیم کرلیا تھا۔ ان کی شاعری میں طبقاتی جدوجہد کا واضح ثبوت ملتا ہے۔ ان کے کلام میں امید ، یقین اور روشن مستقبل کا تصور نمایاں ہے۔ وہ ترقی پسند اور انسان گو شاعر تھے۔
رضا صدیقی نے کہا کے احمد فراز کا نام پہلے احمد شاہ تھا دوستوں کی چھیڑ چھاڑ کی وجہ سے احمد فراز بن گئے۔ فراز کے والد بھی شاعر تھے ۔ فراز کی شاعری صاف دریا کی طرح جس کے سامنے حاسدین کی شاعری گدلے پانی کی طرح ہے۔ فراز اور میر کی شاعری کا سلیقہ منفرد تھا ۔ فراز کی شہرت کا فائدہ دوسرے لوگوں نے بھی اٹھایا۔